حسیل بن جابر
حُسیل بن جابر غزوہ احد میں مرتبہ شہادت پر فائز ہونے والے صحابی رسول ہیں۔
حسیل بن جابر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مکہ |
وفات | سنہ 625ء جبل احد |
اولاد | حذیفہ بن الیمان |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ احد |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمحُسیل بن جابر بن ربیعہ بن فروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس ، المعروف یمان عبسی ، آپ حذیفہ بن یمان کے والد ہیں۔آپ کے آباء و اجداد میں ایک یمان بن حارث بن قطیعہ بن عبس بن بغیض ہیں۔ اس لیے آپ ‘‘یمان’’اور ‘‘قطیعہ’’ کی نسبت سے ‘‘القطیعی’’ اور ‘‘عبس’’ کی نسبت سے ‘‘العبسی’’ بھی کہلاتے ہیں۔ یمان کا اصل نام جروہ بن حارث بن قطیعہ بن عبس ہے۔ جروہ کو یمان کہنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ان سے اپنی قوم میں کسی فرد کا قتل ہو گیا تھا۔ تو یہ اپنی جان بچانے کی خاطر وہاں سے فرار ہو کر مدینہ منورہ آخر بنو عبد الاشہل کے حلیف بن گئے تو ان کی قوم کے لوگوں نے ‘‘یمانی ’’لوگوں کے ساتھ حِلف کا معادہ کرنے کی بنا پر انھیں‘‘یمان’’کہنا شروع کر دیا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد جن کا نام حِسل یا حُسیل رضی اللہ عنہ تھا، وہ بھی یمان کے نام سے معروف ہوئے۔[1]
غزوہ بدر
ترمیمحذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ جن دنوں غزوۂ بدر ہوا۔ جنگ سے پہلے میں اور میرے والد دونوں جا رہے تھے کہ کفار قریش کے ہتھے چڑھ گئے۔ انھوں نے کہا کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا رہے ہو؟تم وہاں جا کر ہمارے خلاف جنگ میں شامل ہوجاؤ گے۔ ہمیں چونکہ ان حالات کے بارے کچھ علم نہ تھا۔ ہم نے کہا کہ ہمیں تو کسی بات کا علم ہی نہیں۔ انھوں نے ہم سے قسمیں لیں کہ ہم ان کے خلاف لڑائی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل نہیں ہوں گے۔ وہاں سے چل کر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس پہنچے اور سارے احوال بیان کیے ۔ تو آپ نے فرمایا کہ تم اپنا کیا ہوا عہد پورا کرو اور ہمیں لڑائی میں شرکت کی اجازت نہ دی۔
غزوہ احد
ترمیمحسیل یعنی یمان ان کا بیٹا حذیفہ اور صفوان رسول اللہﷺ کی معیت میں غزوۂ احد میں شریک ہوئے۔ ہز یمت کے بعد جب مشرکین نے پیچھے سے مسلمانوں پر غفلت میں ان پر حملہ کر دیا اور بھگڈر مچ گئی۔ تو بعض مسلمانوں نے غلط فہمی سے حسیل (یمان)کو لشکر اعداء کافر دسمجھ لیا اور لاعلمی میں ان پر حملہ کر دیا۔ حذیفہ نے جب یہ منظر دیکھا تو چِلّاتے رہ گئے کہ اللہ کے بندو ! یہ دشمن نہیں بلکہ میرے والد ہیں۔ مگر جوش میں کسی نے ان کی بات کی طرف توجہ نہ کی اور یہ مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ شرعی ضابطے کے تحت ان کے قاتلوں پر دیت کا ادا کرنا لازم آتا تھا مگر حذیفہ نے انھیں معاف کر دیا۔[2]