"عطیہ فیضی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
3 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5
سطر 55:
== ایوان رفعت ==
بمبئی میں اس فنکار جوڑے (عطیہ فیضی اور فیضی رحمین) کا گھر ’ایوان رفعت‘ شعر و نغمہ اور علمی محفلوں کا مرکز تھا۔ ان کے قریب ہی قائداعظم محمد علی جناح کا مالابار والا گھر واقع تھا۔ وہ ان کی آرٹ اور کلچر سے وابستگی سے بخوبی واقف تھے۔
قیام پاکستان کے بعد دونوں میاں بیوی قائداعظم کی خواہش پر پاکستان منتقل ہوگئے۔ انہوں نے جس جگہ رہائش اختیار کی وہ کراچی میونسپل کارپوریشن کی ملکیت تھی۔ فنکارانہ مزاج کا حامل یہ جوڑا زمین کی ملکیت اور کلیم داخل کرنے کی روایتی اور قانونی تقاضوں میں نہ پڑا۔ جس کی وجہ سے ادھیڑ عمر خاندان کے مسائل کا آغاز ہوا۔<ref>{{Cite web |title=آرکائیو کاپی |url=https://stateviews.pk/450854/ |access-date=2023-01-05 |archive-date=2023-01-05 |archive-url=https://web.archive.org/web/20230105031824/https://stateviews.pk/450854/ |url-status=dead }}</ref>
https://stateviews.pk/450854/
</ref>
بیگم عطیہ فیضی نے یہاں بھی ’ایوان رفعت‘ کے نام سے آرٹ گیلری قائم کی۔ جس میں فیضی رحمین کے مصوری کے نمونے اور دیگر خاندانی فنکارانہ نوادرات رکھے گئے تھے۔ ساتھ ہی المخزن کے نام سے لائبریری بھی اس کمپلیکس کا حصہ تھی۔ اسی عمارت کا دوسرا حصہ دونوں نے اپنی رہائش کے لیے مختص کر لیا تھا۔ محمد علی جناح سے تعلق اور عقیدت کی وجہ سے اس عمارت کو ان کے نام سے معنون کیا گیا۔
1958 کا مارشل لا جہاں پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت کے خاتمے کا باعث بنا وہی یہ فنکار میاں بیوی کے لیے مصائب اور آلام بھی ساتھ لایا۔
سطر 65 ⟵ 63:
اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف 20 مئی 1963 کو جسٹس ایس اے رحمان کے نام عطیہ بیگم کا خط ان کی بے بسی اور سرکاری ضابطوں اور اہلکاروں کی بے حسی کا دکھڑا سناتا ہے۔
کراچی میونسپل کارپوریشن ان کی شخصیت اور کارناموں کو خاطر میں لائے بغیر محض کچھ کاغذات کی بنیاد پر یہ عمارت اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی تھی۔ یہاں تک کہ یہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ ان دونوں کے پاس وکیل کی فیس کے پیسے بھی نہ تھے۔ بے گھری اور بدحالی سے مجبور ہوکر انہوں نے آرٹ کے نادر نمونے فروخت کرنا شروع کر دیے۔
ماہر القادری کے بقول انھوں نے انتہائی قیمتی اور دیدا زیب فرنیچر جو کسی میوزیم کی زینت بننا چاہیے تھا، سستے داموں گزر بسر کی خاطر بیچ ڈالا۔۔<ref>{{Cite web |title=آرکائیو کاپی |url=https://stateviews.pk/450854/ |access-date=2023-01-05 |archive-date=2023-01-05 |archive-url=https://web.archive.org/web/20230105031824/https://stateviews.pk/450854/ |url-status=dead }}</ref>
https://stateviews.pk/450854/
</ref>
 
ان کا گھر فن کے شائقین کے لیے کھلا رکھا گیا تاکہ وہ ان کے فن کا مجموعہ دیکھ سکیں۔ یہ سلسلہ 1990 کی دہائی تک جاری رہا پھر اس مجموعہ کو آرکائیو کیا گیا تھا کیونکہ مکان کو منہدم کرنا تھا۔ <ref>{{حوالہ ویب|url=http://www.oxforddnb.com/view/10.1093/ref:odnb/9780198614128.001.0001/odnb-9780198614128-e-102457;jsessionid=25D06B5F786AE5064E7FD4728D3F7CB2|title=Fyzee, Atiya [married name Atiya Fyzee-Rahamin; known as Atiya Begum, and Shahinda] (1877–1967), author, social reformer, and patron of the arts {{!}} Oxford Dictionary of National Biography|website=www.oxforddnb.com|language=en|doi=10.1093/ref:odnb/102457|accessdate=2019-02-18}}</ref>