حرمتِ رسول کا مفہوم اپنے اندر وسیع معانی و مطالب رکھتا ہے۔

حرمتِ رسول کی تعریف ترمیم

عربی قاموس "تاج العروس من جواهر القاموس" کے مطابق لفظ الحُرمہ، الحُرُمہ اور الحَرَمہ کامطلب "ایسی عزت جو اللہ کسی کو عطا کرے اُس کا انکار گناہ کے زمرے میں آتا ہے اور اُس کو مانا لازم ہے انکارکرنا ارتکابِ حرام ہے" جمہور کا مذہب ہے کہ کسی عمل کو حرام قرار دینے کے لیے اُس کا نصِ قطعی اور ظنی الدلالہ سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ جب کہ امامِ اعظم کا مذہب یہ ہے کہ اس کے لیے نصِ قطعی کے ساتھ ساتھ قطعی الدلالہ ہونا بھی ضروری ہے۔ جمہور واجب کو فرض قرار دیتے ہیں جبکہ امام اعظم کے نزدیک دلیل قطعی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ تب فرض قرار پاتا ہے۔ اور اُس کا انکار حرام ہے۔ حرمت رسول مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ ان کے نزدیک اجتہاد مسائل کا ہوتا ہے جیسا کہ یہ عمل فرض ہے واجب ہے یا حلال ہے، مکروہِ تحریمی ہے یا تنزیہی وغیرہ۔ عقائد میں اجتہاد نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانیں نصِ قطعی یعنی قرآن(سورۃ فتح کی آیت 8 اور 9 ﴿7﴾ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿8﴾ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّه وَرَسُولِه وَتُعَزِّرُوه وَتُوَقِّرُوه وَتُسَبِّحُوه بُكْرَة وَأَصِيلًا ((8) بیشک ہم نے تمھیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا # تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ) ) سے بغیر کسی دلیل کے ثابت ہے۔ اور اسے فرض نہ ماننا اور فرض کا انکار کرنا کفر ہے۔