"وجد" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م ←حوالہ جات: صفائی |
Hammad (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1:
'''وجد''' ایک ایسا روحانی جذبہ ہے۔ جو اللہ کی طرف سے باطن انسانی پر وارد ہو جس کے نتیجہ میں خوشی یا غم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے
== وجد ==
وجد
=== وجد کے معنی ===
حال، جذبہ، بیخودی ،سرمستی، وہ حالت اور کیفیت جوعشق الٰہی میں دل پر ایسی طاری ہوکہ انسان بیخود ہو جائے۔ حال، عشق اور شیفتگی<ref>فیروز الغات فارسی اردو طبع فیروز سنز</ref><ref>فرہنگ آصفیہ از سید احمد دہلوی</ref>
سطر 7:
=== وجد اور تواجد کی حقیقت ===
وجد عموما بعض ذی روح چیزوں خصوصا اہل ایمان میں سے ایسے حضرات کو ہوتا ہےجو تلاوت قرآن یا نعت رسول ﷺ یا ذکر باری تعالیٰ یا بزرگان دین کی تعریف و توصیف سنتے ہیں تو ان پر کسی خاص کیفیت کا ورود ہوتا ہے یا انوار و تجلیات کا ورود ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنے اوپر قابو اور کنٹرول نہیں کر پاتے جس وجہ سے ان کے جسم پر اضطراب و حرکت پیدا ہوتی ہے جس کی بنا پر کبھی ادھر کبھی ادھر کبھی آگے کبھی پیچھے جھکتے اور گر پڑتے ہیں ۔اور کبھی کبھار بیہوش بھی ہوجاتے ہیں تو ایسی حرکت کو وجد حقیقی کہا جاتا ہے۔اور اس کا محمود و مستحسن ہونا قرآنی آیات و احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔
<ref name
* سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ
* وجد وہ کیفیت ہے جو اتفاقاطاری ہو یہ کیفیت اوراد و وظائف کا نتیجہ ہےپس جس شخص کے وظائف زیادہ ہونگےاس پر اللہ کی عنایات بھی زیادہ ہونگی۔ <ref name
* وجد ایک ایسا روحانی جذبہ ہےجو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطن انسانی پر وارد ہو خواہ اسکا نتیجہ فرحت ہو یا حزن اس جذبہ کے وارد ہونے سے بطن کی ہیئت تبدیل ہوجاتی ہےاور اس کے اندر رجوع الی اللہ کا شوق پیدا ہوجاتا ہے گویا وجد ایک قسم کی فرحت ہے یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جس سے صفات نفس مغلوب ہیں اور اسکی نظریں اللہ کی طرف لگی ہیں<ref>عوارف المعارف از شہاب الدین سہروردی صفحہ 742مطبوعہ پروگریسو بک لاہور</ref>
* جبکہ عمرو بن عثمان مکی کہتے ہیں کہ وجد کی کوئی کیفیت نہیں بیان کی جا سکتی کیونکہ پختہ ایمان رکھنے والے مومنوں کے نزدیک یہ اللہ کے اسراروں میں سے ایک ہے۔
وجد ایک باطنی کیفیت ہےجو طالب و مطلوب کے درمیان میں ہوتی ہے۔<ref name
* گویا ہر وہ کیفیت مسرت و الم جو قلب پر بغیر ارادے و کوشش کے طاری ہو اسے وجد کہتے ہیں'''<ref name
* سورہ الحج کی آیت نمبر 35 میں لفظ وجل (ڈر) صفات واجدین میں سے ہے <ref name
== وجد اور تواجد ==
وجد یہ ہے کہ کیفیت تمہارے دل پر کسی ارادے اور تکلف کے بغیر جاری ہو <ref name
اگر یہ صرف رسومات کی پابندی کے طور پر کرے تو اس کے متعلق حکم یہ ہے
* رہا معاملہ تواجد کا تو تواجد کےمعنی ہیں از خود وجد والی صورت اختیار کرنا۔تواجد پر علامہ سیوطی کا فتویٰ یوں ہے کہ ذاکر خواہ ذکر کرتے ہوئے کھڑا ہوجائے یہ کھڑا ہونا اختیاری ہو یا غیر اختیاری ہر حال میں جائز ہے ایسے لوگوں پر نہ انکار جائز ہے نہ انہیں منع کرنا جائز ہے
* ایک گروہ اس میں محض رسموں کا پابند بنا ہوا ہےجو ظاہری حرکتوں کی تقلید کرتا ہےباقاعدہ رقص کرتا اور اور ان کے اشاروں کی نقل کرتا ہے یہ حرام محض ہے <ref name
== وجد کی مختلف اقسام ==
* سارےبدن کا حرکت اور اضطراب
|