حافظ ابراہیم (1871ء تا 1932ء) 20ویں صدی کے مصر کے عربی زبان کے شاعر ہیں۔ انھیں “شاعر النیل“ کہا جاتا ہے۔ غریب عوام کی سیاسی آواز بننے کی وجہ سے انھیں عوامی شاعر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ [1] انھوں نے اپنی شاعری میں عام مصریوں کے مسائل کو موضوع بنایا مثلاً خواتین کے حقوق، غربت، تعلیم اور سلطنت برطانیہ کی تنقید وغیرہ۔[1][2]

حافظ ابراہیم
پیدائش24 فروری 1872(1872-02-24)
دیروط، محافظہ اسیوط، مصر
وفاتجون 21، 1932(1932-60-21) (عمر  60 سال)
قومیتمصری مصر کا پرچم

حافظ ابراہیم ان مصری شعرا میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے 19ویں صدی کے اواخر میں کلاسیکی عربی شاعری کو جلا بخشی اور کلاسیکی عروض و قوافی کو استعمال کرتے ہوئے ایسے معانی اور تاثرات پیش کیے جو عام کلاسیکی شاعر کے لیے بالکل انجان تھے۔ حافظ ابراہیم کو سیاسی اور سماجی شاعر کہا جاتا ہے۔

ابتدائی زندگی

ترمیم

ان کی ولادت 1817ء میں دیروط مصر میں ہوئی۔ ان کے والد مصری انجئنر تھے اور والدہ ترکی النسل تھیں۔[3][2] والد کے انتقال کے بعد بعمر چار برس وہ اپنے ماموں کے پاس طنطا چلے گئے اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد قاہرہ کا رخ کیا جہاں ثانوی تک کی تعلیم مکمل ہوئی۔ والدہ کے انتقال کے بعد وہ واپس طنطا آگئے اور مشہور وکیل ابو شادی کے ساتھ رہنے لگے جہاں ان کا تعارف بیشتر ادبی کتابوں اور مصری قومی تحریک کے نامور قائدین سے ہوا۔[2]

زندگی

ترمیم

1888ء میں حافظ نے ملٹری اکیڈمی یں داخلہ کیا اور تین برس بعد لفٹنینٹ بن کر نکلے۔ وزارت داخلہ میں ان کی تقرری ہوئی اور 1896 میں انھیں سوڈان بھیج دیا گیا۔ وہاں انھوں نے دیگر مصری مظاہرین کے ساتھ سوڈان مخالف تحریک میں حصہ لیا جس کے نتیجہ میں ان کا مکورٹ مارشل ہوا اور انھیں مصر واپس بھیج دیا گیا۔[2] 1911ء میں انھیں مصری قومی کتب خانہ کا صدر مقرر کیا گیا اور وزیر تعلیم نے انھیں بیگ کے خطاب سے نوازا اور اس طرح ان کی مالی پریشانی دور ہو گئی اور معاشی حالات مستحکم ہوئے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ یہ عظیم شاعر شعر و ادب پر توجہ دینے لگا۔ اس دوران میں انھوں نے اپنے ہم خیال اور جدید کلاسیکل شاعری کے شاعرا احمد شوقی اور محمود سامی بارودی سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ مل کر کلاسیکل شاعری کو بنا سنوار کر نئے انداز میں پیش کیا۔[2]

ادبی خدمات

ترمیم
  • البسوك الدماء فوق الدماء [4]
  • يا سيدي و إمامي [4]
  • شكرت جميل صنعكم ۔[4]
  • مصر تتكلم عن نفسها ۔[4]
  • لي كساء أنعم بہ من كساء۔[4]
  • قل للرئيس ادام اللہ دولتہ ۔[4]
  • وکٹر ہیوگو کی بد نصیب (ناول) کا ترجمہ، 1903[5]

یادگار

ترمیم

الجزيرة (القاهرة) میں فاروق ابراہیم نے حافظ ابراہیم کا ایک مجسمہ نصب کیا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Lesley Lababidi (2008)، Cairo's Street Stories: Exploring the City's Statues, Squares, Bridges, Gardens, and Sidewalk Cafés، American University in Cairo Press، صفحہ: 80، ISBN 977416153X 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ Mustafa Kabha (2012)، "Ibrahim, Hafiz"، Dictionary of African Biography، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، صفحہ: 127، ISBN 0-19-538207-2 
  3. Muḥammad Muṣṭafá Badawī (1975)، A critical introduction to modern Arabic poetry، Cambridge University Press، صفحہ: 42، ISBN 0-521-29023-6، Hafiz was of mixed origin: his father was an Egyptian engineer and his mother Turkish. 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث "poems"۔ 23 فروری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2019 
  5. Abdellah Touhami, Étude de la traduction des Misérables (Victor Hugo) par Hafiz Ibrahim، Université de la Sorbonne nouvelle, 1986