حبیب اللہ کلکانی
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
حبیب اللہ کلکانی (دری: حبیبالله کلکانی، ولادت: 19 جنوری 1891ء - وفات: 1 نومبر 1929ء)، جن کو بچہ سقا[1] کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 17 جنوری 1929ء سے 13 اکتوبر 1929ء تک افغانستان کے حکمران تھے۔
حبیب اللہ کلکانی Habibullah Kalakani | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
فہرست افغانی شاہان | |||||||
شاہ افغانستان | |||||||
17 جنوری 1929 – 16 اکتوبر 1929 | |||||||
پیشرو | عنايت اللہ خان | ||||||
جانشین | محمد نادر شاہ | ||||||
| |||||||
پیدائش | 19 جنوری 1891 کلکان، صوبہ کابل | ||||||
وفات | 1 نومبر 1929 کابل، صوبہ کابل | (عمر 38 سال)||||||
مذہب | اسلام |
بچہ سقا کا اصل نام جبیب اللہ تھا اس کے باپ کانام کریم اللہ جبکہ دادا کانام عظیم اللہ تھا۔ بجہ سقا افغانستان کے علاقہ کلکان کا رہائیشی اور نسلی اعتبار سے تاجک تھا، اس وجہ سے تاریخ میں اسے حبیب اللہ کلکانی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اسکاباپ بکریاں چرایاں کرتاتھا مگر جب اس کام سے گذر اوقات نہ ہو سکا تو اس نے "سقا" کا پیشہ اختیار کیا اور پانی ندی نالوں اور آبادی کے قریب کنووں سے بھر کر مشکیزوں میں گھر گھر پہنچایا کرتاتھا اس وجہ سے حبیب اللہ تاریخ میں "بچہ سقا" یعنی (پانی لانے والے کا بیٹا) کے نام سے بھی جاناجاتا ہے۔
ابتدائی زندگی
ترمیمبچپن
ترمیمبچہ سقا کے باپ نے اسے پڑھانے کی بہت کوشش کی مگر بچہ سقا طبعی طور پر اوارگی کو پسند کرتاتھا اور بالکل بھی پڑھائی میں دل نہ لگاتا اور اکثر اسکول سے غائب رھتا، اھستہ آہستہ وہ بدمعاش اور اوباش لڑکوں اور لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے لگا جس کی وجہ سے اس میں چوری اور قماربازی کی بری عادتیں پختہ ہونے لگی۔
دورجوانی
ترمیم1926 کے اوائل میں وہ کابل آیا اور شاہی فوج میں بھرتی ہوا اور ایک عام سپاھی کی حثیت سے کام کرتا رہا ایک دفعہ وہ دس یوم کی رخصتی لے کر گھر جانے کی نیت سے روانہ ہوا تو اپنے ساتھ سرکاری بندوق بھی خفیہ اور غیر قانونی طور پر لے گیا، جب وہ کابل سے آگے احمدکوتل کے مقام پر پہنچا تو اس کا سامنا چند چوروں سے ہوا مقابلہ کرکے ایک چور کو قتل کر دیا اسی قتل کو استعمال کرکے خود کو مشہور و مقبول بنانے کی سب سے پہلی کوشش کی مگر رخصتی کی مدت ختم ہونے پر جب وہ واپس کابل آیا تو سرکاری بندوق کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنے اور قتل کے الزام میں مقدمہ کا سامنا کیا اور پانچ ماہ قید کی سزا کاٹی. رہائی کے بعد وہ فوج سے بھاگ کر پشاور آیا اور صدیق نامی ایک چپل فروش کی دکان پر ملازمت اختیار کرلی۔
بغاوت
ترمیم1927ء میں اس نے ملازمت چھوڑ کر چائے کی دکان کھولی انہی دنوں پشاور پولیس کو افغان حکومت کی طرف سے بچہ سقا کی وارنٹ گرفتاری بہ وجہ فوج سے بلا عذر بھاگ جانے کی موصول ہوئی لہذا وہ پولیس میں ایک واقف کی اطلاع پر پشاور سے فرار ہوکر خفیہ طور پر افغانستان میں داخل ہوا اور وہاں پہنچ کر ڈاکہ زنی کا پیشہ اختیار کر بیٹھا. آہستہ آہستہ اس کے گرد بدمعاشوں چوروں لٹیروں قماربازوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کا ایک گروپ جمع ہوا اور یہی وہ دن تھے جب افغانستان کے بادشاہ آمان اللہ خان غازی کے خلاف ایک انگریز کرنل لارنس اور ملا شوربازار (فضل محمود مجددی) اور اس کے حواری دیہی علاقوں کے ملا حکومت برطانیہ کی مدد سے سخت پروبیگنڈہ مہم چلا رہے تھے، دوسری طرف بچہ سقا اپنے کرتوتوں کی وجہ افغان سیاست اور حکومت پر اثرانداز ہورہاتھا لہذا انگریزوں کی خفیہ ایجنسیوں نے افغانستان میں حالات مزید خراب کرنے کے واسطے بچہ سقا اور اس کے لٹیروں سے سازباز شروع کرتے ہوئے انھیں اسلحہ اورفنڈنگ دینی شروع کردی اس طرح بچہ سقا اس قابل بنا کہ اسنے مختلف علاقوں میں سرکاری املاک اور اہلکاروں پرحملے شروع کردیے حکومتی ملازمین کو زبردستی کام پر جانے سے روکا حتی کہ شمال اور شمال مشرق کی چند اضلاع پر قابض ہو گیا۔
امیر المومنین افغانستان
ترمیمانگریز کی خفیہ ایجنسیوں اور افغانستان میں سرگرم ان کے ایجنٹوں نے جب محسوس کیا کہ افغان عوام شاہ آمان اللہ سے متنفر ہوتی جا رہی ہے مگر ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ آمان اللہ خان اور اس کی حکومتی کابینہ کو جب حکومت سے علاحدہ کر دیا جاے تو متبادل حکومت کون چلائے گا کیونکہ افغان عوام براہ راست انگریز حکومت کبھی تسلیم نہیں کرینگے اور قائم حکومت کا کوئی بھی کارندہ انگریزوں کے ماتحت حکومت کرنے کے لیے میسر نہیں، لہذا انگریزوں نے بچہ سقا کومشورہ دیا کہ وہ افغان عوام کے ساتھ ہمدردی جتاکر انھیں باورکراے کہ چونکہ شاہ آمان اللہ خان کی حکومت کفری ہے چنانچہ عملا" وہ اس کے خلاف جہاد میں سرگرم عمل ہے نہ کہ عوامی لوٹ ماراور ڈاکہ زنی میں لہذا بچہ سقا کے ذریعے عوام کو یقین دہانی کرائی گئی کہ حکومت کیخلاف اس جہاد میں عوام کو جن تکلیفات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے شاہ امان الله خان کی حکومت کے خاتمے اور اسلامی شریعت پر قائم نئی حکومت بننے کے ساتھ ہی یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائیگا. اور یوں بچہ سقا شرافت کا لبادہ اوڑھ کر ایک سیاسی شخصیت کے طور پر ابھرا مگر اس کا گروب اب بھی ڈاکہ زنی اورقتل و غارتگری کو روا رکھے ہوئے تھا۔ بچہ سقا نے اپنے سیاسی موقف کی مضبوطی کے لیے پروپیگنڈا اختیار کیا کہ جو حکومت چند ڈاکووں کو کنٹرول نہیں کرسکتی اسے ختم کرانا چاہیے، یوں اس نے مارچ 1929میں انگریزوں کی پشت پناہی سے کابل پر ھلہ بول کرفتح کر لیا. دوسری طرف ملاں شوربازار اور اس کے حواریوں نے بچہ سقا کو امیرالمومنین کالقب دیکرجمعہ کے خطبہ میں اسکانام لینے کی منظوری دے دی اور افغانستان شاہ آمان اللہ خان جیسے عظیم فرزند و قاید کی خدمات سے محروم ہوکر جہالت اور تاریکی کے اندھے کنویں میں گڑ پڑا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Who Was King Habibullah II? A query from the literature"۔ Afghanistan Analysts Network - English (بزبان پشتو)۔ 2016-09-16۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2020۔
Habibullah’s enemies, at the time, derided him for his relatively humble origins and called him Bacha-ye Saqao (Son of the Water Carrier) and “Bandit King.”
ویکی ذخائر پر حبیب اللہ کلکانی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |