حویلی راجا دھیان سنگھ

محل وقوع

حویلی راجہ دھیان سنگھ اندرون ٹکسالی دروازہ میں پیر نوگزہ دربار کے قریب ۔سید مٹھا ٹیچنگ ہسپتال کے سامنے واقع ہے۔بہت سے لوگ ۔چونا منڈی میں موجود خوشحال سنگھ اور تیجا سنگھ کی حویلیوں کو دھیان سنگھ کی حویلی بتاتے ہیں حویلی دھیان سنگھ  خوش حال سنگھ اور تیجا سنگھ کی حویلیوں کے قریب ہی ہے۔ ماضی میں یہ تینوں حویلیاں کافی بڑی تھیں اور شاید ایک دوسرے سے جڑی ہوئی بھی ہوں لیکن جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں خوش حال سنگھ اور تیجا سنگھ کی حویلیوں میں جہاں آج گورنمنٹ فاطمہ جناح گرلز کالج قائم ہے اس میں حویلی دھیان سنگھ کی زمین شامل نہیں۔ حویلی دھیان سنگھ کے رقبے پر آج غالباً تین محلے آباد ہیں کشمیری محلہ،گجر ویڑہ اور ہندوستانی محلہ۔ ماضی میں راجا دھیان سنگھ کی حویلی کافی وسیع تھی۔

عمارت

کہا جاتا ہے کہ حویلی کا کُل رقبہ تقریباً پچاس کنال تھا جس میں تقریباً 62 کمرے تھے۔ بقول کہنیا لال"یہ حویلی جمعدار خوش حال سنگھ کی حویلی کی نسبت کافی وسیع تھی۔اس کو تعمیر کرنے کے لیے یہاں جس قدر رعایا کے مکانات تھے گرا دیے گئیے۔کئی سال تک یہ عمارت بنتی رہی ۔مشرق کی جانب اس کا مرکزی دروازہ ہے۔ حویلی میں وسیع اصطبل بھی ہے جہاں ہاتھی ،گھوڑے راجا کے واسطے مستعد رہتے تھے۔ اندرونی بڑے دروازے کے اندر ایک طویل راستہ طے کر کے ڈیوڑھی آتی ہے جس میں دو راستے ہیں ایک راستہ شمالی تو زنانہ حویلی جبکہ جنوبی مردانہ کچہری کے مقام کی طرف جاتا ہے۔حویلی میں بڑے عالیشان دالان بنے تھے جس کے نیچے تہ خانے تھے" ۔سید محمد لطیف کا بیان ہے کہ حویلی کے وسط میں دھیان سنگھ کی سمادھی تھی۔راجا دھیان سنگھ کے بعد یہ حویلی اس کے بیٹے ہیرا سنگھ کے پاس آئ۔پھر ہیرا سنگھ بھی قتل ہوا اور کئی روز تک اس کا سر اسی حویلی کے تہ خانے میں پڑا رہا۔ انگریز عہد میں یہ حویلی مہاراجا گلاب سنگھ کے قبضے میں آئی ۔ کہنیا لال کے حیات میں یہ حویلی گلاب سنگھ کے بیٹے رنبیر سنگھ کی ملکیت تھی۔ حویلی راجا دھیان سنگھ مختلف ادوار میں مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہی انگریز عہد میں اس حویلی میں اسسٹنٹ کمشنر لاہور کا دفتر بنا دیا گیا۔ اس حویلی میں آرٹلری افسروں نے رہائش بھی اختیار کی۔ 1854ء میں یہاں اسکول بھی کھولا گیا پھر کچھ عرصے بعد اس حویلی میں گورنمنٹ کالج کا قیام ہوا اور سر گنگا رام اسی حویلی میں زیر تعلیم رہے۔ اورئینٹل کالج کی ابتدا بھی اسی حویلی میں ہوئی۔ 1897ء میں جب سوامی ویویکانند لاہور آے تو انھوں نے اسی حویلی میں قیام کیا۔ نقوش لاہور نمبر میں درج ہے " پنجاب یونیورسٹی کالج کی ابتدا اسی حویلی سے ہوئی اور اخبار بھی پہلے پہل اسی جگہ سے نکلا۔ 1947ء سے پہلے یہاں دیال سنگھ ہائی اسکول تھا۔ پنجاب لوک سبھا کا دفتر بھی اسی عمارت میں تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بحکم قائداعظم یہ بلڈنگ جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹی سے کرایہ پر حاصل کی گئی اور اس کا نام  سٹی مسلم لیگ ہائی اسکول رکھا گیا۔ 1954ء کے موسم گرما میں محکمہ آثار قدیمہ نے حویلی کے احاطے کی مرمت کے لیے یہاں کھدائ کی تو یہاں سے زمانہ قبل از اسلام کی کچھ اینٹیں اور دیگر نوادرات دریافت ہوئے"۔ کہا جاتا ہے کہ حویلی کے جس حصے میں راجا دھیان سنگھ کا دربا رتھا اس کے نیچے تہ خانے میں تھیٹر بھی بنایا گیا تھا اور اس کے اندر ایک سرنگ تھی جو لاہور قلعے تک جاتی تھی ۔ جو بند کر دی گئیی تھی۔

2004ء تک سٹی مسلم لیگ ہائی اسکول اسی حویلی میں تھا مگر عمارت کی خستہ خالی کے باعث اسکول قریب نئی تعمیر کردہ عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ اس دن سے یہ عمارت ویران ہے۔  سید محمد لطیف نے اس حویلی کے حسن کے متعلق لکھا ہے " یہ محلات اپنی شان و شوکت و خوبصورتی کے لحاظ سے پنجاب کے عظیم مہاراجا کے وزیر اعظم اور اس عمارت کے بانی کی شہرت کے شایان شان ہیں" مگر موجودہ حالت میں حویلی کے زیادہ تر حصے پر  یا تو قبضہ ہو چکا ہے یا پھر فروخت کر دیا گیا ہے  اس وقت حویلی صرف 2 کنال پر مشتمل ہے اور قدیم عمارت میں سے صرف دربار حال موجود ہے۔حویلی میں سے محکمہ تعلیم نے اسکول کے لیے 26 کنال رقبہ حاصل کرنے کا سوچا جس میں سے 10 کنال کی قیمت ادا کی گئی جبکہ باقی 16 کنال زمین کی ادائیگی نہیں کی گئی اور یہ رقبہ جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹی کی ملکیت ہے۔ حویلی بہت بری حالت میں ہے اور یہاں پرندوں اور جانوروں کا بسیرا ہے اندر داخل ہوں تو یوں لگتا ہے کہ شاید کوئی بھوت بنگلہ ہے۔ اس حویلی کی چند شکستہ دیواریں اب بھی باقی ہیں۔ حویلی میں موجود تہ خانے کا راستہ برسوں سے بند ہے۔ لاہور کے باغات

باغ راجا دھیان سنگھ

ترمیم

یہ باغ مستی دروازہ اور شاہی قلعہ کے درمیان علاقہ میں موجود تھا آم اور جامن کے درخت اس باغ کی خصوصیت تھے یہ باغ راوی کے کنارے تھا ۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور کے بعد باغ تو انقلابِ زمانہ کا شکار ہو گیا لیکن اس زرخیززمین پر کھیتی باڑی ہوتی رہی روایات کے مطابق اس باغ والی زمین میں مختلف سمادھ بھی موجود ہیں ۔ اس باغ کے بارے میں کسی بھی کتاب میں کوئی زیادہ معلومات اور مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں

حوالہ جات

ترمیم