حاجی علی کی درگاہ ممبئی کے ورلی سمندر کے کنارے ایک چھوٹے سے ٹاپو پر واقع ہے، جوایک مسجِد اور درگاہ پرمشتمل ہے۔ اس درگاہ کی زیارت کے لیے مسلمان ہی نہیں ہندو بھی کثرت سے آتے ہیں۔ اس طرح یہ ممبئی شہر میں سماجی طور پرقومی یک جہتی کی مثال بنی ہوئی ہے۔

حاجی علی کی درگاہ

تاریخ

ترمیم

حاجی علی ٹرسٹ کے مطابق صوفی سیّد پیر حاجی علی شاہ بخاری ازبکستان کے شہر بخارا سے بھارت پہنچے تھے۔ درگاہ 1431ء میں تعمیر کی گئی تھی۔

طرز تعمیر

ترمیم
 
درگاہ کواہم سڑک سے جوڑنے والا راستہ

حاجی علی کی درگاہ ورلی کے سمندرمیں واقع ہے۔ مُکھے سڑک سے لگ بھگ 400 میٹر کی دُوری پر یہ درگاہ ایک چھوٹے سے ٹاپُو پر بنائی گئی ہے۔ یہاں جانے کے لیے شاہراہ سے درگاہ تک سمندر کو پاٹ کرراستہ بنایا گیا ہے۔ اِس سیتو کی اونچائی کافی کم ہے اور اِسکے دونوں طرف سمُند ر ہے۔ درگاہ تک صرف جزر کے وقت ہی جایا جا سکتا ہے۔ بقیہ اوقات میں یہ راستہ پانی کے نیچے ڈُوبا رہتا ہے۔

ٹاپُو جس پر درگاہ واقع ہے، تقرباً 4500مربع میٹرپر پھیلا ہوا ہے۔ درگاہ اور مسجِد کی باہری دیواروں پر روغن کیا گیا ہے۔ درگاہ کے قریب ایک 85 فٹ اونچی مینار ہے، مسجِد کے اندر پیر حاجی علی کی مزار ہے۔ مزار کے چاروں طرف چاندی کی جالی لگی ہوئی ہے۔

 
درگاہ

درگاہ کے احاطے میں سنگ مرمر سے بنے کئی کھمبے ہیں جِن کے اُوپررنگین کانچ سے کلاکاری کی گئی ہے اور اللہ کے 99 نام بھی لکھے گئے ہیں۔

سمندر کی سیلانی ہواوؤں کی وجہ سے درگاہ کی عمارت کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ 1960ء میں آخری باراس کی مرمت کا کام کیا گیا تھا۔

دلچسپ حقائق

ترمیم
  • ہندی فیچر فِلم فضا میں پیر حاجی علی کے اُوپر ایک قوّالی فِلمائی گئی ہے۔
  • مشہور ہندی فیچر فِلم قلی کا آخری منظرحاجی علی درگاہ میں ہی میں فِلمایا گیا ہے۔