"قرارداد پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 19:
موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر '''قائداعظم''' [[محمد علی جناح]] نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ [[ہندوستان]] میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہعلاحدہ مملکتیں ہوں۔
 
دوسرے دن انہی خطوط پر [[23 مارچ]] کو اس زمانہ کے [[بنگال]] کے [[وزیر اعلی]] [[فضل الحق|مولوی فضل الحق]] نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔
سطر 26:
مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما[[چودھری خلیق الزماں]] ، پنجاب سے [[مولانا ظفر علی خان]]، سرحد سے [[سردار اورنگ زیب]] سندھ سے [[سر عبداللہ ہارون]] اور بلوچستان سے [[قاضی عیسی]] نے کی۔ قرارداد[[23مارچ]] کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
 
اپریل سن 1941 میں [[چنائے|مدراس]] میں مسلم لیگ کے اجلاس میں '''قرارداد لاہور''' کو جماعت کے [[آئین]] میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر [[تحریک پاکستان|پاکستان کی تحریک]] شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علیحدہعلاحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔
 
== قرارداد لاہور میں ترمیم ==
سطر 54:
 
[[Image:Aga Khan III and Chaudhry Khaliquzzaman.jpg|framepx|right|thumb|[[چودھری خلیق الزماں]] اور [[آغا خان سوم]]]]
البتہ اس وقت جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلہ کی حتمی ثالث ہوگی اور اسے دو علیحدہعلاحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورا اختیار ہوگا۔
 
لیکن [[پاکستان]] کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو [[قائد اعظم]] کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن 1956ء میں ملک کا پہلا آئین منظور ہو رہا تھا بر صغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔