مستعرب (انگریزی: Arabist) ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو عرب قوم اور عرب ممالک سے تعلق نہ رکھتا ہو مگر وہ عربی زبان، عربی ثقافت اور بالخصوص عربی ادب کا نہ صرف مطالعہ کرتا ہو بلکہ اس میں مہارت بھی رکھتا ہو۔

ریاض میں ایک برطانوی مستعرب

آغاز

ترمیم

مستعربوں کا آغاز اسلامی اندلس میں ہوا۔ اندلس عالم اسلام اور عالم مسیحیت کے درمیان میں حد فاصل یا پل کا کام کرتا تھا۔ ہر زمانہ میں کوئی ایک اسلامی یا مسیحی حکومت علما کا احترام کرتی رہی ہے۔ 10ویں صدی میں عربی کتابوں کا لاطینی زبانوں میں ترجمہ ہونا شروع ہو گیا۔ ریاضی، فلکیات جیسے موضوعات کو خاصی اہمیت دی گئی۔[حوالہ درکار]

عربی متون کا ترجمہ یورپ کی زبانِ رابطۂ عامہ عہد وسطی کی لاطینی زبان اور کلیسا کی لاطینی زبان میں کیا گیا۔ ان کے علاوہ عہد وسطی کی ہسپانوی زبان میں بھی کیا گیا جو اس زمانہ کی کثیر الاستعمال زبان تھی۔ ابتدائی مترجمین نے ابن سینا، الغزالی، سلیمان بن جنریل]] کی فلکیات، علم نجوم اور طب کی کتب پر توجہ دی۔ انھوں نے کچھ قدیم یونانی فلسفیوں جیسے ارسطو کو بھی خوب توجہ دی ہو عالم مسیحیت میں افلاطون کے برخلاف زیادہ مشہور نہیں تھا۔ جس وقت الغزالی، ابن سینا اور ابن رشد کی کتابوں کا ترجمہ ہو رہا تھا اس وقت مسیحی یورپ میں متکب فلسفہ رشدیت کا رواج عام ہو رہا تھا۔

یہ وہ دور تھا جب یورپی دنیا علم عرب کو اپنی زبان میں منتقل کررہی تھی اور علم کے اس ادھار میں الفسونو دہم (1221ء-1284ء) کو خوب شہرت اور عزت ملی جس نے عرب کے اہم علمی خزانوں کو لاطینی زبان میں منتقل کرنے کا حکم دیا۔ اسی دور میں پہلی دفعہ ہسپانوی زبان میں قران کا ترجمہ ہوا۔ قران کے علاوہ عربی زبان کی مایہ ناز کتابیں جیسے کلیلہ و دمنہ، معراج وغیرہ بھی ترجمہ کی گئیں۔

الفونسو کی محنت، لگن اور علم کے تئیں اس کے لگاو کی وجہ سے یورپ کو ایک بہترین علمی ذخیرہ ہاتھ آ گیا اور ہسپانوی زبان علم و ادب سے مالا مال ہو گئی۔

مشرقی وسطی کے مستعرب

ترمیم

مشرق وسطی کے چند مایہ ناز مستعربوں میں مراکش کے حایم زعفرانی، مصر کے احمد زکی پاشا، لبنان کے طارف خالدی، ترکی کے مہمت ہکی، اسرائیل کے زوی الفلیگ اور ولیم دف ہیں۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Bill Duff"۔ Independent۔ 13 مارچ 2014۔ 02 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ دسمبر 31, 2014