خادم علی نقشبندی
مولانا حکیم خادم علی نقشبندی سیالکوٹی علوم دینیہ اور طب میں فخر روزگار شعر و شاعری میں کمال رکھتے تھے یہ میاں جی معروف تھے۔
حکیم خادم علی نقشبندی | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | (07ربیع الثانی 1300ھ بمطابق 15 جولائی 1983ء) |
وفات | (1393ھ بمطابق 21 اگست 1971ء) |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
سلسلہ | نقشبندیہ ، کریمیہ |
مرتبہ | |
مقام | کوٹلی لوہاراں سیالکوٹ |
پیشرو | حافظ محمد عبد الکریم |
نام
ترمیمحکیم خادم علی نقشبندی ان کے والد حکیم احمد دین تھے دادا علامہ غلام محمد قادری ولد حکیم حافظ محمد عظیم تھا۔جب آپؒ کی عمر سات برس ہوئی تو والد گرامی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔
ولادت
ترمیمحکیم خادم علی نقشبندی 15 فروری 1883ء کو کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے[1]
تعلیم و تربیت
ترمیمبڑے بھا ئی حکیم حامدعلی نے کوٹلی لوہاراں کے پرائمری اسکول میںداخل کروا دیا بڑے بھائی سے ہی علم وطب ،فقہ ،منطق،تفسیر و حدیث کے علوم سیکھے۔آپ ؒ کچھ عرصہ لاہور کے معروف طبیب مفتی سلیم اللہ سے بھی علمِ طب میںاستفادہ حاصل کرتے رہے۔علم عروض مولا نا عبد القادر ہزاروی سے سیکھا اور ابتدا ءمیں اپنے کلام کی اصلاح بھی انہیںسے لیتے رہے ۔
بیعت و خلافت
ترمیمحکیم صاحب حافظ قرآن اور ظاہری علوم میں با کمال ہونے کے ساتھ ساتھ باطنی علوم میں بھی بلند مقام رکھتے تھے ۔ سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں خواجہ حافظ محمد عبد الکریم (راولپنڈی ) کے مرید ہوئے اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے اور ان کے وصال کے بعد امیر ملت محدث علی پوری سے بھی خلافت پائی ۔
علم طب
ترمیمرئیس الاطباء حکیم خادم علی طب میں یگانہ حیثیت کے حامل تھے مریض کا معاینہ کرتے تو مریض کا ماضی ، حال اور مستقبل ان پر روشن ہوجاتا ، وہ اصل مرض کی نشان دہی کرتے ،
حالات زندگی
ترمیمحکیم صاحب قادر الکلام خطیب تھے ، ان کی تقریر اور منظوم کلام میں بلا کاسوز تھا ، انھوں نے شریعت و طریقت ، طب و حکمت اور علم و ادب کی گرانقدر خدمات انجام دیں ،ان کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک حصہ جو کوٹلی لوہاراں میں گزارا ،دوسرا حصہ جو داتا کی نگری (لاہور)میں بسر کیا اور تیسرا حصہ جو سیالکوٹ میں گذرا آپ کاکلام حکمت و موعظت اور پند و نصیحت کا قابل قدر خزینہ ہے ، آپ کی متعدد تصانیف شائع ہو کر مقبول عوام و خواص ہو چکی ہیں۔
وفات
ترمیمحکیم خادم علی صاحب کا وصال 30 جمادی الثانی، 21 اگست (1391ھ/1971ء) بروز ہفتہ ہوا 50 ہزار سے زائد افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی، سیالکوٹ میں حکیم خادم علی روڈ کے ساتھ مغرب کی طرف قبرستان شہیداں میں آپ کا مزار تعمیر ہو چکا ہے [2]