عطیہ فیضی
عطیہ فیضی یا عطیہ فیضی رحامین؛ عطیہ بیگم؛ شاہندا؛ عطیہ بیگم فیضی رحیمین (1 اگست 1877 - 4 جنوری 1967)عطیہ بنت حسن علی، ایک ہندوستانی، پاکستانی مصنفہ اور جنوبی ایشیاء سے کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ [4] [5] [6]
عطیہ فیضی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 اگست 1877ء [1][2] قسطنطنیہ |
وفات | 4 جنوری 1967ء (90 سال)[1][2] کراچی [3] |
مدفن | میوہ شاہ قبرستان |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
شریک حیات | سموئیل فیضی رحمین (5 دسمبر 1912–4 جنوری 1967)[1] |
ساتھی | محمد اقبال (1 اپریل 1907–21 اپریل 1938) شبلی نعمانی |
والد | حسن علی آفندی |
بہن/بھائی | نازلی فیضی ، زہرا فیضی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | ماریا گرے ٹریننگ کالج |
پیشہ | مصنفہ ، گلو کارہ |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی ، اردو ، فارسی |
درستی - ترمیم |
علامہ اقبال کو جرمنی سے واپسی پر برصغیر کے دو اعلیٰ پائے کے تعلیمی اداروں سے منسلک ہونے کی پیشکش ہوئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور نے انھیں فلسفے کے پروفیسر کی ملازمت کا عندیہ دیا۔ اقبال نے اس پیشکش پر وکالت کو ترجیح دی۔ابتدائی دو برسوں میں انھیں احساس ہو گیا کہ وکالت سے ان کی معاشی زندگی میں استحکام نہیں آ سکتا۔ ایسے میں انھوں نے ریاست حیدرآباد سے وابستہ ہونے کا ارادہ کیا۔ اسی سلسلے میں وہ 1907ء میں ریاست کے وزیر خزانہ سر اکبر حیدری کے مہمان کی حیثیت سے کئی دن ریاست میں مقیم رہے۔ لاہور واپسی پر انھیں یکے بعد دیگرے دو خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن میں اس مجوزہ خیال پر ان کی سخت سرزنش کی گئی تھی۔ خود اقبال نے اس دوستانہ تنبیہ کو ’میٹھی جھڑکیوں‘ اور ’ملامت نامہ‘ جیسے لفظوں سے یاد کیا ہے۔ خدا جانے خطوط میں کی گئی سرزش کا اثر تھا کہ کوئی اور وجہ اقبال اپنے ارادے سے باز رہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ حیدرآباد کی سرکاری ملازمت میں چلے جاتے تو شاید اقبال نہ ہوتے۔ شاعر مشرق کے ارادوں کے راستے میں مزاحم ہونے والی یہ ہستی عطیہ فیضی تھی۔ انھیں اندیشہ تھا کہ حیدرآباد جا کر اقبال اپنی ترجیحات اور توانائیوں کو کسی معمولی کام میں صرف نہ کر دیں۔
زندگی
ترمیمفیضی یکم اگست 1877ء میں قسطنطنیہ (استنبول) میں پیدا ہوئیں اور وہ ایک تائب جی خاندان سے تعلق رکھنے والی اسماعیلی بوہرہ تھیں[7] عطیہ فیضی نے 1877ء میں ہندوستان کے ایک عرب نژاد خاندان میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد حسن آفندی کو سلطنت عثمانیہ کے دربار تک رسائی حاصل تھی۔ جن کا کاروبار ہندوستان عراق اور استنبول تک پھیلا ہوا تھا۔ اس دور کے اعلیٰ پائے کے تعلیمی اداروں سے تحصیل علم کی وجہ سے انھیں انگریزی، عربی، فارسی، ترکی اور اردو زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ 20ویں صدی کے آغاز پر جب ہندوستان میں لڑکیوں کی تعلیم خال خال تھی انھوں نے حصول علم کے لیے برطانیہ کا سفر کیا۔ خاندانی اثر و رسوخ اور ذہانت کی بدولت عطیہ فیضی نے جلد ہی انگلستان کی ہندوستانی کمیونٹی میں اپنی جگہ بنا لی۔ لندن میں ان کے شب و روز نامور ہندوستانی شخصیات کی معیت میں گزرتے تھے۔ ٹاٹا کمپنی کے بانی جمشید جی ٹاٹا، سروجنی نائیڈو کے علاوہ ہندوستانی ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کے ساتھ ان کی صحبتیں رہنے لگیں۔ گاندھی جی سے منفرد انداز سے آٹو گراف لینے کا واقعہ شاعر اور نثر نگار ماہرالقادری نے اپنی کتاب ’یاد رفتگاں‘ میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مہاتما گاندھی جب پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد بحری جہاز سے واپس آ رہے تھے تو عطیہ بھی اسی جہاز پر سوار تھی۔ انھوں نے بااصرار گاندھی جی کی انگلی میں پن چھبو کر ان کے خون کے نشان کو اپنی آٹو گراف بک پر ثبت کرکے ان کے دستخط کروا لیے۔ عطیہ فیضی لندن کے شب و روز کا احوال ’تہذیب نسواں‘ نامی رسالے میں لکھا کرتی تھی۔ ان کی تحریروں پر مشتمل ڈائری ’زمانہ تحصیل‘ کے نام سے چھپ کر آئی تو اس نے ہندوستان کے اہل علم کو اپنی جانب متوجہ کر دیا۔ علامہ اقبال سے ان کے تعارف کا باعث بھی یہی ڈائری بنی[8]
فن تحریر اور سرگرمی
ترمیموہ اساتذہ کے ایک تربیتی کالج میں شرکت کے لیے لندن آئی تھیں اور انھوں نے 1907 میں ہندوستان میں اپنی ڈائری شائع کرنے کا انتظام کیا تھا۔ فیضی نے لندن میں کورس مکمل نہیں کیا۔ اپنی دانشوری کے لیے مشہور ، فیضی کے خط و کتاب نے محمد اقبال ، شبلی نعمانی ، ابو الاصر حفیظ جالندھری اور مولانا محمد علی جوہر جیسے روشن خیالوں کو متاثر کیا۔ [9] ان کی بہن کو ان کے خطوط بعد میں تھوڑی ترامیم کے ساتھ شائع کیے گئے تاکہ محمد اقبال کے ساتھ ان کی عقیدت سے متعلق ان کی خیالات کے حوالہ دئے جاسکیں۔ [4] [10] سموئل فزی۔رحیمین سے شادی سے قبل معروف مصنفین شبلی نعمانی [11] اور محمد اقبال [4] کے ساتھ ان کی قریبی دوستی کے بارے میں افواہیں گرم رہتی تھیں ۔ [12] [13]
عطیہ فیضی کی اقبال سے پہلی ملاقات
ترمیمان کی اقبال سے پہلی ملاقات لندن میں ہندوستانی طلبہ کی یہودی نگران مس بیک کے گھر ہوئی۔ اقبال عطیہ کی پرکشش شخصیت اور تبحر علمی سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کے ساتھ شاعری، تاریخ اور فلسفیانہ نکات پر گھنٹوں گفتگو کرتے۔ عطیہ فیضی کی اقبال سے پہلی ملاقات لندن میں ہندوستانی طلبہ کی یہودی نگران مس بیک کے گھر ہوئی۔ بیگم عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خطوط کو انھوں نے ’اقبال‘ کے نام سے 1947ء میں کتابی شکل دی۔ اقبال کی ذاتی اور شخصی زندگی کی تفہیم اور تشریح کے لیے اس کتاب میں بہت سا سامان موجود ہے۔ 1907ء میں انھوں نے اقبال کی دعوت پر کیمرج کا دورہ کیا۔ لندن میں ہونے والی علمی محافل اور تفریحی پارٹیوں میں اقبال کی خوش مزاجی کے واقعات شاعر مشرق کی ذاتی دلچسپیوں کا خوبصورت بیان ہے۔ اپنے بھائی کے ہمراہ عطیہ فیضی کا جرمنی کے سفر میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اقبال کی تعلیمی اور تفریحی مصروفیات اور مشاغل کا پرلطف ذکر قاری کو ایک نئے اقبال سے آشنا کرتا ہے۔ اقبال پر ایک وقت ایسا بھی گذرا ہے جب وہ شدید یاس و قنوطیت کا شکار تھے۔ انھوں نے اپنی کیفیات اور ذاتی احساسات عطیہ فیضی کے نام خطوط میں بیان کیے۔ بقول جسٹس ایس اے رحمان اقبال کے پرستاروں کو عطیہ بیگم کا احسان مند ہونا چاہیے۔ ان کے تشفی امیز طنز کے زیر اثر وہ اپنی زندگی کے نازک موڑ پر رجائیت کی طرف واپس پلٹے۔ عطیہ فیضی کی روز افزوں مقبولیت کا اثر تھا کہ ہندوستان کی بڑی علمی اور ادبی شخصیات ان کی جانب کھینچی چلی آتی تھیں[14]
ریڈیو پاکستان کے لیے عطیہ فیضی کا انٹرویو
ترمیممعروف صحافی نصراللہ خان جن کو ریڈیو پاکستان کے لیے عطیہ فیضی کا انٹرویو کرنے کا بھی موقع ملا، کی تصنیف ’کیا قافلہ جاتا رہا‘ میں عطیہ فیضی کے کمالات فن کا تذکرہ قلمبند کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قلوپطرہ اور عطیہ فیضی کی داستان میں بہت ساری مماثلتیں ہیں۔ ایک ریاست کی حاکم تھی تو دوسری دلوں کی ملکہ۔ قلوپطرہ کی محبت میں سیزر اور انٹونی بری طرح پھنسے۔ عطیہ بیگم کی زلف گِرہ گیر کے گرفتار بڑے بڑے دانشور تھے۔ اس دور کے مسلم شاعروں اور ادیبوں کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوش خصائل اور سماجی میل جول کی حامل خاتون توجہ کا باعث بن گئی۔ علامہ شبلی نعمانی سمیت اس دور کے مسلم شاعروں اور ادیبوں کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوش خصائل خاتون توجہ کا باعث بن گئی۔ علامہ شبلی نعمانی بھی انہی میں سے ایک تھے۔ وہ ان کے والد حسن آفندی سے استنبول میں مل چکے تھے۔ عطیہ سے تعارف اور تعلق شبلی کی زندگی کا رومانوی دور تھا۔ جس کا رنگین عکس ان کے مجموعہ کلام میں جھلکتا ہے بقول شیخ اکرام مولانا کو اس قابل اور باکمال لڑکی نے جس طرح مسحور اور بے خود بنا دیا تھا اس کا اندازہ خطوط شبلی کے ورق ورق سے ہوتا ہے۔ شبلی بیگم عطیہ کی خوبیوں کا تذکرہ کر کے انھیں لکھتے ہیں کہ ان باتوں کے ساتھ اگر تم موسیقی سے بھی واقف ہو تو اجازت دو کہ لوگ تمھیں پوجیں[15]
اہل قلم کا غلط فہمی میں مبتلا ہونا
ترمیمشبلی کے رنگین تذکروں اور والہانہ انداز بیان نے بہت سے اہل قلم کو اس حد تک غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ ’شبلی کی حیات معاشقہ‘ جیسی کتاب منظر عام پر آئی۔ 1950ء میں ڈاکٹر وحید قریشی کی اس تصنیف نے تہلکہ مچا دیا۔ کتاب شبلی کی والہانہ وارفتگی کے ’چٹخارے دار‘ تذکرے سے بھری ہوئی ہے۔ اسی کے ساتھ بیگم فیضی کی جانب سے شبلی نعمانی پر طنز اور پھبتیوں کا عکس بھی ملتا ہے۔ اس کتاب کی مخالفت اور تنقید سے مجبور ہوکر ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنی تصنیف کے مندرجات سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ بعد کی زندگی میں جب وہ ایک مذہبی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوئے تو اس کے وابستگان نے لائبریریوں اور کتب خانوں سے اس کتاب کے نسخے ڈھونڈ ڈھونڈ کر چھپا لیے۔ کچھ عرصہ قبل لاہور کے ایک صاحب نے اس کی اشاعت نو کا اہتمام کیا ہے۔ خود عطیہ فیضی نے اس بحث اور زیب داستان کا جواب یوں دیا ’ہم نے مولانا کے خطوط کو معصومانہ روشنی میں دیکھا۔ کیوں کہ ان میں بظاہر ایسی کوئی بات نہ تھی کہ ہم سے کوئی کسی قسم کی بدگمانی کرتا۔ البتہ ان میں شاعرانہ شوخی ضرور تھی۔ جو شاعر طبقے کا خاصہ ہے۔‘ فنون لطیفہ سے وابستگی عطیہ فیضی زندگی کا مرکز و محور تھا۔ ہندوستانی موسیقار پر ان کی انگریزی میں تین بے مثال کتابیں مقامی راگوں کو سمجھنے اور ان کی جمالیاتی خصوصیات کی تشریح سے بھرپور ہیں۔ موسیقی اور مصوری سے وابستگی ان کی رحمین سے شادی کا باعث بنی۔ ہندوستانی یہودی خاندان سے تعلق رکھنے والے رحمین کی جائے پیدائش پونا تھی۔ بیرون ملک سے مصوری میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اس مصور کی تصویریں دنیا کے مختلف ممالک کی آرٹ میوزیم کا حصہ بنتی تھی۔ انھوں نے عطیہ سے شادی کے بعد نہ صرف اسلام قبول کر لیا بلکہ فیضی کو اپنے نام کا مستقل حصہ بنا دیا۔ شبلی نعمانی نے اس شادی اور رحمین کے مذہب کی تبدیلی کی طرف یوں اشارہ کیا۔
” | بتان ہند کافر کر لیا کرتے ہیں مسلم کو
عطیہ کی بدولت آج ایک کافر مسلمان ہو گیا |
“ |
1912 سے 1948 تک
ترمیم1926 میں علی گڑھ کے ایک تعلیمی کانفرنس میں انھوں نے خواتین کو پردے میں قید رکھنے کیخلاف آواز اٹھائی اور خواتین کے حقوق کی بات اور انھیں گھومنے پھرنے کی آزادی کی بات رکھی۔ [16]
1948ء سے 1967ء تک کراچی
ترمیمفیضی ممبئی میں جناح کی ہمسائیگی میں تھیں ، محمد اقبال سے بھی ان کا قریبی تعلق تھا ، 1948ء میں جناح کی دعوت پر اپنے شوہر اور بہن کے ساتھ کراچی شفٹ ہوئیں جہاں انھیں رہائش فراہم کی گئیں۔ [4] انھوں نے اپنے نئے گھر میں ایک فن اور ادبی گوشہ تخلیق کیا جسے ممبئی کی رہائش گاہ کے نام پر رکھا گیا۔ جناح کی موت کے بعد عطیہ اور سموئیل کے جوڑے کو جناح کے ذریعہ الاٹ کیے گئے اپنے گھر سے بے دخل کر دیا گیا ، انھیں مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا اور بیرون ملک دیگر رشتہ داروں کی مدد پر زندگی بسر کرنا پڑی۔ [4]
تصانیف
ترمیم- (1925) The music of india
- (1914) Indian music
- Atiya's journeys : A Muslim woman from Bombay to Britain
- Sangeet of Indian (1942)
- Iqbal
- زمانہ تحصیل
وفات
ترمیمفیضی کا انتقال 4 جنوری 1967ء میں کراچی میں بہت کسمپرسی میں ہوا اور اگلے ہی سال ان کے شوہر کا بھی انتقال ہو گیا۔قبرستان میوہ شاہ کراچی میں ایک احاطہ سلیمانی بوہروں کے لیے مخصوص ہے۔ وہیں دونوں کی قبریں موجود ہیں،
سوانح
ترمیم- عطیہ فیضی مشاہیر ادب سے روابط کی نوعیت (ڈاکٹر یامین عثمان)
- اقبال از عطیہ فیضی (مترجم ضیاء الدین احمد برنی)
- اقبال ، عطیہ بیگم (عبد العزیز خالد)
- خطوط اقبال بنام عطیہ (فیضی ڈاکٹر منظر عباس نقوی)
- اقبال بہ نام عطیہ فیضی (ڈاکٹر نواز کنول)
- شبلی کی حیات معاشقہ (ڈاکٹر وحید قریشی)
- اقبال ( عطیہ فیضی) ترجمہ
- خطوط شبلی بنام خواتین فیضی (ڈاکٹر آمین زبیری)
- زمانہ تحصیل عطیہ فیضی کی نادر و نایاب خود نوشت (ڈاکٹر یامین عثمان)
ایوان رفعت
ترمیمبمبئی میں اس فنکار جوڑے (عطیہ فیضی اور فیضی رحمین) کا گھر ’ایوان رفعت‘ شعر و نغمہ اور علمی محفلوں کا مرکز تھا۔ ان کے قریب ہی قائد اعظم محمد علی جناح کا مالابار والا گھر واقع تھا۔ وہ ان کی آرٹ اور کلچر سے وابستگی سے بخوبی واقف تھے۔ قیام پاکستان کے بعد دونوں میاں بیوی قائد اعظم کی خواہش پر پاکستان منتقل ہو گئے۔ انھوں نے جس جگہ رہائش اختیار کی وہ کراچی میونسپل کارپوریشن کی ملکیت تھی۔ فنکارانہ مزاج کا حامل یہ جوڑا زمین کی ملکیت اور کلیم داخل کرنے کی روایتی اور قانونی تقاضوں میں نہ پڑا۔ جس کی وجہ سے ادھیڑ عمر خاندان کے مسائل کا آغاز ہوا۔[17] بیگم عطیہ فیضی نے یہاں بھی ’ایوان رفعت‘ کے نام سے آرٹ گیلری قائم کی۔ جس میں فیضی رحمین کے مصوری کے نمونے اور دیگر خاندانی فنکارانہ نوادرات رکھے گئے تھے۔ ساتھ ہی المخزن کے نام سے لائبریری بھی اس کمپلیکس کا حصہ تھی۔ اسی عمارت کا دوسرا حصہ دونوں نے اپنی رہائش کے لیے مختص کر لیا تھا۔ محمد علی جناح سے تعلق اور عقیدت کی وجہ سے اس عمارت کو ان کے نام سے معنون کیا گیا۔ 1958 کا مارشل لا جہاں پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت کے خاتمے کا باعث بنا وہی یہ فنکار میاں بیوی کے لیے مصائب اور آلام بھی ساتھ لایا۔ کراچی میونسپل کارپوریشن نے 1960 کے ابتدائی برسوں میں میاں بیوی کو اس عمارت سے بے دخل کر دیا۔ جس کی تعمیر اور تزئین پر انھوں نے اپنے پلے سے 30 لاکھ روپے کے قریب رقم خرچ کی تھی۔ بقول عطیہ فیضی انھیں محصور کرکے لائبریری کو مسمار کر دیا گیا۔ دن کے اجالے میں نادر فن پاروں کو بے رحمی سے باہر پھینک دیا گیا۔ بیگم فیضی نے مجبورا اس دور کے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ایس اے رحمان کو خط لکھ کر مدد طلب کی۔ جن کی تحریر ’بیگم عطیہ فیضی کا المیہ‘ ان کو پیش آنے والے المناک واقعات کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ جسٹس ایس اے رحمان نے کمشنر کراچی کی توجہ بیگم عطیہ کے حالات کی طرف مبذول کروائی۔ جس پر کمشنر نے پی ڈبلیو ڈی کے منصوبہ بندی کے مشیر محسن علی کو ثالث مقرر کیا۔ انھوں نے فیصلہ دیا کہ عطیہ بیگم کو دو لاکھ بیس ہزار روپے معاوضہ دیا جائے اور بلڈنگ کے ایم سی کے حوالے کی جائے۔ اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف 20 مئی 1963 کو جسٹس ایس اے رحمان کے نام عطیہ بیگم کا خط ان کی بے بسی اور سرکاری ضابطوں اور اہلکاروں کی بے حسی کا دکھڑا سناتا ہے۔ کراچی میونسپل کارپوریشن ان کی شخصیت اور کارناموں کو خاطر میں لائے بغیر محض کچھ کاغذات کی بنیاد پر یہ عمارت اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی تھی۔ یہاں تک کہ یہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ ان دونوں کے پاس وکیل کی فیس کے پیسے بھی نہ تھے۔ بے گھری اور بدحالی سے مجبور ہوکر انھوں نے آرٹ کے نادر نمونے فروخت کرنا شروع کر دیے۔ ماہر القادری کے بقول انھوں نے انتہائی قیمتی اور دیدا زیب فرنیچر جو کسی میوزیم کی زینت بننا چاہیے تھا، سستے داموں گذر بسر کی خاطر بیچ ڈالا۔۔[18]
ان کا گھر فن کے شائقین کے لیے کھلا رکھا گیا تاکہ وہ ان کے فن کا مجموعہ دیکھ سکیں۔ یہ سلسلہ 1990 کی دہائی تک جاری رہا پھر اس مجموعہ کو آرکائیو کیا گیا تھا کیونکہ مکان کو منہدم کرنا تھا۔ [19] ان کے بے دخل کیے گئے زمین پر اب ایک ثقافتی سینٹر بنانے کا منصوبی زیر تکمیل ہے۔ [20]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ عنوان : Oxford Dictionary of National Biography — ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb166172908 — بنام: Atiya Begum Fyzee-Rahamin — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ http://www.open.ac.uk/researchprojects/makingbritain/content/atiya-fyzee
- ^ ا ب پ ت ٹ Atiya's Journeys: A Muslim Woman from Colonial Bombay to Edwardian Britain (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-908044-1۔ doi:10.1093/acprof:oso/9780198068334.001.0001/acprof-9780198068334
- ↑ "Atiya Fyzee 1877-1967"۔ sister-hood magazine. A Fuuse production by Deeyah Khan. (بزبان انگریزی)۔ 2019-02-05۔ 07 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2020
- ↑ "The ever lingering fate of the Fyzee Rahamin Art Gallery"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2017-07-10۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 فروری 2019
- ↑ https://www.urdunews.com/node/632451
- ↑ https://www.urdunews.com/node/632451
- ↑ "From royalty to oblivion"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2010-06-13۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 فروری 2019
- ↑ From InpaperMagazine (2011-08-28)۔ "NON-FICTION: The man behind the poetry"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2020
- ↑ Rauf Parekh (2015-06-22)۔ "Literary Notes: Atiya Fyzee, Shibli and Saheefa's special issue"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2020
- ↑ "Atiya Fyzee | Making Britain"۔ www.open.ac.uk۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 فروری 2019
- ↑ Shamsur Rahman Farooqi, Shibli Nomani Annual Extension Lecture 2011, Darul Musannefin Shibli AcademyAcademy, Azamgarh
- ↑ https://www.urdunews.com/node/632451
- ↑ https://www.urdunews.com/node/632451
- ↑ A letter received by Sayyid Husain Bilgrami in Coming out: decisions to leave Purdah, jstor.org (Early 1926)
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 05 جنوری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جنوری 2023
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 05 جنوری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جنوری 2023
- ↑ "Fyzee, Atiya [married name Atiya Fyzee-Rahamin; known as Atiya Begum, and Shahinda] (1877–1967), author, social reformer, and patron of the arts | Oxford Dictionary of National Biography"۔ www.oxforddnb.com (بزبان انگریزی)۔ doi:10.1093/ref:odnb/102457۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 فروری 2019
- ↑ Harris Khalique (2019-09-15)۔ "COLUMN: PORTRAIT OF A NATION"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2020
بیرونی روابط
ترمیم- bibliothèque nationale de فرانس کے بارے میں تفصیلات
- اوپن یونیورسٹی کے بارے میں جائزہ
محترمہ محمود الحسن ، "عطیہ فیضی بہنوں کا سب سے زیادہ علامت" ، پورٹسماؤت میں ادب ، یو آر ایل: httpآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ englishliterature.port.ac.uk (Error: unknown archive URL) ://englishlite[مردہ ربط] ادب.port.ac.uk/؟p=765