حکیم موسیٰ امرتسری
حکیم محمد موسیٰ چشتی امرتسری انھیں حکیم اہلسنت کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
حکیم موسیٰ امرتسری | ||
---|---|---|
ادیب | ||
پیدائشی نام | محمد موسیٰ | |
عرفیت | حکیم اہلسنت | |
قلمی نام | حکیم موسیٰ امرتسری | |
ولادت | 27، اگست 1927ء امرتسر | |
ابتدا | امرتسر، بھارت | |
وفات | 17،نومبر1999ء لاہور (پنجاب) | |
اصناف ادب | شاعری | |
ذیلی اصناف | غزل، نعت | |
ویب سائٹ | / آفیشل ویب گاہ |
نام
ترمیماولاً نام غلام مصطفے ٰ ثانیا محمد موسیٰ تھا ان کی قوم جاٹ مان تھی۔ایک علمی اور اور طبیب خاندان سے تھے
ولادت
ترمیمحکیم موسی امرتسری کی پیدائش 27 اگست 1927ء بمطابق 28 صفر 1346ھ امرتسرمشرقی پنجاب ہندوستان میں ہوئی ان کے والد کا نام حکیم فقیر محمد چشتی امرتسری تھا
القاب
ترمیممحقق عصر، محسن ملت، صوفی بزرگ طبیب کامل حکیم اہل سنت کا لقب ضیاءالدین مدنی نے عطا کیا
تعلیم
ترمیمآپ نے قرآن مجید ناظرہ قاری کریم بخش سے پڑھا۔ کتب فارسی مفتی عبد الرحمان ہزاروی مدرس مدرسہ نعمانیہ امرتسر سے پڑھیں۔ نیز علامہ مولانا محمد عالم آسی سے علمی استفادہ کیا۔ کتب طب اور مثنوی مولانا رومی کے پہلے دو دفتر والد گرامی سے پڑھے۔ علم ریاضی کی باقاعدہ تحصیل کی اور بھی کھاتے کا حساب محمد شفیع پاندے سے حاصل کیا۔
بیعت و خلافت
ترمیمروحانی علم حاصل کرنے کے لیے بیعت و خلافت سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں خواجہ علی محمد چشتی سجادہ نشین بسی شریف (ضلع ہوشیار پور‘ بھارت) سے کی ۔ یہ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ نصیریہ فخریہ ہے۔ آپ کے والد گرامی بھی قبلہ میاں صاحب سے بیعت تھے۔ گویا آپ اپنے والد گرامی کے روحانی پیر بھائی بھی ہیں۔
طب و حکمت
ترمیم12/ اگست 1947ء میں امر تسر سے پاکستان تشریف لائے، چھ ماہ تک سر گودھا میں اور پھر اپنے والد گرامی کی طلب پر لاہور چلے گئے۔ لاہور پہنچ کر والد صاحب کے ساتھ لوہاری دروازہ کے باہر مطب شروع کیا، 1949ء میں رام گلی میں علاحدہ مطب کیا۔ آپ 55ریلوے روڈ لاہور میں مطب چلاتے رہے۔ حکیم اہلِ سنت نے زندگی بھر طبابت کی۔یہی ان کا پاکیزہ ذریعہ معاش تھا۔ طبابت کرتے تھے مگر اخلاص پیشہ کہلاتے تھے، وہ کار مطب عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے۔ وہ حسن کے پیکر اور خدمت خلق کے خوگر تھے، تلاش رزق سے زیادہ رضائے مولٰی کے متلاشی رہتے تھے۔ خاندانی طبیب تھے فن طب میں اعلٰی مقام رکھتے تھے، وہ سچ مچ مسیحائے قوم تھے ان کا مطب جسمانی اور روحانی بیماریوں کا شفا خانہ اور دین و دانش کا مرکز ِفیضان تھا۔ان کا مطب طبی مرکز سے زیادہ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا مرکز ہے۔
بانی
ترمیممجلس ضیائی اور مجلس رضا کے بانی ارکان میں شامل ہیں 1968ءمیں ’’مرکزی مجلس رضا‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔ جس کا بنیادی مقصد امام احمد رضا اور فکر رضا کا تعارف تھا، مسلک ِاعلٰی حضرت کو عام کرنا تھا۔
تصنیفات
ترمیمآپ نہایت بلند پایہ ادیب اور علم و حکمت کا قیمتی ذخیرہ ہیں۔ آپ کی تصانیف میں
- تذکرہ علما امرتسر
- مولانا غلام محمد ترنم
- مولانا نور احمد امرتسری
- ذکر مغفور (تذکرہ سید مغفور القادری)
- اذکار جمیل (تذکرہ سید برکت علی شاہ خلیجانوی) بہت ہی مشہور ہوئیں۔
- آپ نے کئی علمی کتابوں پر زور دار دیبا چے لکھے۔ مقدمہ ’’کشف المحجوب‘‘ مقدمہ ’’مکتوبات مجدد الف ثانی ‘‘ اور مقدمہ ’’عبادالرحمٰن‘‘ اہل علم کی توجہ کا مرکز بن گئے۔۔ [1]
وفات
ترمیمحکیم موسی کی وفات 17 نومبر 1999ء 8شعبان 1420ھ لاہور میں ہوئی۔ مقابر چشتیاں، قبرستان نتھے شاہ، جوار میاں میر قادری میں مدفون ہیں۔[2]