ازبکستان، باضابطہ نام جمہوریہ ازبکستان (ازبک زبان: O‘zbekiston Jumhuriyati، اوزبکستون جمہوریتی) وسط ایشیا میں خشکی سے محصور (landlocked) ملک ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب و شمال میں قازقستان، مشرق میں کرغزستان اور تاجکستان اور جنوب میں افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔

ازبکستان
ازبکستان
ازبکستان
پرچم
ازبکستان
ازبکستان
نشان

 

ترانہ:  ازبکستان کا ریاستی ترانہ  ویکی ڈیٹا پر (P85) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زمین و آبادی
متناسقات 41°N 66°E / 41°N 66°E / 41; 66  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
بلند مقام
پست مقام
رقبہ
دارالحکومت تاشقند  ویکی ڈیٹا پر (P36) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری زبان ازبک زبان[2]  ویکی ڈیٹا پر (P37) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
حکمران
طرز حکمرانی صدارتی نظام  ویکی ڈیٹا پر (P122) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعلی ترین منصب شوکت میرضیایف (8 ستمبر 2016–)  ویکی ڈیٹا پر (P35) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سربراہ حکومت عبداللہ عاریپوف (14 دسمبر 2016–)  ویکی ڈیٹا پر (P6) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 1991  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر
شرح بے روزگاری
دیگر اعداد و شمار
منطقۂ وقت متناسق عالمی وقت+05:00  ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹریفک سمت دائیں[3]  ویکی ڈیٹا پر (P1622) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈومین نیم uz.  ویکی ڈیٹا پر (P78) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آیزو 3166-1 الفا-2 UZ  ویکی ڈیٹا پر (P297) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بین الاقوامی فون کوڈ +998  ویکی ڈیٹا پر (P474) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

یہ لیختینستائن کے بعد دنیا کا واحد ملک ہے جو چاروں طرف سے ایسے ممالک میں گھرا ہے جو خود بھی سمندر سے محروم ہیں۔ انگریزی میں اسے doubly landlocked country (دہرا زمین بند ملک) کہا جاتا ہے۔

ملک کی قومی زبان ازبک ہے، جو ترکی اور دیگر ترک زبانوں سے ملتی جلتی ہے۔ چند ذرائع کے مطابق ملک کی کل آبادی کا تقریباً 42 فیصد تاجک النسل ہیں۔ لفظ ازبک کا مطلب حقیقی رہنما ہے، اوز کا معنی حقیقی اور بک کا معنی رہنما ہے۔

تاریخ ترمیم

پہلی ملینیم قبل از مسیح میں ایران کے خانہ بدوش نے وسط ایشیا کی ندیوں پر آبپاشی کا نظام قائم کیا اور بخارا و سمرقند جیسے شہر آباد کیے۔ اپنے محل وقوع کی وجہ سے یہ علاقے بہت جلد آباد ہو گئے اور چین و یورپ کے درمیان میں آمد و رفت کا سب سے اہم راستہ بن گئے، جسے بعد میں شاہراہ ریشم کے نام سے جانا گیا۔ چین و یورپ کے تجارتی راستہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ کافی مالدار ہو گیا۔ اس تجارت سے سب سے زیادہ فائدہ سوغدائی ایرانی قبیلہ کو ہوا۔ ساتویں صدی عیسوی میں ماوراء النہر کہلائے جانے والے اس علاقے میں سب سے بڑا انقلاب اس وقت آیا جب عرب قوم نے یہاں اسلام کا پرچم لہرا دیا اور یوں یہ علاقہ اسلام کے زیر آغوش آگیا۔ 8ویں اور نویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ خلافت عباسیہ کے زیر حکومت تھا اور یہی زمانہ تعلیم اور ثقافت کا سنہری دور مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد ترکوں نے شمال کی جانب سے علاقہ میں دخل اندازی شروع کی اور نئے صوبے آباد کیے، ان میں بہت سے ایرانی نسل کے لوگ بھی تھے۔ 12ویں صدی تک کئی صوبے آباد کیے جا چکے تھے، اب باری تھی ماوراء النہر کو متحد کرنے کی، لہٰذا انھوں نے ایران اور خوارزم کے علاقے کو ملا کر ماوراء النہر کو ایک بڑے صوبے میں منتقل کر دیا جو بحیرہ ارال کے جنوب تک پھیلا ہوا تھا۔ 13ویں صدی کے اوائل میں منگول کے چنگیز خان کی چنگاری یہاں بھی پہنچی اور پورے علاقہ کو تہس نہس کر دیا اور ایرانی بولنے والوں کو وسط ایشیا کے دوسرے علاقوں کی طرف دھکیل دیا۔ امیر تیمور کے زمانے میں ماوراء النہر نے پھر سے پھلنا پھولنا شروع کیا اور اس بار ا س کا مرکز سمرقند تھا۔ تیمور کے بعد یہ صوبہ کئی حصوں میں بٹ گیا اور 1510ء میں ازبیک کے قبائل نے وسط ایشیا پر قبضہ کر لیا۔ [4]

 
شاہراہ ریشم یورپ through افریقا and مغربی ایشیا، تا وسط ایشیا، جنوبی ایشیا، چین، مشرقی ایشیا جنوب مشرقی ایشیا۔

سولہویں صدی میں ازبیک میں دو مد مقابل خانیت آمنے سامنے ہوئے: خانیت بخارا اور خانان خیوہ۔ اس زمانہ میں چونکہ سمندی سفر کامیاب ہو رہا تھا لہٰذا شاہراہ ریشم زوال پزیر ہو گیا۔ خانیت کو ایرانیوں سے جنگ لڑنی پڑی اور ان کا کوئی ساتھی بھی نہیں تھا۔ شمالی گھمککڑوں نے بھی ان پر حملے کر کے ان کو کمزور کر دیا تھا اور وہ الگ تھلگ ہو گئے۔ 1729ء تا 1741ء کے درمیان میں ایران کے نادر شاہ نے خانیت کو ایک علاقہ تک محدود کر دیا۔ 19ویں صدی کے اوائل میں تین ازبیک قبائل- خانیت بخارا، خانیت خیوہ اور خانیت خوقند نے اپنی پسپائی سے ابھرنے کا ہلکا سا دور دیکھا۔ لیکن صدی کے نصف آتے آتے اس کی زرخیزی اور تجارتی مالداری کو روس کی نظر لگ گئی۔ خصوصا اس کی کپاس کی کھیتی ایک اہم ذریعہ تھی جس سے یہاں خوب تجارت ہوتی تھی۔ روس نے اسی لالچ میں وسط ایشیا میں اپنی پوری فوج لگادی۔ 1876ء میں روس نے تینوں خانیت پر قبضہ کر لیا اور موجودہ دور کا ازبکستان اس کی زیر حکومت آگیا اور خانیت کے اختیارات کافی حد تک محدود کر دئے گئے۔ 19ویں صدی کے دوسرے نصف میں روس نے ازبکستان کی روسی آبادی نے ترقی کی اور یہاں انڈسٹری کا آغاز ہوا۔ [4]

بیسویں صدی کا آغاز جدت پسند تحریک کا بیج لے کر نمودار ہوا۔ موجودہ ازبکستان میں شروع ہوئی یہ تحریک نے روس کو یہاں سے بھگا دینے کی مانگ شروع کر دی۔ 1916ء میں وسط ایشیائی لوگوں کے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے کے جواب میں ازبکستان اور دیگر علاقوں میں ایک پرتشدد حزب مخالف کا آغاز ہوا۔ 1917ء میں زار کے خاتمے کے بعد جدت پسندوں نے خانیت خوقند میں ایک مختصر مدتی آزاد ریاست قائم کی۔ بولشویک جماعت کے ماسکو میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد جدت پسند دو حصوں میں بٹ گئے، ایک نے روسی کمیونزم کو اپنایا تو دوسرے نے عام ترقی پسندی کو اختیار کیا اور اسی سے بسماچی تحریک تحریک کی ابتدا ہوئی۔ چونکہ یہ تحریک 1920ء کے اوائل میں کچل دی گئی تھی لہذا فیض اللہ خوجائے جیسے علاقائی لیڈروں نے ازبکستان میں طاقت حاصل کر لی۔ 1924ء میں سویت اتحاد نے ازبک سویت سوشلسٹ ریپبلک قائم کیا جس میں موجودہ تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے۔ 1929ء میں تاجکستان ایک آزاد ریاست بن گیا جس کا نام تاجک سوویت اشتراکی جمہوریہ رکھا گیا۔ 1920-1930ء میں وسیع پیمانے پر فصل کٹائی کی وجہ سے وسط ایشیا ایک بڑے قحط کا شکار ہو گیا۔ 1930ء میں فیض اللہ خوجائے اور دیگر لیڈروں کو سوویت لیڈر جوژف وی اسٹالن (اقتدار: 1927–1953) نے دھوکے سے قتل کر دیا۔ ازبکستان کی سیاست اور مشیعت کی روسی کاری کا دور 1930 سے 1970 تک چلا۔ اس دوران میں روس نے ہرطرح سے علاقہ کو لوٹا اور برباد کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں نے اسٹالن نے قفقاز اور کرائمیا کے تمام قومی گروہوں کو جلا وطن کر دیا اور سب کو ازبکستان بھیج دیا تاکہ وہ لوگ جنگ کے خلاف کوئی متنوع حرکت نہ کرسکیں۔ [4] 1970ء کے آس پاس ازبکستان پر ماسکو کا تسلط کمزور ہوتا گیا کیونکہ ازبک پارٹی کے لیڈر شرف راشدی نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو حکومت کے عہدوں پر فائز کیا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں روس نے پھر سے ازبکستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور وہاں کے سیاسی لیڈروں کو جلاوطن کرنے لگا۔ اس حرکت سے ازبک قومیت کو جلا ملی جو اب تک روسی پالیسیوں سے خفا تھے جیسے کپاس کا مکمل نفع روس کو جانا اور اسلامی اقدارات کو ختم کرنا وغیرہ۔ 1980ء کی دہائی میں سوویت اتحاد کے رہنما میخائیل گورباچوف (اقتدار: 1985-91ء) کی لبرلزم پر مبنی پالیسیوں اور ماحول نے سیاسی مخالف طاقتوں کو جنم دیا اور ازبکستان کی سماجی پالیسی کی مخالفت شروع ہوئی۔ 1989ء میں نسلی پرتشدد واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد ازبیک نسل کے اسلام کریمو کو کمیونسٹ پارٹی کا صدر بنایا گیا۔ 1991ء میں ازبکستان کی سوویت نے سوویت اتحاد سے آزادی کا اعلان کر دیا اور اسلام کریمو آزاد ازبکستان کے پہلے صدر ہوئے۔ [4]

1992ء میں ازبکستان کو نیا دستور ملا مگر مرکزی حزب اختلاف ، برلیک پر پابندی لگا دی گئی اور میڈیا کو دبانا شروع کیا گیا۔ 1995ء میں نیشنل ریفرینڈم کے ذریعے اسلام کریمو کے دور حکومت کو 1997ء سے 2000ء تک بڑھادیا گیا۔ مشرقی ازبکستان میں 1998ء اور 1999ء میں پرتشدد واقعات ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس کی بنا پر اسلام پسندوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ 2000ء میں کریمو کو بالاجماع صدر منتخب کیا گیا مگر انتخابات کا یہ طریقہ بین القوامی تنقید کا نشانہ بنا۔ اسی سال کے آخر میں ازبکستان نے تاجکستان کی سرحد پر کانوں کی کھدائی شروع کی جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات سنگین ہو گئے اور ازبکستان دنیا بھر میں علاقائی غنڈے کے طور پر جانا جانے لگا۔ 2000ء کے آس پاس پڑوسی ریاستوں -کرغیزستان اور ترکمانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے ۔ 2006ء میں کرغیزستان کے ساتھ اس وقت مزید خراب ہو گئے جب ازبکستان نے ان ہزاروں پناہ گزینوں کا معاوضہ مانگ لیا جو فسادات کے دوران میں اندیجان سے کرغیزستان چلے گئے تھے۔ 2006ء میں کریمو نے خود مختاری جاری رکھی اور حکومتی افسران اور عہدیداروں کو برطرف کرنا بند نہیں کیا۔ یہاں تک کہ نائب وزیر اعظم کو بھی نہیں بخشا۔ [4]

جغرافیہ ترمیم

 
 
Bukhoro
 
Jizzakh
 
Navoiy
 
Qarshi
 
Samarkand
 
Guliston
 
Termiz
 
Tashkent
 
Ferghana
 
Andijan
 
Namangan
 
Urgench
 
Nukus
ازبکستان کا نقشہ

ازبکستان وسط ایشیا میں واقع ایک ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ 447,400 مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں 425,400 مربع کلومیٹر خشکی ہے اور باقی 22,000 مربع کلومیٹر آبی ہے۔ یہ مشرق تا مغرب 1425 کلومیٹر اور شمال تا جنوب 930 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ سب سے گہرا مقام سیقرنیش قلی ہے جو سطح سمندر سے 12 میٹر گہرائی میں ہے جبکہ سب سے بلند مقام حضرت سلطان ہے جو 4643 میٹر بلند ہے۔

اس کی سرحد جنوب مغرب میں ترکمانستان، شمال میں قازقستان، جنوب میں افغانستان اور تاجکستان اور مشرق میں کرغیزستان سے ملتی ہیں۔ ازبکستان کی سرحد بحیرہ ارال سے ملتی ہے جس کی طوالت 420 کلومیٹر ہے۔ ازبکستان نہ صرف وسط ایشیا کی سب سے بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے بلکہ یہ واحد ریاست ہے جس کی سرحدیں باقی چار ریاستوں سے ملتی ہیں۔ چونکہ بحیرہ قزوین کا تعلق کسی سمندر سے نہیں ہے لہذا ازبکستان ان دو ملکوں میں سے ایک ہے جو مکمل طور سے زمین بند ملکوں سے گھرا ہوا ہے۔ یعنی یہ مکمل طور سے زمین بند ملک ہے جس کا کھلے سمندر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسرا ایسا ملک لیختینستائن ہے۔

 
Dازبکستان کا مفصل نقشہ
 
ازبکستان کی ٹوپو گرافی

ازبکستان کی آب ہوا کافی مختلف ہے۔ یہاں کی زمین متوسط بھی ہے اور کل رقبہ کا تقریباً 80 فیصد ریگستان پر مشتمل ہے، یہاں کے پہاڑ سطح سمندر سے تقریباً 4500 میٹر بلند ہیں۔ ازبکستان جنوب مغربی حصہ تیان شان کی پہاڑیوں پر مشتل ہے اور یہ کرغیزستان اور تاجکستان تک پھیلی ہوئی ہیں اور وسط ایشیا اور چین کے مابین حد ٍفاصل کا کام کرتی ہیں۔ ازبکستان کے انتہائی شمال میں کزل کم نامی ریگستان ہے جو قازقستان کے جنوبی حصہ تک پھیلا ہوا ہے۔ ازبکستان کا سب سے زرخیز حصہ وادئ فرغانہ ہے جس کا رقبہ 21440 مربع کلومیٹر ہے اور کزل کم کے مشرق میں واقع ہے جو شمال، جنوب اور مشرق کی جانب سے پہاڑ سے گھرا ہوا ہے۔ وادئی فرغانہ کا مغربی کنارہ دریائے سیحوں سے نوازا گیا ہے۔ یہ دریا ازبکستان کے شمال مشرقی علاقہ سے ہو کر گزرتا ہے اور قازقستان سے شروع کر کزل کم میں ختم ہوتا ہے۔

ازبکستان کو سیراب کرنے کے لیے دو بڑی ندیاں آمو دریا اور دریائے سیحوں ہے جو بالترتیب تاجکستان اور کرغیزستان سے شروع ہوتی ہیں۔ یہ وسط ایشیا کی دو اہم ندیاں ہیں۔ ان کا پانی عام طور پر آب پاشی کے کام آتا ہے اور کئی سارے مصنوعی نالے بھی ان پر بنائے گئے ہیں۔ سوویت کے زمانہ میں ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس کے تحت کرغیزستان اور تاجکستان ان ہی دو ندیوں کا پانی قازقستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو مہیا کرتا تھا اور بدلے میں وہ تین ممالک ان دو ممالک کو تیل اور گیس دیتے تھے۔ لیکن سوویت اتحاد کے زوال کے بعد یہ معاہدہ بھی کالعدم ہو گیا اور ابھی تک کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوپایا ہے۔ [5]

ازبکستان میں خوب سردی اور خوب گرمی پڑتی ہے۔ گرمی میں درجہ حرارت °40 سینٹی گریڈ جبکہ سردی میں درجہ حرارت منفی °2 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ ازبکستان قدرتی گیس، پٹرولیم، کوئلہ، سونا، یورینیئم، چاندی، تانبا، سیسہ اور جست، ٹنگسٹن، مولیبڈینم سے مالا مال ہے۔

سیاست ترمیم

1991 میں ازبکستان کے سوویت یونین سے آزادی کا اعلان کرنے کے بعد، ایک الیکشن ہوا اور اسلام کریموف 29 دسمبر 1991 کو ازبکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اولی مجلس (پارلیمنٹ یا سپریم اسمبلی) کے انتخابات 1994 میں 16ویں سپریم سوویت کی ایک منظور شدہ قرارداد کے تحت منعقد ہوئے۔ اس سال سپریم سوویت کی جگہ اولی مجلس نے لے لی۔ 150 رکنی اولی مجلس، لیجسلیٹو چیمبر اور 100 رکنی سینیٹ کے پانچ سالہ مدت کے لیے تیسرے انتخابات 27 دسمبر 2009 کو ہوئے۔ دوسرے انتخابات دسمبر 2004 سے جنوری 2005 تک ہوئے۔ اولی مجلس 2004 تک یک ایوانی تھا۔ اس کا حجم 1994 میں 69 نائبین (ارکان) سے بڑھ کر 2004 میں 120 ہو گیا اور فی الحال 150 ہے۔ کریموف کی پہلی صدارتی مدت کو ریفرنڈم کے ذریعے 2000 تک بڑھایا گیا اور وہ 2000، 2007 اور 2015 میں دوبارہ منتخب ہوئے، ہر بار 90% سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے۔ زیادہ تر بین الاقوامی مبصرین نے اس عمل میں حصہ لینے سے انکار کر دیا اور نتائج کو تسلیم نہیں کیا، انھیں بنیادی معیار پر پورا نہ اترنے کے طور پر مسترد کر دیا۔ 2002 کے ریفرنڈم میں ایوان زیریں (اولی مجلس) اور ایوان بالا (سینیٹ) پر مشتمل دو ایوانی پارلیمنٹ کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ ایوان زیریں کے اراکین کو "کُل وقتی" قانون ساز ہونا چاہیے۔ نئی دو ایوانوں والی پارلیمنٹ کے لیے انتخابات 26 دسمبر کو ہوئے۔

2 ستمبر 2016 کو اسلام کریموف کی موت کے بعد، اولی مجلس نے وزیر اعظم شوکت مرزیوف کو عبوری صدر مقرر کیا۔ اگرچہ سینیٹ کے چیئرمین نگمت اللہ یلداشیف کو آئینی طور پر کریموف کے جانشین کے طور پر نامزد کیا گیا تھا، لیکن یلداشیف نے تجویز پیش کی کہ مرزی یوئیف کے "کئی سالوں کے تجربے" کی روشنی میں اس کی بجائے عبوری صدر کا عہدہ سنبھالیں۔ مرزائیوف بعد میں دسمبر 2016 کے صدارتی انتخابات میں 88.6 فیصد ووٹ حاصل کرکے ملک کے دوسرے صدر منتخب ہوئے اور 14 دسمبر کو حلف اٹھایا۔ نائب وزیر اعظم عبد اللہ عاریپوف نے ان کی جگہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کیا۔ مرزییوئیف نے کریموف کے بیشتر عہدیداروں کو ہٹایا اور حکومت پر زور دیا کہ "وہ اپنے ملک سے محبت کرنے والے نئے نوجوانوں کو ملازمت دے۔" ایک سال عہدے پر رہنے کے بعد، مرزییوئیف اپنے پیشرو کی بہت سی پالیسیوں سے الگ ہو گئے۔ انھوں نے تمام ازبک علاقوں اور بڑے شہروں کا دورہ کیا تاکہ ان منصوبوں اور اصلاحات کے نفاذ سے واقفیت حاصل کی جا سکے جن کا انھوں نے حکم دیا تھا۔ بہت سے تجزیہ کاروں اور مغربی میڈیا نے ان کی حکمرانی کا موازنہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ڈینگ ژیاؤپنگ یا سوویت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری میخائل گورباچوف سے کیا۔ اس کی حکمرانی کو "ازبک بہار" قرار دیا گیا ہے۔

انتظامی تقسیم ترمیم

ازبکستان کو بارہ خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے (صوبے، واحد صوبہ، مرکب اسم صوبہ، مثال کے طور پر، صوبہ تاشقند، صوبہ سمرقند، وغیرہ)، ایک خود مختار جمہوریہ (جمہوریہ، مرکب اسم جمہوریہ، مثلاً قراقلپاکستان خود مختار جمہوریہ، قراقلپاکستان خود مختار جمہوریہ، وغیرہ)۔ اور ایک آزاد شہر (شہر، مرکب اسم شہر، مثال کے طور پر، تاشقند شہر)۔ جب قابل اطلاق ہو تو ازبک، روسی اور قراقلپاک زبانوں میں نام ذیل میں دیے گئے ہیں، حالانکہ ہر نام کی نقل کی متعدد تغیرات موجود ہیں۔

ریجن ترمیم

اندیجان ریجن اندیجان 3,253,528

بخارا ریجن بخارا 1,976,823

فرغانہ ریجن فرغنہ 3,896,395

جزاخ ریجن جزاخ 1,443,408

جمہوریہ قراقل پاکستان نکس 1,948,488

کاشکدریہ ریجن کارشی 3,408,345

خورزم ریجن ارگنچ 1,924,163

نمنگن ریجن نمنگن 2,931,056

ناووئی ریجن ناووئی 1,033,857    

سمرقند ریجن سمرقند 4,031,324

سورکھندریہ ریجن ٹرمز 2,743,201

سردریا ریجن گلستان 878,591

تاشقند سٹی کیپٹل 2,860,595

تاشقند ریجن نورافشون 2,941,522

بڑے شہر ترمیم

1. تاشقند 2,860,5951

2. نمنگن 678,200

3. سمرقند 573,200

4. اندیجان 468,100

5. نکس  310,000

6. فرغانہ 299,000

7. بخارا 285,000

8. کارشی 260,000

9. کوکند 260,000

10.مارگلان   242,500

ازبکستان کی زبانیں ترمیم

آئین ازبکستان کے مطابق جمہوری ازبکستان کی زبان ازبک زبان ہے۔ [6] ازبک زبان ترکستانی زبانوں کی ایک شاخ ہے جو اویغور زبان کے بہت قریب ہے دونوں ترکستانی خاندان کی کال روک زبان کے تعلق رکھتی ہیں۔ ازبکستان کی سرکاری زبان صرف ازبک زبان ہے اور 1992ء سے یہ لاطینی حروفِ تہجی میں لکھی جا رہی ہے. [7]

کراکل پاک بھی ایک ترکی زبان کی شاخ ہے جو قازق زبان سے قریب ہے اور قراقل پاقستان میں بطور سرکاری زبان بولی جاتی ہے ۔ تقریباً نصف ملین اس زبان کو بولتے ہیں۔ تقریباً 800,000 سے زیادہ لوگ قازق زبان بولتے ہیں۔

1920ء کی دہائی سے قبل ازبک زبانوں کی تحریری شکل تورکی کہلاتی تھیں جنہیں اہل مغرب چاغتائی کہتے تھے اور یہ زبانیں خط نستعلیق میں لکھی جاتی تھیں۔ 1926ء میں لاطینی حرف تہجی متعارف کروایا گیا اور متعدد بار اس کی اصلاح ہوئی۔ 1940ء میں سوویت نے سیریلک حروف تہجی کو متعارف کروایا اور سوویت اتحاد کے سقوط تک وہی زیر استعمال رہا۔ 1993ء میں ازبک زبان نے واپس لاطینی حروف تہجی اپنا لیا۔ 1996ء میں اس میں کچھ ترمیم کی گئی اور 2000ء سے اسکولوں میں پڑھائی جارہی ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں صرف لاطینی حروف تہجی ہی پڑھائی جاتی ہے تاہم ازبکستان میں منسوخ سیریلیک رسم الخط بھی سرکاری طور پر مستعمل ہے۔ کچھ ٹی وی چینل بھی سیریلیک رسم الخط میں متون کو نشر کرتے ہیں۔ سیریلیک رسم الخط بزرگ نسل کے درمیان میں زیادہ مشہور ہے۔ [8]

روسی زبان ترمیم

 
ازبکستان میں فارسی زبان بولنے والوں کو دکھایا گیا ہے۔

حالانکہ روسی زبان کو آئینی طور پر سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہے مگر یہ تمام میدانوں عام استعمال میں ہے، یہاں کہ سرکاری کاغذات میں بھی روسی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ازبک زبان کے ساتھ ساتھ روسی زبان کو بھی نوٹری کے دستاویزات میں زیر استعمال لانے کی اجازت ہے۔ [9] روسی زبان عام بول کی چال کی زبان ہے۔ خصوصا شہروں میں اس کا استعمال عام ہے۔ یہاں تک کہ ملک میں ایک ملین ایسے لوگ ہیں جن کی مادری زبان روسی زبان ہے۔ [10][11][12][13][14][13]تاجک زبان (فارسی زبان کی ایک شکل) بخارا اور سمرقند جیسے شہروں میں عام بولی جاتی ہے۔ یہاں تاجک لوگ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1,5 ملین ہیں اور غیر سرکاری ڈاٹا کہتا ہے کہ ان کی تعداد 8 سے 11ملین ہے۔ [9] تاجک زبان ان دو شہروں کے علاوہ وادئ فرغانہ کے کاسانسای، چوست، ازبکستان، ریشتان، ازبکستان اور ساخ ضلع جیسے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آہنگران ضلع، دریائے سیحوں کے باغستان ضلع اور شہر سبز، قرشی اور کتاب ضلع میں بھی بولی جاتی ہے۔ ازبکستان کی تقریباً 10-15 فیصد آبادی تاجک زبان بولتی ہے۔ [15]

قانون ترمیم

ازبکستان کی شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی خاص زبان کا آنا ضروری نہیں ہے۔ [13]

ازبکستان میں مذاہب ترمیم

 
Dازبکستان کی سب سے اہم مذہب ہے۔ اندیجان۔ اسلام۔

2004ء کے اعداد و شمار کے مطابق ازبکستان میں 88 فیصد مسلمان، 9 فیصد مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا اور 3 فیصد دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔[16]

مذہبی رائے شماری ترمیم

2012ء میں WIN-Gallup International' نے ایک سروے کیا جس میں حصہ لینے والوں میں سے 79 فیصد نے کہا کہ وہ مذہبی ہیں، 18 فیصد نے خود کو دہریہ بتایا اور 3 فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ [17]

ازبکستان میں مذہبی مراکز N
1 اسلام 2 050
2 کوریائی مسیحی کلیسا 52
3 روسی راسخ الاعتقاد کلیسیا 37
4 اصطباغی کلیسیا 23
5 پینتی کاسٹل 21
6 سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ چرچ 10
7 یہودیت 8
8 بہائیت 6
9 کاتھولک کلیسیا 5
10 نیو اپاسٹولک چرچ 4
11 لوتھریت 2
12 آرمینیائی رسولی کلیسیا 2
13 یہوواہ کے گواہ 1
14 کرشنا کنشسنیس 1
15 بدھ مت 1
16 چرچ آف وائس آف گاڈ 1
17 بائبل سوسائٹی[18] 1
ازبکستان میں مذاہب، 2004ء[16]
مذاہب فیصد
اسلام
  
88%
مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا
  
9%
دیگر
  
3%

عہد سوویت ترمیم

سوویت اتحاد کے تمام ممالک میں مارکس اور لینن سے متاثر دہریت کا بول بالا تھا۔ سوویت نے ایک اصطلاح رائج کی تھی جسے گوساٹیزم (gosateizm) کہتے تھے۔ یہ گوسیودارستوو (gosudarstvo) یعنی ریاست اور الحاد (atheism) کا مرکب ہے۔ اس کا مقصد ریاست میں دہریت کو فروغ دینا، مذہب کے خلاف تعلیمی مواد چھاپنا اور نشر کرنا، نظام تعلیم میں مذہب کے خلاف تدریسی مواد فراہم کرنا اور مذہبی نشانات کو ختم کرنا تھا۔ 1980ء کی دہائی تک سوویت مذہب کے اثر کو ماند کرنے میں کامیاب رہا بایں طور کہ مساجد اور مدارس مقفل کر دیے گئے، مذہبی متون اور تعلیمات پر پابندی لگادی گئی، مذہبی رہنماؤں کو مقید کر دیا گیا۔ [19]

آزادی کے بعد ترمیم

ازبکستان ایک سیکیولر ملک ہے اور دستور کی دفعہ 61 کے مطابق مذہبی تنظیمیں ریاست سے الگ رہیں گی اور قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گی۔کسی بھی مذہبی تنظیم کے کام کاج میں ریاست کی کوئی دخل اندازی نہیں ہوگی۔ [20] 1990ء کی دہائی میں سقوط سوویت کے وقت سعودی عرب اور ترکی کے متعدد مذہبی گروہ ازبکستان میں آئے اور صوفیت اور وہابیت کی تبلیغ کی۔ 1992ء میں نمنگان نامی شہر میں سعودی یونیورسٹی سے پڑھ کر آنے والے کچھ طالبعلموں نے ایک سرکاری عمارت پر قبضہ کر لیا اور صدر کریمو سے مانگ کی کہ وہ اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب بنانے کا اعلان کرے اور ملک میں شرعی قوانین کو نافذ کیا جائے۔ حالانکہ ان کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا اور حکومت نے ان پر غلبہ حاصل کر لیا۔ ان کا سرغنہ افغانستان فرار ہو گیا اور پھر پاکستان چلا گیا۔ اسے بعد میں اتحادی فوج نے شہادت دے دی۔ 1992ء اور 1993ء میں 50 مبلغین کو سعودی عرب بھگا دیا گیا اور صوفی مبلغوں کو بھی تبلیغ سے منع کر دیا گیا۔ [21]

اسلام ترمیم

اسلام ازبکستان کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ یہاں اہل تشیع کے بالمقابل اہل سنت کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں آٹھویں صدی میں عربوں نے اسلام کو متعارف کروایا۔ اولا وہ وسط ایشیا میں ترکستان کے جنوبی حصہ میں آئے اور بعد میں شمال کی جانب اپنا اثر بڑھایا۔ [22] چودھویں صدی میں امیر تیمور نے کئی مذہبی عمارتیں اور مساجد تعمیر کروائیں جن میں بی بی خانم مسجد بھی شامل ہے۔ اس نے احمد یسوی کے مزار پر اپنی سب سے شاہکار عمارت بنوائی۔ احمد یوسی ایک صوفی بزرگ تھے جنھوں نے خانہ بدوشوں میں اسلام کی تبلیغ کی۔ ازبیگ خان کے تبدیلی مذہب نے ازبک لوگوں کو کافی متاثر کیا اور بہت بڑی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ ازبیگ خان نے احمد یسوی کے ایک مرید عبد الحمید کی تبلیغ پر اسلام قبول کیا۔ پھر انھوں نے طلانی اردو میں جم کر اسلام کی تبلیغ کی اور وسط ایشیا میں مبلغین کے سفیر روانہ کیے۔ سوویت اتحاد کے دور میں ماسکو نے کامیابی سے ازبیک باشندوں کے ذہن میں اسلامی مطلب کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور ان کی نظر میں اسلام کے معنی ہی بدل گئے۔ انھوں نے وسط ایشیا میں ایک مد مقابل اسلامی ذہانت تیار کی۔ حکومت نے بھی مذہب مخالف تنظیموں کی بھرپور مدد کی اور اسلامی تحریکوں کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو جبرا تبدیلی مذہب کروایا گیا۔ جوزف استالن کے عہد میں متعدد مساجد مقفل کر دی گئیں اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو جلا وطن کر دیا گیا۔ یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ سوویت کے سقوط تک ازبکستان سے اسلام ختم ہوجائے گا اور اسلامی بنیادپرستی ماند پڑ جائے گی مگر یہ اندازہ اس وقت غلط ثابت ہوا جب پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ملک میں 96.3 فیصد مسلمان بستے ہیں۔ [23]

عیسائیت ترمیم

اسلام کی آمد سے قبل موجودہ دورکے ازبکستان میں ،مشرقی عیسائیت کے کچھ قبائل آباد تھے جن میں نسطوریت سے تعلق رکھنے والی آشوری قوم اور سریانی راسخ الاعتقاد کلیسیا شامل ہیں۔ ساتویں اور چودھویں صدی عیسوی کے درمیان میں نسطوریت قبائل آباد ہوئے۔ بخارا اور سمرقند میں عیسائیت کے بڑے مراکز کھولے گئے۔ عرب قوم کی آمد کے بعد علاقہ میں مسلمانوں کا تسلط بڑھ گیا اور ان کی حکوکت قائم ہوئی۔ اس دوران نسطوریت کو خراج دینا پڑتا تھا۔ ان کو مذہبی عمارت بنانے پر پابندی تھی۔ یہاں تک کہ عوام میں صلیب بھی نمایاں نہیں کی جا سکتی تھی۔ ان پابندیوں کے باعث کئی عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا۔ علاقہ عیسائیت کا زور کم ہونے کی دوسری وجہ ییتی سو میں 1338-1339ء میں وبا کا عام ہوجانا ہے جس سے ہزاروں عیسائی قبائل ختم ہو گئے۔ ایک وجہ تجارت بھی ہے کیونکہ شاہراہ ریشم کی تجارت تقریباً مکمل طور پر مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی لہذا معاشی بہتری کے لیے عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا۔ تیمور کے پوتے الوغ بیگ (1409–1449) کے زمانے میں عیسائی وہاں سے بالکل ختم ہو گئے۔ [24][25] بہرحال 1867ء میں روس کے حملے کے بعد علاقہ میں عیسائیت کی گھر واپسی ہوئی اور راسخ الاعتقاد کلیسا کی تعمیر ہوئی تاکہ یورپی اور روسی افسران اور لوگوں کی مدد کی جا سکے۔ موجودہ دور میں ازبکستان کے زیادہ عیسائی روسی نسل کے ہیں جو مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا کو مانتے ہیں۔ یہاں کچھ قبائل کاتھولک کلیسیا کے بھی آباد ہیں۔ ازبکستان میں کاتھولک کلیسا بین القوامی کاتھولک کلیسا کا حصہ ہے جس کی روحانی نگہبانی روم کے پوپ کرتے ہیں۔

پروٹسٹنٹ مسیحیت کی تعداد ازبکستان میں بہت کم ہے۔

یہودیت ترمیم

2007ء میں ازبکستان میں یہودیوں کی تعداد 5000 بتائی گئی ہے جو کل آبادی کا 0.2 فیصد ہے۔ [26] ازبکستان میں بخاری یہودیوں کی صرف ایک چھوٹی سی آبادی باقی رہ گئی ہے۔

بہائیت ترمیم

ازبکستان میں 6 مندرج کمیون موجود ہیں جو تاشقند، بخارا، سمرقند، ناوئی اور جزاخ جیسے شہروں میں رہتے ہیں۔ [27] سفیر طاہر، ایک ایرانی النسل برطانوی نزاد انگریزی زبان کا معلم تھا، اس کی ولادت 1959ء میں ہوئی تھی ار اس نے ایک ازبک لڑکی سے شادی کر کے وہیں سکونت اختیار کرلی تھی، اس کو غیر قانونی طور پر بہائیت کی تبلیغ کرتے ہوئے پایا گیا تھا لہذا نومبر 2009ء میں اسے ملک بدر کر دیا گیا۔ [28]

ہندو مت ترمیم

ازبکستان میں ہرے کرشنا نامی ایک گروہ رجسٹرڈ ہے

بدھ مت ترمیم

موجودہ ازبکستان میں کئی بدھ مت کے رشتہ دار پائے گئے ہیں جو قدیم زمانے میں بدھ مت کو مانتے تھے۔ ان میں زیادہ تر باختر علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

زرتشتیت ترمیم

ازبکستان میں ما قبل اسلام زرتشتیت ہی اہم مذہب تھا۔ یہ ابھی بھی باقی ہے اور تقریباً 7,400 لوگ اس کے متبع ہیں۔ [29] ازبکستان کے کچھ باشندے ابھی بھی آگ کی پرستش کرتے ہیں۔ ایسا وہ مقدس آگ سے مندر کو بچانے کے لیے کرتے ہیں۔ شادی کے بعد جب دلہن اپنے شوہر کے گھر جاتی تب اس کو آگ کے ارد گرد تین چکر لگانے پڑتے ہیں تاکہ خود کو طہارت دے سکیں۔ اس کے بعد ہی شوہر بیوی کو اپنی بانہوں میں لیتا ہے اور زینت بستر بناتا ہے۔

لامذہبیت ترمیم

ون۔گیلپ انٹرنیشنل کے 2012 کے ایک سروے کے مطابق، تقریبا 2 فیصد لوگوں نے قبول کیا کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے۔

نگار خانہ ترمیم

ازبکستان کے چند نامور کھلاڑی؛

١۔ امولیدین عبدو جاپاروف

٢۔ رسلان چگائیف

٣۔ ڈینس استومن

4۔ ویٹالائی ڈینیسوف

حوالہ جات ترمیم

  1.     "صفحہ ازبکستان في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2024ء 
  2. باب: 115
  3. http://chartsbin.com/view/edr
  4. ^ ا ب پ ت ٹ "Country Profile: Uzbekistan"۔ کتب خانہ کانگریس Federal Research Division (فروری 2007)۔ This article incorporates text from this source, which is in the دائرہ عام۔
  5. International Crisis Group. "Water Pressures in Central Asia آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ crisisgroup.org (Error: unknown archive URL)CrisisGroup.org۔ 11 ستمبر 2014. Retrieved 7 اکتوبر 2014.
  6. "Constitution of the Republic of Uzbekistan"۔ ksu.uz۔ 27 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  7. Mansurov, Nasim (8 دسمبر 1992)۔ "Constitution of the Republic of Uzbekistan"۔ Umid.uz۔ 17 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2010 
  8. Marianne Kamp (2008)۔ The New Woman in Uzbekistan: Islam, Modernity, and Unveiling Under Communism۔ University of Washington Press۔ ISBN 0-295-98819-3۔ 5 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  9. ^ ا ب "Law of the Republic of Uzbekistan "On Official Language"" (PDF)۔ Refworld۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 اکتوبر 2016 
  10. Юрий Подпоренко (2001)۔ "Бесправен، но востребован۔ Русский язык в Узбекистане"۔ Дружба Народов۔ 13 مئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2016 
  11. Евгений Абдуллаев (2009)۔ "Русский язык: жизнь после смерти۔ Язык، политика и общество в современном Узбекистане"۔ Неприкосновенный запас۔ 23 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2016 
  12. А۔ Е۔ Пьянов۔ "СТАТУС РУССКОГО ЯЗЫКА В СТРАНАХ СНГ"۔ 2011۔ 28 مئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2016 
  13. ^ ا ب پ Languages in Uzbekistan آرکائیو شدہ 11 ستمبر 2016 بذریعہ وے بیک مشین – Facts and Details
  14. "Uzbekistan's Russian-Language Conundrum"۔ Eurasianet.org۔ 19 ستمبر 2006۔ 29 نومبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2010 
  15. Cordell, Karl (1998) Ethnicity and Democratisation in the New Europe، Routledge, آئی ایس بی این 0415173124، p. 201: "Consequently, the number of citizens who regard themselves as Tajiks is difficult to determine. Tajikis within and outside of the republic, Samarkand State University (SamGU) academic and international commentators suggest that there may be between six and seven million Tajiks in Uzbekistan, constituting 30% of the republic's 22 million population, rather than the official figure of 4.7% (Foltz 1996;213; Carlisle 1995:88)۔
  16. ^ ا ب "Middle East :: UZBEKISTAN"۔ CIA The World Factbook۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2018 
  17. WIN-Gallup International.GLOBAL INDEX OF RELIGIOSITY AND ATHEISM آرکائیو شدہ 2013-10-21 بذریعہ وے بیک مشین
  18. The Bible Society of Uzbekistan (BSU)
  19. Soviet Muslims 23. جون 1980
  20. Constitution of Uzbekistan. Part II. Basic human and civil rights, freedoms and duties.
  21. Islam and Secular State in Uzbekistan: State Control of Religion and its Implications for the Understanding of Secularity.
  22. Atabaki, Touraj. Central Asia and the Caucasus: transnationalism and diaspora، pg. 24
  23. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 19 مئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2018 
  24. NESTORIAN CHRISTIANITY IN CENTRAL ASIA
  25. SYRIAC GRAVESTONES IN THE TASHKENT HISTORY MUSEUM
  26. "AMERICAN JEWISH YEAR BOOK, 2007, Page 592" (PDF)۔ 26 مارچ 2009 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2018 
  27. "Bahai Centers in Uzbekistan"۔ 20 مارچ 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2018 
  28. Detailed story of Sepehr Taheri
  29. Uzbakistan