عالمی مقامیابی نظام
عالمی مقامیابی نظام (انگریزی: Global Positioning System) ایک عالمی جہازرانی سیارچی نظام (global navigation satellite system) جو ریاستہائے متحدہ کے شعبۂ دفاع نے بنایا ہے۔ یہ نظام وسطی زمینی مدار کے سیارچوں کا ایک جُھرمٹ استعمال کرتا ہے جس میں 24 سے لے کر 32 تک سیارچے شامل ہیں، جو دُرست ریزموجی اِشارات کی ترسیل کرتی ہیں۔ اِن ریزموجی اِشارات کے ذریعے جی.پی.ایس گیرندہ اپنے مقام، رفتار، سمت اور وقت کا تعین کرتا ہے۔ یہ نظام ریاست ہائے متحدہ امریکا کے محکمۂ دفاع کی تخلیق ہے۔ اِس کا سرکاری نام نائیوسٹار-جی۔ پی۔ ایس (NAVSTAR-GPS) ہے۔ جی۔ پی۔ ایس سیارچوی جھرمٹ کا اہتمام ریاست ہائے متحدہ امریکا کے فضائیہ کی پچاسویں خلائی شاخ کرتی ہے۔
اِس جیسے اور بھی کئی نظامات ہیں جیسے رُوس کا گلوناس، عنقریب آنے والا یورپی گلیلیو مقامگیری نظام، تجویز شدہ چینی کمپاس مقامیابی نظام اور بھارت کا بھارتی سیارچی نظام برائے خطی جہازرانی (Indian regional navigational satellite system).
طریقۂ کار
ترمیمایک جی پی ایس وصولہ اپنے مقام کے تعین کے لیے جی پی ایس سیارچے سے خارج ہو کر اس تک پہنچنے والے مشعہ اشارہ (radio signal) کے وقت سے کرتا ہے۔ کیونکہ ایک مشعہ اشارے کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوتی ہے اس لیے اس اشارے کا صحیح وقت معلوم ہو جائے تو اس سیارچے تک کا فاصلہ با آسانی معلوم کیا جا سکتا ہے۔
اس نظام میں موجود تمام سیارچے باقاعدگی کے ساتھ اپنا مقام اور اس اشارہ کے خارج کرنے کا وقت مقررہ وقفوں سے بھیجتے رہتے ہیں۔
آلے میں موجود حساس گھڑیاں بالکل صحیح وقت معلوم کرتی ہیں۔ کیونکہ روشنی کی رفتار بے حد تیز ہوتی ہے اس لیے وقت کی تھوڑی سی غلطی فاصلے کی پیمائش میں بہت بڑا فرق ڈال دیتی ہے۔
اس طرح کے چار اشارے چار مختلف سیارچوں سے مل جائیں تو زمین کے کسی بھی مقام کی بالکل ٹھیک ٹھیک نشان دہی ہو سکتی ہے۔ ان میں سے تین اشارے تو ارتفاع، طول بلد اور عرض بلد جبکہ چوتھا اشارہ وقت کی پیمائش کے لیے ضروری ہے۔ تاہم عملی طور پر چار سے جتنے زیادہ سیارچہ اشارے مہیا ہوں گے اس قدر اس مقام کی پیمائش درست ہو گی۔
سائنس دانوں نے ایک طریقہ دریافت کیا ہے جس کی مدد سے سونامی کے خطرے کا زیادہ درست اندازہ لگایا جا سکے گا اور زیادہ جلدی خبردار کیا جا سکے گا۔ ایک جرمن ٹیم نے کہا ہے کہ زلزلے کے چند منٹوں کے اندر اندر جی پی ایس اس کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ ٹیم کا خیال ہے کہ اگر جاپان میں 2011 میں آنے والی سونامی میں یہ ٹیکنالوجی استعمال ہوتی تو لوگوں کو زیادہ جلدی خبردار کیا جا سکتا تھا۔ جب سمندر میں زلزلے کے بعد سونامی کی لہریں بلند ہوتی ہیں تو ہر لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ یہ لہریں منٹوں میں ساحل تک پہنچ کر تباہی مچا سکتی ہیں۔ موجودہ انتباہی نظام علمِ زلزلہ آنے کے بعد زمین کے ارتعاش سے پیدا ہونے والی توانائی کی لہروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن زلزلے کے ابتدائی لمحات میں یہ ڈیٹا ہمیشہ قابلِ اعتماد نہیں ہوتا۔ تاہم اب جرمن ریسرچ سنٹر فار جیو سائنسز کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ سیٹیلائٹ نیویگیشن سے بہتر انتباہی نظام وضع کیا جا سکتا ہے۔ اس نظام میں ایسے ممالک جہاں زلزلے زیادہ آتے ہیں، وہاں ساحلوں پر جی پی ایس سینسر نصب کیے جائیں گے جو زیرِ آب لرزش کو ناپیں گے۔ ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر اینڈریاس ہوشنر کہتے ہیں، ’زلزلے میں زمین کی ایک پلیٹ پھسل کر دوسری کے نیچے چلی جاتی ہے۔ اس سے ساحل کی شکل تھوڑی سی بدل جاتی ہے، جسے جی پی ایس ناپ سکتا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ان معلومات کو زلزلے کا منبع اور شدت معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے: ’اس کے بعد آپ سونامی اور لہروں کی اونچائی کی خاصی درستی کے ساتھ پیشن گوئی کر سکتے ہیں۔‘یہ عمل منٹوں کے اندر مکمل ہو جائے گا، جس سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں کو بہت تیزی سے خبردار کیا جا سکے گا۔2011 میں جاپان میں آنے والی سونامی سے 16 ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس ٹیکنالوجی سے وہاں خاصا فرق پڑ سکتا تھا۔ جاپان کے موسمیاتی ادارے نے زلزلے کے تین منٹ کے اندر اندر خبردار کر دیا تھا، لیکن اس نے زلزلے کے شدت کا کم اندازہ لگایا تھا۔ اس نے تخمینہ لگایا تھا کہ زلزلہ کی شدت 7.9 ہے لیکن اصل میں یہ 30 گنا زیادہ تھی۔ لیکن جاپان کے جی پی ایس سٹیشنوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ اگر انھیں استعمال کیا جاتا تو تین منٹ کے اندر اندر زلزلے کی درست شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ اس وقت چلی اور امریکا سمیت کئی ملکوں میں جی پی ایس نیٹ ورک موجود ہے۔ تاہم ڈاکٹر ہوشنر کہتے ہیں کہ انتباہی نظام کے ساتھ ساتھ لوگوں کے انخلا کا اچھا منصوبہ بھی نافذ ہونا ضروری ہے۔