"ایمان (اسلامی تصور)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سانچہ کا اضافہ، حوالہ جات کے ٹیگز اور غیر متعلقہ مواد کو چھپایا، جسے بعد میں مناسب مضمون مین منتقل کیا جائے گا
سطر 1:
{{اسلام اور ایمان|}}
{{صفائی}}
ایمان [[شریعت]] اسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے۔
 
سطر 6:
ایمان [[عربی زبان|عربی]] زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ’’ا۔ م۔ ن‘‘ (امن) سے مشتق ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو [[امن]] کہتے ہیں۔
 
ایمان کا لفظ بطور فعل لازم استعمال ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن پانا‘‘، اور جب یہ فعل متعدی کے طور پر آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن دینا‘‘۔<ref>ابن منظور، لسان العرب، 13:23</ref> <ref>زبيدی، تاج العروس من جواهر القاموس، 18 : 23، 24</ref>
 
{{ع}}1. ابن منظور، لسان العرب، 13 : 23
 
2. زبيدی، تاج العروس من جواهر القاموس، 18 : 23، 24{{ڑ}}
 
کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے۔ گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امانت اور بھروسے پر دلالت کرتا ہے۔
سطر 22 ⟵ 18:
ایمان قلب و باطن کی یقینی حالت کا نام ہے جس میں قلب و باطن دنیا کی محبت سے خالی اور اللہ کی محبت سے معمور ہوں۔ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے:
 
’’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ’’اے حارث! (سناؤ) تم نے صبح کیسے کی؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے ایمان کی حقیقت پاتے ہوئے صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث! غور کر کے بتاؤ تم کیا کہہ رہے ہو؟ بے شک ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اپنے نفس کو دنیا کی محبت سے جدا کر لیا ہے اور راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا ہوں اور دن کو (روزے کے سبب) پیاسا رہتا ہوں گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور مجھے ایسے لگتا ہے جیسے جنتی ایک دوسرے کی زیارت کرتے جا رہے ہیں اور دوزخیوں کو (اس حالت میں) دیکھتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث تم عارف ہو گئے، پس اس (کیفیت و حال) کو تھامے رکھو اور یہ (جملہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘ {{ع}}(<ref>ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 170، رقم : 30325){{ڑ}}</ref>
 
== ایمانیات کےبنیادی ذرائع و احکام اوران کے دلائل ==
 
ایمانیات و عقائد کے اصول و ذرائع قرآن وسنت ہیں، اس باب میں قیاس اور اندازوں کی گنجائش نہیں ہوتی، کسی بھی بات کو ایمانیات و عقائد کا حصہ بنانے کےلئے ضروری ہے کہ وہ بات اللہ اور اس کے رسول سے منقول ہو، اور قرآن و سنت میں مذکور ہو، اس طرح سے کہ قرآن و سنت نے اس کو ماننے کا مطالبہ کیا ہے، یا قرآن و سنت نے اس کو ماننے کی نسبت اللہ کی جانب کی ہے، یا قرآن و سنت نے اس بات کے ماننے کی نسبت انبیا٫ و رسل اور ان کے پیرکاروں کی جانب کی ہے۔
وأسماء الله عز و جل تؤخذ توقيفا ولا يجوز أخذها قياسا۔ <ref>اصول الدین:۱/۱۰۸</ref>
(اصول الدین:۱/۱۰۸)
 
وَكَيْفَ تُعْلَمُ أُصُولُ دِينِ الْإِسْلَامِ مِنْ غَيْرِ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ ؟ وَكَيْفَ يُفَسَّرُ كِتَابُ اللَّهِ بِغَيْرِ مَا فَسَّرَهُ بِهِ رَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُ رَسُولِهِ، الَّذِينَ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلُغَتِهِمْ ؟ وَقَدْ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَفِي رِوَايَةٍ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَسُئِلَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَفَاكِهَةً وَأَبًّا}
(1). مَا الْأَبُّ ؟ فَقَالَ: أَيُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِي، وَأَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِي، إِذَا قُلْتُ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَا أَعْلَمُ ؟
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ لإبن أبی العز:۱/۱۱۴)
 
(1). * مَا الْأَبُّ ؟ فَقَالَ: أَيُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِي، وَأَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِي، إِذَا قُلْتُ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَا أَعْلَمُ ؟<ref>شرح العقیدۃ الطحاویۃ لإبن أبی العز:۱/۱۱۴</ref>
:* قطعی دلائل:
 
<!-- :* قطعی دلائل:
 
دلائل ؛قطعی اور یقینی اور غیر قطعی اور غیر یقینی دونوں طرح کے ہوتے ہیں، اصطلاح دین میں قرآن کی آیاتِ محکمات اور سنتِ متواترہ محکمہ اور اجماع کو قطعی دلیل کہتے ہیں، ان میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی، ان سے ثابت امور کو ماننا دین میں ضروری اور لازمی ہے، عقائد، فرائض اور محرمات کا ثبوت اسی درجہ کے دلائل سے ہوتا ہے۔
سطر 81 ⟵ 76:
وہ خبر واحد جس کو امت میں قبولیت عامہ کا درجہ حاصل رہا ہے وہ تواتر کے درجہ میں ہے، اور اس سے ثابت حکم/یا عقیدہ کا درجہ مطلق خبر واحد سے ثابت حکم / یا عقیدہ سے بڑھا ہوا ہے۔ ایسے مسائل میں قبر کا عذاب و نعمت، فرشتوں کا سوال کرنا، قیامت کی نشانیاں، کبائر کے مرتکبین کے لئے شفاعت، میزان، صراط، حوض کی ’’تفصیلات‘‘ شامل ہیں۔ تفصیلات کا لفظ ہم نے اس لئے ذکر کیا ہے کہ ان عقائد کی مطلق بنیاد قطعی دلائل سے ثابت ہے، جن کو ہم ان کی جگہوں پر ذکر کریں گے، البتہ ان کی بعض تفصیلات ان اخبار احاد میں آئی ہیں جن کو امت میں تلقی بالقبول کا درجہ حاصل رہا ہے، اور ایسی اخبار احاد سے ثابت امور کی حیثیت بھی بہت اونچی ہے۔
فقد احتجُّوا بخبر الواحد المتلقى بالقبول في مسائل الصفات والقدر ، وعذاب القبر ونعيمِه ، وسؤال الملكين ، وأشراط الساعة ، والشفاعة لأهل الكبائر ، والميزان ، والصراط ، والحوض ، وكثير من المُعجزات ، وما جاء في صفة القيامة والحشر والنشر ، والجزم بعدم خلود أهل الكبائر في النار۔
(مجمل اعتقاد ائمۃ السلف:۱/۱۴۶) -->
 
[[زمرہ:اسلام]]