حقیقت رائے (انگریزی: Haqiqat Rai) پورا نام حقیقت رائے باگھ مل پوری سیالکوٹ کے ایک ہندو کھتری کا اکلوتا لڑکا تھا۔ جسے مغلیہ دور حکومت میں ایک گستاخانہ دستاویز تحریر کرنے کی وجہ سے سزائے موت دی گئی تھی۔

حقیقت رائے
معلومات شخصیت
پیدائش 2 اکتوبر 1722ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیالکوٹ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات سزائے موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ انقلابی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معروفیت کی وجہ

ترمیم

مغلیہ دور میں حقیقت رائے ایک مدرسے میں فارسی زبان کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس دوران وہ کئی مسلمان ہم سبقوں اور مسلمان مدرسوں کے ربط میں آیا۔ تاہم اسی دور میں اس نے محمد اور فاطمہ الزہرا کی شان میں انتہائی گستاخانہ اور نازیبا الفاظ پر مشتمل ایک دستاویز یا کتاب تحریر کی تھی۔ جب یہ تحریر اس کے ہم درسوں اور استاد کی نظروں میں آئی، تو اس نے از خود اس تحریر کا لکھاری ہونا قبول کیا اور اپنی اس کرتوت پر وہ غیر متاسف تھا۔ اس مذموم اور بے تاسف جرم پر حقیقت رائے کو گرفتار کر کے عدالتی کارروائی کے لیے لاہور بھیجا گیا

عدالتی کار روائی اور سزا

ترمیم

لاہور میں حقیقت رائے کو اس کے اقبالیہ بیان کی وجہ سے سزائے موت کا حکم سنادیا گیا۔ اس واقعے سے پنجاب کے ہندوؤں کو شدید دھکا لگا اور کچھ ہندو افسر سفارش کے لیے اُس وقت کے پنجاب کے گورنر ذکریا خان (1707ء تا 1759ء) کے پاس گئے کہ حقیقت رائے کو معاف کر دیا جائے۔ لیکن ذکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پر نظر ثانی کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا اس حقیقت رائے کو ایک گڑھے میں آدھی دفن حالت میں رکھا گیا اور لوگ اس پر پتھر برسانے لگے۔ جب وہ لہو لہان ہو گیا تب وہاں موجود جلاد نے اس کی گردن اُڑا دی اور اس طرح اس کی موت واقع ہو گئی۔ موت کے وقت مختلف روایات کی رو سے حقیقت رائے کی عمر 14 سال سے 21 سال کے بیچ بتائی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی دعوٰی ہے کہ حقیقت رائے سکھ تھا۔ اس دعوے کی تقویت اس بات سے ہوتی ہے کہ قاضی عبد الحق، جنھوں نے حقیقت رائے کو اقبالی بیان اور غیر متاسف رویے کی وجہ سے موت کی سزا سنائی تھی، خود اسی فتوے کی وجہ سے سردار ہر دیال سنگھ اور سردار مانا سنگھ کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اور ان کی لاش کو بٹالا میں گشت کرایا گیا تھا۔ [1]

تاہم بعض دیگر روایات کی رو سے وہ ہندو تھا اور یہی زیادہ مشہور ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم عصر ہندوؤں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ہندوؤں نے حقیقت رائے کی ایک مڑہی (یادگار) قائم کی جو کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) لاہور میں واقع ہے اور اب یہ جگہ "باوے دی مڑہی" کے نام سے مشہور ہے۔جس دن حقیقت رائے کو پھانسی ہوئی اس دن شہر میں بسنت تھی۔ اس سے اگلے سال ایک مقامی ہندو رئیس کالو رام کی سرگردگی میں یہاں تمام ہندو اکھٹے ہوئے، انھوں نے پتنگیں اڑائی اور ڈھول بجائے۔ " [2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Ishwar Dayal Gaur (2008)۔ Martyr as Bridegroom: A Folk Representation of Bhagat Singh۔ Anthem Press۔ صفحہ: 45–۔ ISBN 978-81-905835-0-3 
  2. پنجاب آخری مغل دورِ حکومت میں، مصنف بی ایس نجار صفحہ نمبر 279

بیرونی روابط

ترمیم