"سنوسی تحریک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Reverted to revision 2005012 by Obaid-bot on 2016-03-26T19:56:28Z
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 22:
سید محمد سنوسی کے صاحبزادے [[سید مہدی]] (1824ء تا 1902ء) کے زمانے میں سنوسی تحریک کی قوت اور اثر و نفوذ عروج پر پہنچ گیا۔ کفرہ نے ایک دارالعلوم کی شکل اختیار کرلی۔ وہاں کے کتب خانے میں مختلف علوم کی آٹھ ہزار کتب تھیں۔ صحرائے اعظم میں کتب کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع کرنا انتہائی حیرت انگیز تھا۔ سنوسی مبلغین کی کوششوں سے دنیا کے سب سے بڑے صحرا میں چوری، قتل و غارت اور دوسرے جرائ ختم ہوگئے اور صحرا کے جنوبی حصوں میں آباد سیاہ فام باشندوں میں اسلام بھی پھیلا۔
 
انیسویں صدی کے آخر میں جب [[فرانس]] نے مغربی افریقہ پر قبضہ کرنا چاہا تو سنوسیوں سے اس کا تصادم ہوگیا۔ سیدمہدی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے [[محمد ادریس]] کی عمر صرف 12 سال تھی۔ اس لیے تحریک کی قیادت ان کے چچا زاد بھائی [[سید احمد شریف]] (1873ء تا 1933ء) نے سنبھالی۔ فرانس نے سنوسیوں کے خلاف 1902ء میں فوجی کاروائیکارروائی شروع کی۔ سید احمد شریف دس سال کا فرانس کا مقابلہ کرتے رہے لیکن اس جنگ میں سنوسی تحریک کو نقصان پہنچا اور صحرائے اعظم کے جنوبی علاقوں میں اس تحریک کا زور ٹوٹ گیا۔
 
فرانس سے جنگ کا ابھی خاتمہ ہی نہیں ہوا تھا کہ سنوسیوں کا تصادم [[اطالیہ|اٹلی]] سے ہوگیا۔ یہ حملہ شمال کی سمت سے لیبیا پر ہوا تھا۔ سنوسی اگرچہ لیبیا کی صحرائی زندگی پر چھائے ہوئے تھے لیکن لیبیا انتظامی لحاظ سے [[سلطنت عثمانیہ|عثمانی سلطنت]] کا ایک حصہ تھا اور ساحلی علاقوں اور شہروں میں ترکی حکومت مستحکم تھی۔ اطالوی باشندے کچھ سے ساحلی علاقوں میں آباد ہونا شروع ہوگئے تھے اور انہوں نے کاروباری دنیا پر غلبہ حاصل کرلیا تھا۔ اٹلی نے اپنے سیاسی عزائم کو پورا کرنے کے لیے انہی اطالوی باشندوں کی جان و مال کی حفاظت کے بہانے سے لیبیا میں مداخلت شروع کردی۔ یہ وہی طریقہ تھا جس پر برطانوی حکومت مصر میں اور فرانسیسی حکومت شمالی افریقہ میں عمل کرچکی تھی۔ اٹلی نے [[26 ستمبر]] 1911ء کو ترکوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور [[5 اکتوبر]] کو طرابلس پر قبضہ کرلیا۔