"غزوہ تبوک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م درستی املا
سطر 29:
چونکہ منافقوں کواس غزوہ میں بڑی شرمندگی اورشرمساری اٹھانی پڑی تھی۔ اس وجہ سے اس کا ایک نام ''غزوہ فاضحہ''(رسوا کرنے والا غزوہ) بھی ہے ۔
== روانگی ==
اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس غزوہ کے لئےلیے حضور ﷺ رجب 9 ھ مطابق 630ء جمعرات کے دن روانہ ہوئے۔ رسول پاک تیس ہزار جان نثار غلاموں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ <ref>زرقانی ج 3ص 63</ref>
== غزوۂ تبوک کا سبب ==
عرب کا غسانی خاندان جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا چونکہ وہ عیسائی تھا اس لیے قیصر روم نے اس کو اپنا آلہ کار بنا کر مدینہ پر فوج کشی کا عزم کرلیا۔ چنانچہ ملک شام کے جو سوداگر روغن زیتون بیچنے مدینہ آیا کرتے تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ قیصر روم کی حکومت نے ملک ِشام میں بہت بڑی فوج جمع کردی ہے۔ اور اس فوج میں رومیوں کے علاوہ قبائل لخم و جذام اور غسان کے تمام عرب بھی شامل ہیں۔ ان خبروں کا تمام عرب میں ہر طرف چرچا تھا اور رومیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی اس لیے ان خبروں کو غلط سمجھ کر نظر انداز کردینے کی بھی کوئی و جہ نہیں تھی۔ اس لیے حضور اکرم ﷺ نے بھی فوج کی تیاری کا حکم دے دیا۔
== تبوک کو روانگی ==
حضور ﷺ تیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لئےلیے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نظم و نسق چلانے کے لئےلیے علی المرتضی کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا
== تبوک کا چشمہ ==
حضور ﷺ تبوک کے قریب میں پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے رسول اﷲ ﷺ جب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں ایک پانی کی دھار بہہ رہی تھی۔ آپ ﷺ نے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔<ref>زرقانی ج3 ص76</ref>