"بسمل عظیم آبادی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م clean up, replaced: ← (5) using AWB
سطر 1:
'''بسمل عظیم آبادی''' کا اصلی نام سید شاہ محمد حسن تھاعرفیت شاہ چھبو تھی۔ وہ1900ء یا 1901ء میں [[پٹنہ]] سے 30 کلو میٹر دور ہرداس بگها گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن اپنے والد سید شاہ آل حسن کی موت کے بعد وہ دو سال کے تھے کہ اپنے نانا سید شاہ مبارک حسین کے گھر پٹنہ سٹی آ گئے، جسے لوگ اس وقت [[عظیم آباد]] کے نام سے جانتے تھے۔ جب انہوں نے شاعری شروع کی تو اپنا نام بسمل عظیم آبادی رکھ لیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی وفات 1978ء میں ہوئی۔
==سرفروشی کی تمنا==
:سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
سطر 24:
:صرف مٹ جانے کی اک حسرت دلِ بسملؔ میں ہے
===ایک حقیقت پنہاں===
''[[سرفروشی کی تمنا]]'' نامی یہ غزل جب ہمارے کان میں پڑتی ہے ذہن میں [[رام پرساد بسمل]] کا نام ابھر آتا ہے ۔ یہ غزل رام پرساد بسمل کی علامت سی بن گئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے مطلع کے خالق رام پرساد بسمل نہیں بلکہ اس کے خالق شاعر بسمل عظیم آبادی ہیں اور یہ مطلع مذکورہ بالا ابیات کے ساتھ ان کے مجموعہ کلام ''حکایت ہستی'' میں موجود ہے۔ مگر رام پرساد بسمل نے بھی اسی مطلع کو لے کر اسی زمین پر غزل کہی تھی۔ اور آخری ایام میں ان کا ورد زباں رہی۔
 
===محققین کی آراء===
سطر 30:
*مؤرخ پروفیسر امتیاز بھی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ غزل بسمل عظیم آبادی کی ہی ہے۔ پروفیسر امتیاز کے مطابق، ان کے ایک دوست خود۔
*رضوان احمد اس غزل پر ایک تحقیق کر چکے ہیں، جسے کئی قسطوں میں انہوں نے اپنے اخبار ' عظیم آباد ایکسپریس' میں شائع کیا تھا۔
*بسمل عظیم آبادی کے پوتے منور حسن بتاتے ہیں کہ یہ غزل آزادی کی لڑائی کے وقت قاضی عبد الغفار کی میگزین 'صباح' میں 1922ء میں شائع ہوئی تو انگریز حکومت تلملا گئی تھی۔ایڈیٹر نے خط لکھ کر بتایا کہ برطانوی حکومت نے پرچے کو ضبط کر لیا ہے۔ دراصل، اس غزل کا ملک کی جنگ آزادی میں ایک اہم کرداررہا ہے۔
 
یہ غزل رام پرساد بسمل کی زبان پر ہر وقت رہتی تھی۔ 1927ء میں سولی پر چڑھتے وقت بھی یہ غزل ان کی زبان پر تھی۔ بسمل کے انقلابی ساتھی جیل سے پولیس کی لاری میں جاتے ہوئے، کورٹ میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوتے ہوئے اور لوٹ کر جیل آتے ہوئے ایک سر میں اس غزل کو گایا کرتے تھے۔