"زین العابدین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م دُرستی
سطر 4:
|روضہ_عکس=زین العابدین calligraphy al sajad.png
|ترتیب=چہارم
|جانشین=[[محمد باقر|حضرت امام محمد باقر رضی الله تعالٰی عنہ]]
|تاریخ_ولادت= 15 [[جمادی الاول]] 38[[ہ|ھ]]
|لقب=زین العابدین، سجاد
|کنیت=ابو محمد
|والد=[[حسین ابن علی|حضرت امام حسین رضی الله تعالٰی عنہ]]
|والدہ=[[شہر بانو|بی بی شہربانو]]
|تاریخ شہادت=25 [[محرم]]، 95 [[اسلامی تقویم|ہجری]]
سطر 15:
|}}
اہل بیت کےآئمہ باصفامیں سے ایک شخصیت جو زین العابدین اور سید سجاد سے معروف ہیں
=== نام ونسب ===
زین العابدین کے لقب سے معروف کی نسبت خاندان نبوت کی طرف ہے، یہ علی بن ابی طالب کے صاحبزادے سیدنا حسین کے بیٹے ہیں ، علی بن حسین ان کا نام ہے ، قرشی اور ہاشمی ہیں ، ابوالحسن ان کی کنیت ہے، ابو الحسن ، ابو محمد اور ابو عبداللهعبداللہ بھی کہا جاتا ہے۔<ref>(تہذیب الکمال في أسماء الرجال:جلد20صفحہ382،الناشر: مؤسسہ الرسالہ بيروت،سیر اعلام النبلاءالنبلا :جلد4 صفحہ386الناشر: مؤسسہ الرسالہ بيروت،حلیۃ الاولیا:133/3،تذکرة الحفاظ:74/1،تہذیب التہذیب:304/7،الثقات:159/5،الجرح والتعدیل:229/6،التاریخ الکبیر:266/6،تاریخ الاسلام:180/3،الکاشف:37/2)</ref>
سیدنا امام حسین پنے والدِ ماجدعلی سے اظہارِ عقیدت کے لئےاپنے بچوں کے نام علی رکھتے تھے ۔اسی مناسبت سے زین العابدین کا نام بھی علی ہے اور کنیت ابومحمد ،ابوالحسن ، ابوالقاسم اور ابوبکر ہے،جبکہ کثرتِ عبادت کے سبب آپ کا لقب سجاد ،زین العابدین، سیدالعابدین اور امین ہے ۔<ref>شرحِ شجرہ قادِریہ رضویہ عطّاریہ ناشر مکتبۃ المد ینہ باب المدینہ کراچی صفحہ52</ref>
== ولادت با سعادت ==
علی ابن حسین کی ولادت علامہ ذہبی نے <ref> تاریخ اسلام،181/3</ref>میں یعقوب بن سفیان فسوی سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین 33 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن <ref> سیر اَعلام النبلاء،386النبلا،386/4</ref> میں علامہ موصوف نے یہ لکھا ہے کہ (شاید) ان کی پیدائش38 ہجری میں ہوئی ہے، علامہ ابوالحجاج جمال الدین یوسف مزّی نے بھی <ref>تہذیب الکمال ،402/20</ref> یعقوب بن سفیان سے سن ولادت33 ہجری نقل کیا ہے اور یہی راجح ہے۔
=== والدہ کا نام ===
علی بن حسین کی والدہ کا نام سلامہ یا سلافہ ہے، جو اس وقت کے شاہ فارس یزدجرد کی بیٹی تھیں، سیدنا عمر فاروق کے زمانہٴ خلافت میں ایران فتح ہوا تو یہ لونڈی بنالی گئی تھی<ref>سیر اَعلام النبلاءالنبلا:386/4،تہذیب الکمال:383/20</ref>۔ ابن سعد نے اس کا نام ” غزالہ“ نقل کیا ہے <ref>طبقات،211/5</ref>، بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان کی والدہ خلیفہ یزید بن ولید بن عبدالملک کی پھوپی تھی۔<ref>سیراعلام النبلاءالنبلا:399/4</ref> آپ کی والدہ کا نام [[شہر بانو]] تھا جو [[ایران]] کے بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی تھیں جو نوشیروان عادل کا پوتا تھا۔
 
=== علی اوسط کا نام ===
ان کو علی اوسط کہا جاتا ہے، ان کے دوسرے بھائی جوان سے عمر میں بڑے تھے، ان کو علی اکبر کہا جاتا تھا، جو معرکہٴ کربلا میں اپنے والد حضرت امام حسین رضی اللهاللہ عنہ کے ساتھ اہل کوفہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے۔<ref>تاریخ الاسلام:181/3،الطبقات الکبری:211/5</ref>علی اوسط یعنی علی بن حسین المعروف زین العابدین رحمة اللهاللہ علیہ بھی اپنے والد گرامی حضرت حسین رضی اللهاللہ عنہ کے ساتھ معرکہٴ کربلا میں شریک تھے۔<ref>[https://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-imam-zain-ul-abideen معرکۂ کربلا میں شرکت]</ref>
 
=== کربلا میں بچ جانے کی وجہ ===
اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 برس تھی، اس موقع پر یہ بیمار اور صاحب فراش تھے، جب حضرت حسین رضی اللهاللہ عنہ شہید کر دئیے گئے تو شمر نے کہا کہ اسے بھی قتل کر دو ، شمر کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا : سبحان اللهاللہ! کیا تم ایسے جوان کو قتل کرنا چاہتے ہو جو مریض ہے اور اس نے ہمارے خلاف قتال میں شرکت بھی نہیں کی؟ اتنے میں عمروبن سعد بن ابی وقاص آیا او ر کہا کہ ان عورتوں اور اس مریض یعنی علی اصغر سے کوئی تعرض نہ کرے ، اس کے بعد ان کووہاں سے دمشق لایا گیا اورعزت کے ساتھ ان کو مع اہل مدینہ منورہ واپس روانہ کر دیا گیا۔ <ref>الطبقات:212,211/5،تاریخ الاسلام:181/3،سیر اعلام النبلاءالنبلا:387,386/4</ref>
=== زین العابدین اورحضرات خلفائے راشدین ===
ابو حازم کہتے ہیں کہ علی بن حسین سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر وعمر کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کیا مرتبہ تھا؟ انھوں نے حضور صلی اللهاللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جو تقرب ان کو آج اس روضہ میں حاصل ہے ایسا ہی حضور صلی اللهاللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی تھا۔<ref>تہذیب الکمال:393/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا:395/4</ref>
محمد بن علی بن حسین نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ ان کے پاس عراق سے کچھ لوگ آئے او رانھوں نے ابو بکر وعمر کا تذکرہ سبّ وشتم کے ساتھ کیا اور حضرت عثمان کی شان میں گستاخی کرنے لگے، (والعیاذ باللہ)حضرت علی بن حسین نے ان عراقیوں سے کہا: کیا تم ان مہاجرین اولین میں سے ہو جن کے بارے میں اللهاللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿لِلْفُقَرَاء الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیْارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً وَیَنصُرُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَئِکَ ہُمُ الصَّادِقُون﴾َ ․ (الحشر:8)
اہل عراق نے کہا: ہم ان لوگوں میں سے نہیں جن کے بارے میں اللهاللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ حضرت علی بن حسین نے پھر کہا: کیا تم لوگ ان لوگوں میں سے ہو جن کے بارے میں اللهاللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیْمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِہِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ․(الحشر:9)
اہل عراق نے کہا، ہم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں اللهاللہ نے یہ ارشاد فرمایا ہے ۔ اس کے بعد حضرت زین العابدین نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں نے خود اقرار کیا کہ تم آیات میں مذکور دونوں فریقوں میں سے نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں اللهاللہ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤُوا مِن بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ﴾․(الحشر:10) ، پھرفرمایا:تم لوگ میرے پاس سے اٹھ جاوٴ، اللہ تمھارا گھر قریب نہ کرے،تم اپنے آپ کو اسلام کے لبادے میں چھپاتے ہو جب کہ تم اہل اسلام میں سے نہیں ہو۔<ref>حلیۃ الاولیاء:137,136/3،تہذیب الکمال:395,394/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا:395/4</ref>
جعفر بن محمد نے اپنے والد سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے والدکے پاس ایک آدمی آیا او رکہنے لگا مجھے ابوبکر وعمر کے بارے میں بتائیں۔ انھوں نے فرمایا: صدیق کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس آدمی نے کہا آپ انہیں”صدیق“ کہہ رہے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا: تیری ماں تجھے گم کردے! مجھ سے بہتر یعنی رسول اللهاللہ صلی اللهاللہ علیہ وسلم او رمہاجرین وانصار نے ان کو ”صدیق“ کہا ہے، پس جو ان کو صدیق نہ کہے، اللهاللہ اس کی بات کو سچا نہ کرے ، جاؤ! ابوبکر وعمر سے محبت کرو اور انھیں عزیز رکھو، اس کی تمام ذمہ داری میری گردن پر ہے۔<ref>تہذیب الکمال: 394,393/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا:395/4</ref>یحییٰ بن سعید کہتے ہیں علی بن حسین المعروف زین العابدین رحمة اللهاللہ علیہ نے فرمایا: اللهاللہ کی قسم! حضرت عثمان کو ناحق شہید کیا گیا ہے۔ <ref>الطبقات: 216/5،سیر اعلام النبلاءالنبلا:397/4</ref>
=== تحصیل علم اور علمی مقام ===
زین العابدین نے کبار صحابہٴ کرام وتابعین عظام سے کسب فیض کیا، آپ نے امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ ، حضرت ام سلمہ، حضرت صفیہ ، اپنے والد حضرت حسین ، اپنے چچا حضرت حسن، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس اور ابو رافع ، مسور بن مخرمہ، زینب بنت ابی سلمہ، سعید بن مسیب، سعید بن مرجانہ ، مروان بن حکم، ذکوان، عمروبن عثمان بن عفان اور عبیداللهعبیداللہ بن ابی رافع وغیرہ سے حدیث شریف کا علم حاصل کیا او راپنے جدا مجد حضرت علی سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں۔<ref>تہذیب الکمال:383/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا:387/4ِِِِِِِِِِِ،تہذیب التہذیب:304/7،المراسیل:139</ref>
ابن عساکرمیں ہے کہ نافع بن جبیر نے علی بن حسین سے کہا: آپ ہمارے علاوہ دوسرے لوگوں کے پاس ( تحصیل علم کی خاطر ) بیٹھتے ہیں؟ علی بن حسین نے جواباً فرمایا: میں ان لوگوں کی مجلس میں بیٹھتا ہوں جن سے مجھے دینی فائدہ پہنچے ۔<ref>تاریخ ابن عساکر ،17/12ب</ref>
ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ہشام بن عروہ سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین حضرت عمر رضی اللهاللہ عنہ کے غلام اسلم کی مجلس میں ( تحصیل علم کے لیے ) بیٹھا کرتے تھے، ان سے کہاگیا کہ آپ قریش کو چھوڑ بنی عدی کے ایک غلام کے پاس بیٹھتے ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا: آدمی کوجہاں فائدہ پہنچے وہاں بیٹھتا ہے۔<ref>طبقات،216/5</ref>
ابو نعیم نے حلیہ میں عبدالرحمن بن ازدک سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین مسجد میں آتے، لوگوں کے درمیان میں سے ہوتے ہوئے زید بن اسلم کے حلقے میں تشریف لے جاتے، نافع بن جبیر نے ان سے کہا: اللهاللہ آپ کی مغفرت کرے! آپ لوگوں کے سردار ہیں، لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر اس غلام کے حلقے میں بیٹھتے ہیں؟ علی بن حسین نے فرمایا: علم کو طلب کیا جاتا ہے او راس کے لیے آیا جاتا ہے او راسے حاصل کیا جاتا ہے جہاں وہ ہو۔<ref> حلیۃ الاولیاء،138,137/3</ref>
ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ یزید بن حازم سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن حسین او رسلیمان بن یاسر کو منبر اور روضہ شریف کے درمیان میں چاشت کے وقت تک علمی مذاکرہ کرتے ہوئے دیکھا، جب اٹھنے کا ارادہ ہوتا تو عبداللهعبداللہ بن ابی سلمہ قرآن پاک کی کوئی سورت تلاوت کرتے ، اس کے بعد یہ حضرات دعا مانگتے تھے۔<ref> طبقات،217,216/5</ref>
علی بن حسین سے بہت سارے تابعین عظام نے فیض حاصل کیا ہے ، آپ سے حدیث شریف کی روایت کرنے والوں میں ان کے چار بیٹے ابو جعفر محمد، عمر بن علی بن حسین ، زید بن علی بن حسین ، عبداللهعبداللہ بن علی بن حسین ، ان کے علاوہ ابن شہاب زہری ، عمر وبن دینار، حکم بن عیینہ، زید بن اسلم ، یحییٰ بن سعید، ہشام بن عروہ، ابوحازم، محمدبن فرات تمیمی، عاصم بن عبیداللهعبیداللہ بن عامر بن عمر بن خطاب اور یحییٰ بن سعید انصاری رحمہم اللهاللہ وغیرہ شامل ہیں۔<ref>تہذیب الکمال: 384,383/20، سیر اَعلام النبلاءالنبلا:387/4،تہذیب التہذیب:304/7</ref>
آپ سفید رنگ کا عمامہ پہنا کرتے تھے او راس کا شملہ پشت یعنی کمر کی جانب لٹکا دیتے تھے۔<ref>الطبقات:218/5</ref>
== زہد و تقوی ==
علی بن حسین بڑے عابد وزاہد اور شب بیدار تھے، وہ بنی ہاشم کے فقہاءفقہا وعابدین میں سے تھے اس زمانے میں ان کو مدینہ منورہ میں ” سید العابدین“ یعنی عابدوں کا سردار کہا جاتا تھا، ان کی اسی عبادت گزاری کی کثرت کی وجہ سے ان کو ” زین العابدین“ عبادت گزاروں کی زینت بھی کہا جاتا تھا۔<ref>الثقات:160,159/5</ref>
امام مالک نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ علی بن حسین کا موت تک روزانہ ایک ہزار رکعت نفل پڑھنے کا معمول تھا اوران کو کثرت عبادت کی وجہ سے ”زین العابدین“ کہا جاتا تھا۔<ref>تہذیب الکمال:390/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا:392/4،تہذیب التہذیب:306/7</ref>امام زہری علی بن حسین کا تذکرہ کرتے ہوئے روتے تھے اور انھیں زین العابدین کے نام سے یاد کرتے تھے۔ <ref>حلیۃ الاولیاء:135/3</ref>ابو نعیم نے ” حلیہ “میں ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ عبادت گزاروں کی زینت، قانتین کی علامت، عبادت کا حق ادا کرنے والے او رانتہائی سخی ومشفق تھے۔<ref>حلیۃ الاولیاء:133/3</ref>
ابن عیینہ نے زہری سے نقل کیا ہے کہ میں اکثرعلی بن حسین کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا، میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں پایا؛ لیکن وہ بہت کم گو تھے ۔ امام مالک نے فرمایا کہ اہل بیت میں ان جیسا کوئی نہیں؛ حالانکہ وہ ایک باندی کے بیٹے تھے۔<ref>تہذیب الکمال: 386/20، سیر اَعلام النبلاءالنبلا:389/4</ref>
زین العابدین جب نماز کے لیے وضو کرتے تھے توان کا رنگ پیلا پڑ جاتا اور وضو واقامت کے درمیان میں ان کے بدن پر ایک کپکپی کی کیفیت طاری ہوتی تھی ، کسی نے اس کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے جارہاہوں اور کس سے مناجات کرنے لگا ہوں( یعنی اللهاللہ تعالیٰ سے)۔<ref>الطبقات:216/5،تہذیب الکمال:390/20،سیر اَعلام النبلاءالنبلا:392/4</ref>
کسی نےسعید بن مسیب سے کہا کہ آپ نے فلاں سے بڑھ کر کسی کو پرہیز گار پایا؟ انھوں نے فرمایا کیا تم نے علی بن حسین کو دیکھا ہے ؟ تو سائل کہا کہ نہیں، تو فرمایا کہ میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو بھی پرہیز گار نہیں پایا۔ <ref>حلیۃ الاولیاء:141/3،تہذیب الکمال: 389/20</ref>طاؤس کہتے ہیں میں نے علی بن حسین کو سجدے کی حالت میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ فرمارہے تھے :”عَبِیْدُکَ بِفِنَائِکَ، وَمِسْکِیْنُکَ بِفِنَائِکَ، سَائِلُکَ بِفِنَائِکَ، فَقِیْرُکَ بِفِنَائِکَ“طاوس کہتے ہیں کہ میں نے جب بھی کسی مشکل میں ان الفاظ کے ساتھ دعاکی تو اللهاللہ تعالیٰ نے میری مشکل کو آسان فرما دیا۔<ref>تہذیب الکمال:391/20،سیر اَعلام النبلاءالنبلا:393/4</ref>
ابو نوح انصاری کہتے ہیں کہ علی بن حسین کسی گھر میں نماز پڑھ رہے تھے اور وہ سجدے کی حالت میں تھے کہ وہاں آگ لگ گئی ، تو لوگوں نے کہنا شروع کیا: اے رسول اللهاللہ کے فرزند، آگ آگ۔ انھوں نے اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھایا جب تک آگ بجھ نہ پائی، ان سے کسی نے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آگ سے بے خبر رکھا تھا؟ انھوں نے فرمایا: مجھے آخرت کی فکر نے اس آگ سے بے خبر کر دیا تھا۔<ref>تاریخ ابن عساکر:19/12 ب، تہذیب الکمال: 390,389/20، سیر اعلام النبلاءالنبلا:392,391/4</ref>
جعفر صادق کہتے ہیں کہ میرے والد ایک رات ایک دن میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے ، ان کی موت کا وقت قریب آیا تو رونے لگے، میں نے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حالانکہ میں نے آپ کی طرح کسی کو اللهاللہ کا طالب نہیں دیکھا اور یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ میرے والد ہیں، انھوں نے کہا اے میرے بیٹے! میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ملک مقرب ہو یا نبی مرسل، ہر ایک اللهاللہ کی مشیت وارادے کے تحت ہو گا جس کو چاہیں عذاب دیں گے اور جس کوچاہیں معاف فرمادیں گے۔<ref>تاریخ ابن عساکر: 20/12، سیراَعلام النبلاءالنبلا:392/4،تہذیب الکمال:391/20</ref>
آپ کا زہد و تقویٰ مشہور تھا۔ وضو کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا تصورِ کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اور اس کے جلالت و رعب سے میری یہ حالت ہو جاتی ہے۔<ref> مطالب السؤل از علامہ محمد ابن طلحہ شافعی صفحہ 262 </ref> نماز کی حالت یہ تھی کہ پاؤں کھڑے رہنے سے سوج جاتے اور پیشانی پر گٹھے پڑے ہوئے تھے اور رات جاگنے کی وجہ سے رنگ زرد رہتا تھا۔<ref>اعلام الوریٰ صفحہ 153 </ref> علامہ ابن طلحہ شافعی کے مطابق نماز کے وقت آپ کا جسم لرزہ براندام ہوتا تھا۔<ref> مطالب السؤل از علامہ محمد ابن طلحہ شافعی </ref>۔
=== انفاق فی سبیل اللهاللہ ===
زین العابدین بدنی عبادات کے ساتھ ساتھ مالی عبادات کا بھی غیر معمولی اہتمام کیا کرتے تھے، وہ انتہائی درجے کے سخی اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنے والے تھے ، حجاج بن ارطاة نے جعفر صادق سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے دو مرتبہ اپنا سارا مال اللهاللہ کی راہ میں صدقہ کر دیا تھا۔<ref>حلیۃ الاولیاء:140/3، الطبقات: 219/5، تہذیب التہذیب:306/7</ref>
ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ علی بن حسین رات کے اندھیرے میں پشت پر روٹی لادے مساکین کو تلاش کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں چھپاکرصدقہ کرنا اللهاللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے، <ref>حلیۃ الاولیاء:136,135/3،تہذیب الکمال:396/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا: 393/4</ref> شیبہ بن نعامہ کہتے ہیں کہ علی بن حسین کو لوگ ان کی زندگی میں بخیل تصور کرتے تھے، لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو پتہ چلا کہ وہ مدینہ منورہ کے سو گھرانوں کی کفالت کرتے تھے۔ <ref>الطبقات:222/5،حلیۃالاولیاء:136/3،تہذیب الکمال:392/20</ref>
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے معاش کا انتظام کون کرتا ہے؟ لیکن جب علی بن حسین کا انتقال ہوا تو وہ اس ذریعہٴ معاش سے محروم ہو گئے، جو رات کو ان کے لیے سبب بنتا تھا، <ref>تاریخ ابن عساکر:21/12أ،حلیہ الاولیاء: 136/3، تہذیب الکمال :392/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا:393/4</ref>جریر بن عبدالحمید نے عمروبن ثابت سے نقل کیا ہے کہ جب علی بن حسین کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان کی کمر پر کچھ نشان پائے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ یہ اس بوجھ کی وجہ سے ہے جو رات کے اندھیرے میں یتیموں کے لیے لے جایا کرتے تھے۔ <ref>تاریخ ابن عساکر:21/12،حلیۃ الاولیاء:136/3، سیر اعلام النبلاءالنبلا:393/4،تہذیب الکمال:392/20</ref>علی بن حسین فرمایا کرتے تھے کہ جب میں کسی مسلمان بھائی کو دیکھتا ہوں تو میں اس کے لیے اللهاللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں تو دنیا میں اس کے ساتھ بخل کا معاملہ کیسے کروں؟!جب کل کا دن ہوگا تو مجھ سے کہا جائے گا:اگر جنت تیرے ہاتھ میں ہوتی تو تواس کے ساتھ اس سے زیادہ بخل کا معاملہ کرتا۔<ref>تاریخ ابن عساکر: 12/21ب، تہذیب الکمال:393/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا:394/4</ref>
 
== شادی اور اولاد ==
آپ کی شادی 57[[ہ|ھ]] میں آپ کے چچا حضرت امام [[حسن بن علی]] بن ابو طالب کی بیٹی حضرت فاطمہ سے ہوئی۔ آپ کے گیارہ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ جن میں سے حضرت امام [[محمد باقر]] اور حضرت [[زید ابن علی|زید شہید]] مشہور ہیں۔
=== جلالت شان ===
زین العابدین اپنے زمانے کے بہت ہی جلیل القدراور عالی مرتبت بزرگوں میں سے تھے ، لوگ ان کی بہت زیادہ عزت وتکریم کیا کرتے تھے، مشہور واقعہ ہے، کہ ہشام بن عبدالملک اپنے زمانہ خلافت سے قبل ایک دفعہ حج کے لیے گئے ، بیت اللهاللہ شریف کے طواف کے دوران میں حجر اسود کا استیلام کرنے کا ارادہ کیا، لیکن اژدھام کی وجہ سے نہیں کر پائے۔
اتنے میں حضرت علی بن حسین تشریف لائے، ایک چادر او رتہہ بندباندھے ہوئے، انتہائی خوب صورت چہرے والے، بہترین خوش بو والے، ان کی آنکھوں کے درمیان میں (پیشانی پر) سجدے کا نشان تھا، طواف شروع کیا او رجب حجر اسود کے قریب پہنچے تو لوگ ان کی ہیبت اور جلالت شان کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور آپ نے اطمینان کے ساتھ استیلام کیا، ہشام کو یہ بات اچھی نہیں لگی ، اہل شام میں سے کسی نے کہا یہ کون ہے کہ جس کی ہیبت اور جلال نے لوگوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا؟ ہشام نے یہ سوچ کر کہ کہیں اہل شام ان کی طرف مائل نہ ہو جائیں ، کہا میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں؟
مشہور شاعر فرزدق قریب ہی کھڑا تھا، اس نے کہا میں انھیں جانتا ہوں ۔ اس پر اس شامی نے کہا اے ابو فراس! یہ کون ہیں؟ اس وقت فرزدق نےزین العابدین کی تعریف میں بہت سارے اشعار کہے، ان میں سے چند یہ ہیں۔
هَذَا الَّذِي تَعْرِفُ البَطْحَاءُ وَطْأَتَهُ ... وَالبَيْتُ يَعْرِفُهُ وَالحِلُّ وَالحَرَمُ
هَذَا ابْنُ فَاطِمَةٍ إِنْ كُنْتَ جَاهِلَهُ ... بِجَدِّهِ أَنْبِيَاءُ اللهِ قَدْ خُتِمُوا
ترجمہ: یہ وہ شخص ہے جس کے چلنے کو بطحاء، بیت الله،اللہ، حل اور حرم بھی جانتے ہیں، یہ حضرت فاطمہ کے فرزند ہیں، اگرچہ تم تجاہل سے کام لے رہے ہو، انھیں کے دادا ( محمد صلی اللهاللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ انبیا کا سلسلہ ختم کیا گیا ہے۔
ہشام بن عبدالملک کو غصہ آیا اس نے فرزدق کو قید کرنے کا حکم دیا، ان کو مکہ ومدینہ کے درمیان میں ” عسفان“ نامی جگہ میں مقید کر دیا گیا، حضرت علی بن حسین کو پتہ چلا تو انھوں نے فرزدق کے پاس 12 ہزار دینار بھیجے او رکہا ابو فراس! اگر ہمارے پاس اس سے زیادہ ہوتے تو ہم وہ بھی بھجوادیتے، فرزدق نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ اے رسول اللهاللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند !میں نے جو کہا اللهاللہ او راس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کہا ہے او رمیں اس پر کچھ کمانا نہیں چاہتا، حضرت زین العابدین نے یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا کہ تمہارے اوپر جو میرا حق ہے، اس کا واسطہ ہے کہ تم انھیں قبول کرلو، بے شک اللهاللہ تیرے دل کے حال او رنیت کو جانتے ہیں۔ تو انھوں نے قبول کر لیا۔<ref>سیر اَعلام النبلاءالنبلا: 399/4، تہذیب الکمال:402/20</ref>
 
 
== اقوال وخطبات ==
زین العابدین کے چندبیش بہا اقوال:
* جسم اگر بیمار نہ ہوتو وہ مست ومگن ہو جاتا ہے اور کوئی خیر نہیں ایسے جسم میں جو مست ومگن ہو۔<ref>حلیۃ الاولیاء:134/3،سیر اعلام النبلاءالنبلا:396/4</ref>
* دوستوں کا نہ ہونا پردیسی ( اجنبیت) ہے۔<ref>حلیۃ الاولیاء:134/3</ref>
* جو اللهاللہ کے دیے ہوئے پر قناعت اختیار کر لے وہ لوگوں میں سب سے غنی آدمی ہو گا۔<ref>حلیۃ الاولیاء:135/3</ref>
* جو باتیں معروف نہیں وہ علم میں سے نہیں ، علم تو وہ ہے جو معروف ہو اوراہل علم کا اس پر اتفاق ہو۔<ref>تہذیب الکمال:398/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا:391/4</ref>
* لوگوں میں سب سے زیادہ خطرے میں وہ شخص ہے جو دنیا کو اپنے لیے خطرے والی نہ سمجھے۔<ref>تہذیب الکمال:398/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا:391/4</ref>
* کوئی کسی کی ایسی اچھائی بیان نہ کرے جو اسے معلوم نہ ہو ، قریب ہے کہ وہ اس کی وہ برائی بیان کر بیٹھے جو اس کے علم میں نہیں <ref>تہذیب الکمال:398/20</ref>
* جن دو شخصوں کا ملاپ اللهاللہ کی اطاعت کے علاوہ ہوا ہو تو قریب ہے کہ ان کی جدائی بھی اسی پر ہو۔<ref>تہذیب الکمال:398/20</ref>
* اے بیٹے !مصائب پر صبر کرو اور حقوق سے تعرض نہ کرو اوراپنے بھائی کو اس معاملے کے لیے پسند نہ کرو جس کا نقصان تمہارے لیے زیادہ ہو اس بھائی کو ہونے والے فائدے سے۔<ref>تہذیب الکمال:399/20،حلیۃالاولیاء:138/3</ref>
*الله اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے گناہ گار مومن سے محبت فرماتے ہیں۔<ref>حلیۃ الاولیاء :140/3، الطبقات: 219/5،تہذیب الکمال:391/20</ref>
آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد [[کوفہ]] میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]] مصطفیٰ {{درود}} کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ 'اے لوگو جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پر ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے ۔ ۔ ۔' ۔
<br />
دمشق میں یزید کے دربار میں آپ نے جو مشہور خطبہ دیا اس کا ایک حصہ یوں ہے:
<blockquote style='border: 1px solid blue; padding: 2em;'>
۔ ۔ ۔ میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔ ۔ ۔<ref> مقتل ابی مخنف صفحہ 135 ۔ 136 </ref> <ref> بحار الانوار جلد 10 </ref> <ref> ریاض القدس جلد 2 صفحہ 328 </ref> <ref> روضۃ الاحباب </ref>
</blockquote>
یہ خطبہ سن کر لوگوں نے رونا اور شور مچانا شروع کیا تو [[یزید]] گھبرا گیا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا کہ اذان دے کہ امام خاموش ہو جائیں۔ اذان شروع ہوئی تو حضرت علی ابن الحسین خاموش ہو گئے۔ جب مؤذن نے حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]] {{درود}} کی رسالت کی گواہی دی تو حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور کہا کہ اے یزید تو بتا کہ محمد {{درود}} تیرے نانا تھے یا میرے؟ یزید نے کہا کہ آپ کے تو حضرت علی ابن الحسین نے فرمایا کہ 'پھر کیوں تو نے ان کے [[اہل بیت]] کو شہید کیا'۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں۔<ref> مقتل ابی مخنف صفحہ 135 ۔ 136 </ref>
اسی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی مشہور ہے جو آپ نے مدینہ واپس آنے کے بعد دیا۔
 
== وصال ==
خانوادئہ نبوت کے اس چشم وچراغ نے ساری زندگی سنتِ نبوی اورحضرات صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر بالآخر داعی اجل کو لبیک کہا، ان کے سنہ وفات کے بارے میں اختلاف ہے ،,99،،99,95, 94,93,92 اور100 ہجری کے مختلف اقوال منقول ہیں، مگر صحیح قول کے مطابق زین العابدین بروز منگل14 ربیع الاول94 ہجری میں دار فانی سے داربقاکی طرف کوچ کر گئے، جنت البقیع میں جنازہ پڑھا گیا اور وہیں پر مدفون ہوئے۔<ref>تہذیب الکمال: 404,403/20،سیر اعلام النبلاءالنبلا:400/4،الثقات:160/5،تہذیب التہذیب:307/7، تاریخ الاسلام:184/3،الطبقات:221/5،الکاشف:37/2</ref>
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات|2}}