"محمد بن عبد اللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
(ٹیگ: القاب)
درستی
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
{{منتخب مقالہ}}
{{نیم محفوظ}}
{{ابہام|محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد(ضدابہام)}}
 
سطر 31 ⟵ 30:
</blockquote>
 
یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد {{درود}} نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداء کی اور لوگوں کو [[توحید|خالق کی وحدانیت]] کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو [[قیامت|روزقیامت]] کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران میں ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما [[عرب]] میں [[اسلام]] کو ایک مضبوط [[دین]] بنا دیا، [[اسلامی ریاست]] قائم کی اور عرب میں [[اتحاد]] پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ {{درود}} کی [[محبت]] مسلمانوں کے [[ایمان]] کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی [[مسلمان]] ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی [[جان]] و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ [[قیامت]] تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل ہیں۔
 
== ابتدائی حالات ==
{{محمد}}
=== ولادت با سعادت ===
حضرت محمد {{درود}} سنہ ایک [[عام الفیل]] (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینے میں [[بعثت]] سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور {{درود}} کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں تھے۔ ۔ ۔ میں [[ابراہیم علیہ السلام]] کی دعا، [[عیسیٰ علیہ السلام]] کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے'<ref>مشکوٰۃ ۔ باب سید المرسلین {{درود}}</ref><ref>مستدرک الحاکم</ref>۔ <br />
جس سال آپ {{درود}} کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے<ref>خصائصِ کبریٰ جلد اول صفحہ 48</ref> ۔ <br />
آپ {{درود}} کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ {{درود}} کا نام آپ کے دادا حضرت [[عبدالمطلب]] نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ {{درود}} کی ولادت [[مکہ]] کے علاقے [[شعب ابی طالب]] کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔
سطر 49 ⟵ 48:
=== بچپن ===
{{اسلام}}
آپ {{درود}} کے والد محترم حضرت [[عبداللہ]] ابن [[عبدالمطلب]] آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت [[عبدالمطلب]] نے کی۔ اس دوران میں آپ {{درود}} نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران میں آپ {{درود}} کو [[حلیمہ سعدیہ|حضرت حلیمہ بنت عبداللہ]] اور [[حضرت ثویبہ]] (درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور [[بنو ہاشم]] کے نئے سردار حضرت [[ابو طالب]] نے سرانجام دیں۔ حضرت محمد {{درود}} نے حضرت [[ابو طالب]] کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران میں ایک [[بحیرا]] نامی عیسائی راہب نے آپ {{درود}} میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت [[ابو طالب|ابوطالب]] کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ {{درود}} کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت [[ابو طالب|ابوطالب]] نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔<ref>تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 34</ref> اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت {{درود}} کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ {{درود}} میں [[نبوت]] کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ {{درود}} بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں [[حبشہ]] کے کچھ عیسائیوں نے آپ {{درود}} کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور {{درود}} کو [[مکہ]] لوٹا دیا گیا۔ <ref>سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 177</ref>۔<ref>تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 575</ref>۔
 
== شام کا دوسرا سفر اور شادی ==
سطر 64 ⟵ 63:
== معراج ==
[[ملف:Al aqsa moschee 2.jpg|thumb|مسجد{{زیر}} اقصیٰ، جہاں سے سفر{{زیر}} معراج کی ابتداء ہوئی]]
620ء میں آپ {{درود}} [[معراج]] پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران میں آپ {{درود}} مکہ سے [[مسجد اقصٰی|مسجد اقصیٰ]] گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ {{درود}} آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ {{درود}} کو [[جنت]] اور [[دوزخ]] دکھائی۔ وہاں آپ کی ملاقات مختلف [[انبیاء|انبیائے کرام]] سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں [[نماز]] بھی فرض ہوئی۔<ref>مناقب شہر آشوب جلد اول صفحہ 43</ref>۔
 
== مدنی زندگی ==
سطر 72 ⟵ 71:
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
</blockquote>
آپ {{درود}} کی اونٹنی حضرت [[ابو ایوب انصاری]] کے گھر کے سامنے رکی اور حضور {{درود}} نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور {{درود}} نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو [[مسجد نبوی]] کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور {{درود}} نے مسلمانوں کے درمیان میں [[عقد اخوت|عقدِ مؤاخات]] کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت [[علی ابن ابی طالب|علی علیہ السلام]] کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجرین کی مثالی مدد کی۔ [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] کے ساتھ ہی [[اسلامی تقویم]] کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، [[اوس]] اور [[خزرج]]، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ {{درود}} کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ہونے والے معاہدہ '[[میثاق مدینہ]]' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔
اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان [[بیت المقدس]] کی طرف منہ کر کے [[نماز]] ادا کرتے تھے جو یہودیوں کا بھی [[قبلہ]] تھا۔
{{انبیاء اسلام}}
سطر 78 ⟵ 77:
{{تفصیلی مضمون|میثاق مدینہ}}
 
[[میثاق مدینہ]] کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان میں جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ <ref>ابو داؤد السجستانی ۔ سنن ۔ دار الاحیاء السنۃ النبویۃ۔ بیروت</ref>
<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری۔ بیروت</ref>
<ref>ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مکتبۃ المعارف بیروت الطبعۃ الثانیۃ 1978ء</ref>
سطر 92 ⟵ 91:
{{اس|غزوات نبوی|سرایا نبوی}}
 
مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور {{درود}} شریک تھے انہیں [[غزوہ]] کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں [[سریہ]] کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔
* [[غزوۂ بدر|غزوہ بدر]] : [[17 رمضان]] [[2ھ]] ([[17 مارچ]] [[624ء]]) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان میں [[غزوۂ بدر|غزوہ بدر]] ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت [[علی بن ابی طالب|علی]] علیہ السلام کی تلوار سے ہلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔
* [[غزوہ احد]] :[[7 شوال]] [[3ھ]] ([[23 مارچ]] [[625ء]]) میں ابوسفیان کفار کے 3000 نفری لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ [[غزوہ احد]] کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ [[خالد بن ولید]] نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم {{درود}} کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔
* [[غزوہ خندق]] (احزاب): [[شوال]]۔ [[ذوالقعدہ|ذی القعدہ]] [[5ھ]] ([[مارچ]] [[627ء]]) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت [[سلمان فارسی]] کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔
سطر 142 ⟵ 141:
حضور {{درود}} کی مختلف روایات میں گیارہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔جن عورتوں سے آپﷺ نے عقد فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی۔ جن میں سے نو عورتیں آپﷺ کی رحلت کے وقت حیات تھیں۔ اور دوعورتیں آپﷺ کی زندگی ہی میں وفات پاچکی تھیں۔ (یعنی حضرت خدیجہؓ اور ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما ) ان کے علاوہ مزید دوعورتیں ہیں جن کے بارے میں اختلاف ہے کہ آپﷺ کا ان سے عقد ہوا تھا یا نہیں لیکن ا س پر اتفاق ہے کہ انہیں آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کیا گیا۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 634">الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 634</ref> نبی کریم ﷺ کی ازواج میں زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور {{درود}} پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت ماریہ قبطیہ سے اولاد ہوئی۔ حضور {{درود}} کی ازواج کو [[امہات المؤمنین]] کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔
 
* حضرت [[حضرت خدیجہ|خدیجہ]]: آنحضرت {{درود}} کی پہلی شادی [[حضرت خدیجہ|حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما]] سے ہوئی۔ شادی کے وقت آپﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔ اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔ان کے جیتے جی آپﷺ نے کوئی اور شادی نہیں کی۔آپﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیم کے ماسوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں ا ن ہی حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھیں۔ صاحبزادگان میں سے تو کوئی زندہ نہ بچا۔ البتہ صاحبزادیاں حیات رہیں۔ ان کے نام یہ ہیں : [[زینب بنت محمد|زینب]]، [[رقیہ بنت محمد|رقیہ]]، [[ام کلثوم بنت محمد|ام کلثوم]]، [[فاطمۃ الزھراء|فاطمہ]] - زینبؓ کی شادی ہجرت سے پہلے ان کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابو العاص بن ربیع سے ہوئی۔ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کی شادی یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ سے ہوئی۔ حضرت فاطمہؓ کی شادی جنگ بدر اور جنگ احد کے درمیانی عرصہ میں حضرت علی بن ابی طالبؓ سے ہوئی۔ اور ان کے بطن سے حسن ، حسین رضی اللہ عنہما ، زینب اور ا م کلثوم رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 634" />
* حضرت [[سودہ بنت زمعہ]] {{رض مو}} : ان سے رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی وفات کے تقریباًًًًً ایک مہینہ بعد نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں شادی کی۔ آپﷺ سے پہلے حضرت سَوْدَہؓ اپنے چچیرے بھائی سکران بن عَمرو کے عقد میں تھیں۔ اور وہ انہیں بیوہ چھوڑ کر انتقال کر چکے تھے۔ حضرت سودہ کی وفات شوال ۵۴ھ54ھ میں مدینہ کے اندر ہوئی۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 635">الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 635</ref>
* حضرت [[زینب بنت خزیمہ]] {{رض مو}} : یہ قبیلہ بنو ہلال بن عامر بن صَعْصَعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ مسکینوں پر رحم ومروت اوررقّت ورأفت کے سبب ان کا لقب اُمّ المساکین پڑ گیا تھا۔ یہ حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کے عقد میں تھیں۔ وہ جنگ اُحد میں شہید ہوگئے تو رسول اللہﷺ نے ۴ھ میں ان سے شادی کرلی۔ مگر صرف تین ماہ یا آٹھ ماہ رسول اللہﷺ کی زوجیت میں رہ کر ربیع الآخر یا ذی قعدہ ۴ھ میں وفات پاگئیں۔ نبیﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 635" />
* حضرت [[ام سلمہ رضی اللہ عنہا|ام سلمہ]] ہند {{رض مو}} : یہ ابو سلمہؓ کے عقد میں تھیں۔ جمادی الآخر ۴ھ میں حضرت ابو سلمہؓ کا انتقال ہو گیا توان کے بعد شوال ۴ھ میں رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی۔ فقیہ ترین اور نہایت عقلمند خاتون تھیں۔ چوراسی سال کی عمر میں ۵۹ھ59ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ ۶۲ھ62ھ میں وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 635" />
* حضرت [[صفیہ بنت حی بن اخطب]] {{رض مو}} : یہ بنی اسرائیل سے تھیں۔ اور خیبر میں قید کی گئیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمالیا۔ اور آزاد کرکے شادی کرلی۔ یہ فتح خیبر ۷ھ کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد خیبر سے بارہ میل کی دوری پر مدینہ کے راستہ میں سد صہباء کے پاس انہیں رخصت کرایا۔ ۵۰ھ50ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ ۵۲ھ52ھ میں ، اور کہا جاتا ہے کہ ۳۶ھ36ھ میں وفات پائی۔ اور بقیع میں مدفون ہوئیں۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 636">الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 636</ref>
* حضرت [[جویریہ بنت حارث|جویریۃ بنت الحارث]] {{رض مو}} : ان کے والد قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو المصطلق کے سردار تھے۔ حضرت جویریہ بنو المصطلق کے قیدیوں میں لائی گئی تھیں۔ اور حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ کے حصے میں پڑی تھیں۔ انہوں نے حضرت جویریہؓ سے مکاتبت کرلی۔ یعنی ایک مقررہ رقم کے عوض آزاد کردینے کا معاملہ طے کر لیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کی طرف سے مقررہ رقم ادا فرمادی اوران سے شادی کرلی۔ یہ شعبان ۵ھ یا ۶ھ کا واقعہ ہے۔ اس شادی کے نتیجے میں مسلمانوں نے بنو المصطلق کے سو گھرانے آزاد کر دیے اورکہا کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سسرالی ہیں۔ چنانچہ یہ اپنی قو م کے لیے ساری عورتوں سے بڑھ کر بابرکت ثابت ہوئیں۔ ربیع الاول ۵۶ھ56ھ یا ۵۵ھ55ھ میں وفات پائی۔ عمر ۶۵برس65برس تھی۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 636" />
* حضرت [[میمونہ بنت حارث|میمونۃ بنت الحارث الہلالیۃ]] {{رض مو}} : یہ ام الفضل لبابہ بنت حارث ؓ کی بہن تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے ذی قعدہ ۷ھ میں عمرہ ٔ قضاء سے فارغ ہونے ... اور صحیح قول کے مطابق احرام سے حلال ہونے ۔...کے۔کے بعد شادی کی، اور مکہ سے ۹میل9میل دور مقام سرف میں انھیں رخصت کرایا۔ ۶۱ھ61ھ اور کہا جاتا ہے کہ ۶۳ھ63ھ میں وہیں ان کی وفات بھی ہوئی۔ اور وہیں دفن بھی کی گئیں۔ ان کی قبر کی جگہ آج بھی وہاں معروف ہے۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 636" />
* حضرت [[رملہ بنت ابوسفیان|ام حبیبہ رملہ]] {{رض مو}}: یہ عبید اللہ بن جحش کے عقد میں تھیں۔ اور اس کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ بھی گئیں تھیں۔ لیکن عبید اللہ نے وہاں جانے کے بعد مرتد ہوکر عیسائی مذہب قبول کرلیا۔ اور پھر وہیں انتقال کرگیا۔ مگر اُم حبیبہؓ اپنے دین اور اپنی ہجرت پر قائم رہیں۔ جب رسول اللہﷺ نے محرم ۷ھ میں عَمرو بن اُمیہ ضمریؓ کو اپنا خط دے کر نجاشی کے پاس بھیجا تو نجاشی کو یہ پیغام بھی دیا کہ اُم حبیبہؓ سے آپﷺ کا نکاح کردے۔ اس نے امِ حبیبہؓ کی منظوری کے بعدان سے آپﷺ کا نکاح کردیا۔ اور شُرحبیل بن حسنہ کے ساتھ انہیں آپﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ نبیﷺ نے خیبر سے واپسی کے بعد ان کی رخصتی کرائی۔ ۴۳ھ43ھ یا ۴۴ھ44ھ یا ۵۰ھ50ھ میں وفات پائی۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 636" />
* حضرت [[حفصہ بنت عمر]] {{رض مو}} : آپ حضرت [[عمر ابن الخطاب|عمر]] {{رض مذ}} کی بیٹی تھیں۔ ان کے پہلے شوہر خنیس بن حذافہ سہمیؓ تھے جو بدر اور احد کے درمیانی عرصہ میں رحلت کر گئے اور وہ بیوہ ہوگئیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی ، شادی کا یہ واقعہ ۳ھ کا ہے۔ شعبان ۴۵ھ45ھ میں ساٹھ سال کی عمر میں مدینہ کے اندر وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن ہوئیں۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 635" />
* حضرت [[عائشہ بنت ابی بکر]] {{رض مو}}: آپ حضرت ابوبکر {{رض مذ}} کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے نبوت کے گیارھوں برس ماہ شوال میں شادی کی، یعنی حضرت سودہؓ سے شادی کے ایک سال بعد۔ اور ہجرت سے دوبرس پانچ ماہ پہلے۔ اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی۔ پھر ہجرت کے سات ماہ بعد شوال ۱ھ میں انہیں رخصت کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ اور وہ باکرہ تھیں۔ ان کے علاوہ کسی اور باکرہ عورت سے آپﷺ نے شادی نہیں کی۔ حضرت عائشہؓ آپﷺ کی سب سے محبوب بیوی تھیں۔ اور امت کی عورتوں میں علی الاطلاق سب سے زیادہ فقیہ اور صاحب علم تھیں۔ عورتوں پر ان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے تمام کھانو ں پر ثرید کی فضیلت۔ ۱۷17/ شعبان ۵۷ھ57ھ یا ۵۸ھ58ھ میں حضرت عائشہ ؓ نے وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 635" />
* حضرت [[زینب بنت جحش]] {{رض مو}}: یہ قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور رسول اللہﷺ کی پھوپھی کی صاحبزادی تھیں۔ ان کی شادی پہلے حضرت زید بن حارثہ سے ہوئی تھی۔ جنہیں رسول اللہﷺ کا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حضرت زیدؓ سے نباہ نہ ہوسکا اور انہوں نے طلاق دیدی۔ خاتمہ ٔ عدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرً‌ا زَوَّجْنَاكَهَا (الاحزاب: ۳۷37)''جب زید نے ان سے اپنی ضرورت ختم کر لی تو ہم نے انہیں آپ کی زوجیت میں دے دیا۔''
 
انہیں کے تعلق سے سورۂ احزاب کی مزید کئی آیا ت نازل ہوئیں جن میں مُتَبنّیٰ (لے پالک ) کے قضیے کا دوٹوک فیصلہ کردیا گیا - حضرت زینبؓ سے رسول اللہﷺ کی شادی ذی قعدہ ۵ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ ۴ھ میں ہوئی۔ یہ سب عورتوں سے بڑھ کر عبادت گزار اورصدقہ کرنے والی خاتون تھیں۔ ۲۰ھ20ھ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر ۵۳سال53سال تھی۔ اور یہ رسول اللہﷺ کے بعد امہات المؤمنین میں پہلی بیوی ہیں جن کا انتقال ہوا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔<ref name="الرحیق المختوماردو صفحہ نمبر 636" />
 
یہ گیارہ بیویاں ہوئیں جو رسول اللہﷺ کے عقد نکاح میں آئیں۔ اور آپﷺ کی صحبت ورفاقت میں رہیں۔ ان میں سے دوبیویاں ،یعنی حضرت خدیجہ اور حضرت زینب ام المساکینؓ کی وفات آپﷺ کی زندگی ہی میں ہوئی۔ اور نو بیویاں آپﷺ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔ ا ن کے علاوہ دو اور خواتین جو آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک قبیلہ بنو کلاب سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور ایک قبیلہ کندہ سے، یہی قبیلہ کِنْدہ والی خاتون جونیہ کی نسبت سے معروف ہیں۔ ان کا آپﷺ سے عقد ہوا تھا یانہیں ، اور ان کا نام ونسب کیا تھا اس بارے میں اہل ِ سیر کے درمیان میں بڑے اختلافات ہیں۔
 
جہاں تک لونڈیوں کا معاملہ ہے تو مشہور یہ ہے کہ آپﷺ نے دولونڈیوں کو اپنے پاس رکھا۔ ایک [[ماریہ قبطیہ|ماریۃ القبطیۃ]] کو جنہیں مقوقس فرمانروائے مصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ ان کے بطن سے آپﷺ کے صاحبزادے [[ابراہیم بن محمد|ابراہیم]] پیدا ہوئے۔ جو بچپن ہی میں ۲۸یا28یا ۲۹شوال29شوال ۱۰ھ10ھ مطابق ۲۷جنوری27جنوری ۶۳۲ء632ء کو مدینہ کے اندر انتقال کر گئے۔<ref>الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 637</ref>
 
دوسری لونڈی [[ریحانہ بنت زید]] تھیں۔ جو یہود کے قبیلہ بنی نضیر یا بنی قریظہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بنو قریظہ کے قیدیو ں میں تھیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمایا تھا، اور وہ آپﷺ کے زیر دست تھیں۔ ان کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ انہیں نبیﷺ نے بحیثیت لونڈی نہیں رکھا تھا بلکہ آزاد کر کے شادی کرلی تھی لیکن ابن قیم کی نظر میں پہلا قول راجح ہے۔ ابو عبیدہ نے ان دولونڈیوں کے علاوہ مزید دو لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں سے ایک کا نام جمیلہ بتایا جاتا ہے ، جوکسی جنگ میں گرفتار ہوکر آئی تھیں۔ اور دوسری کوئی اور لونڈی تھیں جنہیں حضرت زینب بنت جحش نے آپ کو ہبہ کیا تھا۔<ref>زاد المعاد ۱1/۲۹29</ref>
== خطوطِ نبوی ==
{{mainMain|خطوط نبوی}}
 
== مشہور صحابہ ==
سطر 187 ⟵ 186:
 
== غیر مسلم مشاہیر کے خیالات ==
مغربی مصنف [[مائیکل ہارٹ]] نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضورحضرت محمد {{درود}} کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد {{درود}} پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔<ref>سو (The Hundred ) از مائیکل ہارٹ</ref>
تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔
گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱1) ۔ مقصد کی بلندی ، (۲2) ۔ وسائل کی کمی، (۳3)۔حیرت انگیر نتائج ۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا..والا۔.۔.وہ محمد ہیں ۔...۔.جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔
<ref>http://www.kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=27_6_2008&ItemID=4&cat=9 محمد {{درود}}۔ غیر مسلموں کی نظر میں</ref>
== مزید دیکھیے ==
* [[اسلام میں محمد]]
* [[شجرہ نسب محمد بن عبداللہ]]