"کھڑا آدمی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:خودکار ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، ہو گئے، سے، سے، کر دیے، کی بجائے، \1 رہے، ہو گئی
سطر 25:
*† ''[[Homo ergaster]]''؟
}}
جنوبی مانس کے بعد '''کھڑے آدمی''' کا ظہور ایک اور انقالاب ہے ۔ کھٹڑے آدمی کا زمانہ پندرہ لاکھ سال قبل سے تین لاکھ سال قبل تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس رکاز گزشتہ سو سال سے دنیا کے مختلف میں دریافت ہورہےہو رہے ہیں ۔ شروع کے چالیس سال تک تقریباً ہر دریافت کو الگ نسل ثابت کیا جاتا رہا ہے اور طرح طرح کے متفرق ان رکاز کے نام رکھے جاتے رہے ۔ ان میں مقبول عام پتھے کن تھروپس ، اٹلان تھروپس ، سنان تھروپس تھے ۔ لیکن زیادہ شواہد سامنے آجانے خیال کیا جاتا ہے کہ کہ سب ایک ہی نوع کھڑے آدمی HOMOERECRUS کے اعضائ ہیں۔
 
جنوبیی مانس کا بعد غالباً قابل آدمی کا رہا ہوگا اور اس کے بعد کھڑے آدمی کا زمانہ آتا ہے کھڑے آدمی کے بعد باشعور آدمی کا ظہور ہوتا ہے ۔ مگر ان سب کا کچھ نہ کچھ زمانی تجاوز بھی ہے ۔ پرانی نسل سے نئی نسل جنم لیتی ہے اور دونوں کچھ عرصہ ساتھ چلتی ہیں تا آئکہ قدیم نسل آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے ۔
سطر 71:
الجزئر میں ترنی فائن ہے ملے والے رکاز اور شمالی تنزانیہ میں آلڈووئی گھاٹی کے مشہور رکاز میدانی ہیں ۔ البتہ ان بیشتر ندیوں یا جھیلوں یا کسی بھی پانی کے قریب ہہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مخلوق کھلی جگہ میں رہتی تھی ۔
 
ہنگری میں بوڈاپسٹ سے پچاس کلو میٹر دور ورتیسولوس کے مقام پر جو پتھرائی ہوئی ہڈیاں اور دیگر باقیات ملی ہیں ، وہ ظاہر کرتی ہیں کہ کھڑا آدمی مٹی کے گھرندوں میں رہتا تھا ، جو دریائے دینوب کے ایک معاون دریا کے پانی نے اور چشموں نے مٹی اور معدنیات کے ڈھیر لگا کر قدرتی طور پر بنادیئے تھے ۔ یہاں پر شکار شدہ جانوروں کی باقیات ملی ہیں اور آگ کے استعمال کے نشانات بھی ۔ چوتیان اور ورتے سولوس کے دفینے اس بات کا ثبوت فراہم کردیئےکر دیے جاتے ہیں ۔ یہ انسان آگ کے استعمال سے آگاہ ہوچکا تھا ۔ اس سے یہ بھی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ آگ پر قابو پانے کے نتیجے میں اس نے مسلسل مصروف رہنے کا بجائے کہیں پناہ گاہوں میں قیام کی ضرورت محسوس ہوگی ، جہاں آگ کا ذخیرہ کیا جاسکے ۔ ایک چولھا ہو جس میں مسلسل آگ جلتی رہے ۔
 
آگ نے جہاں ان کو مستقبل یا نیم مستقبل ٹھکانوں میں رہنا سکھایا ، وہیں ان پر دو بڑے اہم اثرات مرتب کئےکیے ۔ ایک تو یہ آگ کی مدد سے زیادہ ٹھنڈے علاقوں میں جانے اور رہنے کے قابل ہوگئےہو گئے ۔ یورپی علاقوں کی طرف سفر زیادہ آسان ہو گیا اور دوسرے وہ اپنی خوراک بھون کے یا باقیدہ پکا کر کھانے کے قابل ہوگئےہو گئے ۔ اس کے نتیجے میں انہیں بڑے اور مظبوط دانتوں کی ضرورت نہیں رہی اور بقا اصلح قانون کے تحت بڑے دانٹ بقا کی لازمی شرط نہ رہے ۔ اب بقا کی خونخوار جنگ میں بڑے دانت کےکی بجائے بہتر عقل کو قوفیت حاصل ہوگئیہو گئی ۔ جس کا اظہار آگ کے استعمال ۔۔۔۔ گوشت بھونے اور دشمن کی بھگانے کے لیے ۔۔۔ اور اجتماعی زندگی کی شکل میں ہونے لگا ۔
 
کھڑے انسان کی عملی زندگی پر روشنی ڈالنے والی دوسری بڑی چیز پتھر کے وہ اوزار ، چاقو ، چھریاں ، ٹوکے ہیں ، جو ان کے جسموں کے پاس مدفون ملے ہیں ۔ اس صنعت کو قابل تاریخ کے جنوب مشرقی ایشیا کی چاقو و چھری کی صنعت بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ اس قسم کے اوزار ہیں جو ایک پتھر کو دوسرے پھتر سے تراش کر نوکدار بنا کر تیار کئےکیے گئے ہیں ۔ اس ہتھیار کا جو حصہ ہاتھ میں پکڑا جاتا ہے وہ اپنی قدرتی حالت میں گول اور ہموار ہے ۔ جب کہ دوسرے سرے کو نوک دار بنایا گیا ہے ۔ اس طرح ہڈیوں کو ٹور کر اور پتھروں کے چھری سے کاٹ کر ان کو بھی اوزاروں کی شکل دے دی گئی ۔ یعنی اوزار کی مدد سے اوزار بنائے گئے ۔
 
ادھر افریقہ اور یورپ میں نسبتاً بڑے دو ھاری ہتھیار جنہیں چاقو کی بجائے کلہاڑا کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔ اسی انسان کی باقیات سے ملے ہیں ۔ افریقہ کی اس صنعت کو اکیولین صنعت ASHULIAN ANDUSTRY نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
سطر 91:
کھڑے آدمی نے انتہائی قدیم پتھریلے چاقوؤں سے لے کر زیادہ کار آمد دستی کلہاڑے بنانے تک کے اوزار سازی کے فن میں ترقی کی ۔ لہذا وہ کہیں بہتر شکاری تھا اور بڑے بڑے جانوروں کا شکار کر سکتا تھا ۔ اس مقصد کے لیے منصوبہ بندی اور تعاون کی ضرورت تھی ۔ لہذا وہ مل جل کر رہتا تھا ۔ چاہے غاروں میں اور چاہے کھلے میں ۔ اجتماع میں کسی نہ کسی قسم کی گفتگو کی لازمی ضرورت تھی ۔ لہذا کچھ نہ کچھ گفتگو ضرور ہوا کرتی گی ۔ کوئی نہ کوئی زمان ۔۔۔ اشاروں ، کنایوں اور آواز کے مفاہیم کی زبان ضرور رہی ہوگی ۔۔ چیالان نے ابتدائی نطق کے امکان کو تسلیم کیا ہے ۔
 
سپین میں طرالیہ اور امبرونہ کے مقامات پر جو رکاز ملے ہیں ، ان میں لاتعداد ہڈیاں ہاتھیوں کی تھیں ۔ ان میں ایک معدوم جانور کی ہڈیاں بھی تھیں ، جو ہاتھی کی طرح دیکھانے والے دانت رکھتا تھا جو سیدھے تھے ۔اس کا جسم موجودہ ہاتھی سے بڑا تھا ۔ ان کی ہڈیاں ایک ہی جگہ پر اتنی زیادہ ملی ہیں کہ ان کا ایک جگہ اتفاقاً وہاں جمع ہو جانا خارج امکان تھا ۔ ہاتھی کی ہڈیاں کئی بڑی بڑی ہڈیاں توڑی گئیں تھیں ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ منصوبہ بندی کے ساتھ مل جل کر شکار کئےکیے گئے تھے ۔ اپنا شکار اپنے ٹھکانے پر لا کر مارتے تھے اور مل جل کر گوشت کھاتے تھے ۔ جو بھون کر کھاتے تھے ۔ پتھر کے بے شمار اوزاروں کے علاوہ نوکدار لکڑیاں بھی یہاں سے ملی ہیں اور آگ کے آثار بھی وافر مقدار میں ملے ہیں ۔ یہ یاتھی اس جگہ آگ کے ذریعے ہنکا کر دلدل میں پھنسا کر مارتے تھے ۔ کیوں کہ ایک جگہ مارنا اور پھر گھسیٹ کر لے جانا بعید از قیاس ہے ۔ ۔۔۔ اس جگہ پر انسانی مجحر نہیں ملا ۔ شاید وہ وہاں رہتے نہیں تھے ۔ بلکہ یہ ان کی شکار گاہ تھی ۔ کھڑا آدمی یا تو ایسا [[خانہ بدوش]] تھا ۔ جو بعض جگہوں پر باقیدہ پلٹ کر آتا تھا یا پھر وہ بعض ٹھکانوں کا نیم باشندہ ۔ لباس کے استعمال یا عدم استعمال کے بارے میں معلوم نہیں ہے ۔
 
اس انسان کے بارے میں کسی قسم کے مذہبی رجحانات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا ۔ مثلاً کسی قبر کا یا لاش کو باقیدہ دفن کرنے کا ایک بھی یا آدھا یا ادھورا سا ثبوت بھی نہیں ملا ۔ زرد مٹی سے بنائے ہوئے وہ نشانات بھی کہیں نہیں ملے جو بعد کی نسلوں میں نظر آتے ہیں ۔ اس طرح مردم خوری یعنی اپنی ہی نوع کے افراد کو کھانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ۔ ان کے پاس پتھر کے ہتھیار بنانے ، آگ کو استعمال کرنے ، جانوروں کو شکار کرنے اور خوردونی نباتات ڈھونڈ کر کھانے کی طبعیات تو بھی لیکن مابعد الطبعیات کوئی نہیں تھی ۔ ابھی مرحلہ تسخیر فطرت کا تھا ۔ انسان کے ہاتھ دوسرے انسان کی محنت کا استحصال ابھی شروع نہیں ہوا تھا ۔
سطر 99:
اس طرح انسانی ارتقائ جاری رہا ۔ دماغ کا حجم بڑھتا گیا اور اس کی اندرونی ساخت پیچدہ ہوتی گئی۔ نتیجتہً اس کی ذہنی صلاحیت بڑھتی گئیں اور یہ ابتدائی انسان آئندہ مرحلے پر پہنچ گیا ۔
 
مختلف ماہرین نے اس بارے میں مختلف نظریات پیش کئےکیے ہیں کہ آیا کھڑے آدمی کی نسل سے ہی براہ راست باشعور آدمی نے جنم لیا ہے یا درمیان میں کوئی اور کڑیاں ہیں اور جو بھی کچھ صورت بھی اس ارتقائ کی رہی ہو اس کی عملی تفصیل کیا ہے ۔ ایک نظریہ و یہ کہتا ہے کہ کھڑے آدمی سے ہی باشعور آدمی نے براہ راست جنم لیا ہے ۔ یہ لیکن یہ واقع ایک ہی بار نہیںہوا ، بلکہ پانچ مرتبہ ہوا ہے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے ارتقائ کا مرحلہ طے ہوا ہے ۔ اس نظریہ کے سب سے بڑے مبلغ امریکی سائندان سی ایس کون ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ افریقہ میں کھڑے آدمی کے باشعور آدمی میں تبدیل ہونے سے دو لاکھ سال پہلے یورپ میں یہ عمل شروع ہوچکا تھا ۔ اس طرح موجودہ انسان کی نسلیاتی تقسیم کا آغاز بھی کھڑے آدمی بلکہ اس پہلے کے زمانے ڈھونڈتے ہیں ۔ مگر وہ اپنے نظریے کی تائید میں کوئی خارجی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ چنانچہ موصوف کے نظریہ کو زیادہ پزرائی نہیں ملی ۔
 
زیادہ تر تسلیم شدہ نظریہ یہی ہے کہ کھڑے آدمی سے باشعور آدمی نے جنم لیا ۔ گو کہ باشعور آدمی کے ظہور کے بعد بھی پرانی نوع یک لخت ختم نہیں ہوگئیہو گئی ۔ بلکہ طویل عرصہ دونوں نے ساتھ ساتھ رہے اور پرانی نوع کے مکمل ختم ہونے میں کافی وقت لگا ۔ اس زمانی تجاوز کی غلط توجیہ کرنے کے باعث سی ایس کون نے اپنا مفروضہ پیش کیا ۔<ref>یحیٰی امجد ۔ تاریخ پاکستان قدیم دور</ref>
 
== مزید دیکھیے ==