"ابو عیسیٰ محمد ترمذی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی بذریعہ خوب
سطر 22:
| influenced =
}}
'''ابو عیسیٰ محمد ترمذی''' ایک مشہور [[محدث]] گزرے ہیں جن کا پورا نام ابو عیسیٰ محمد بن سورہ بن شداد ہے۔ آپ کے حالات کے متعلق بہت کم علم ہے۔ کہتے ہیں کہ پیدائشی نابینا تھے۔ بعض کے بقول آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ آپ نے [[امام احمد بن حنبل|امام احمد ابن حنبل]]، [[امام بخاری]] اور [[امام ابو داؤد]] سے حدیث کا درس لیا اور پھر احادیث جمع کرنے کے لیے [[خراسان]] [[عراق]] اور [[حجاز]] گئے۔ شہر ترمذ میں، جو [[بلخ]] سے کچھ فاصلے پر [[دریائے آمو]] کے کنارے واقع ہے، انتقال کیا، آپ کی دو تصانیف ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک آنحضرت کی سیرت، جس کا نام [[شمائل ترمذی]] ہے۔ اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو [[سنن ترمذی|جامع ترمذی]] کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔ ان کے علاوہ انساب، کنیت اور اسماء الرجال پر بھی آپ نے کچھ کام کیا تھا مگر یہ کتابیں اب نہیں ملتیں۔
 
== نام ونسب اور وطن ==
سطر 28:
 
== سنہ ولادت و کنیت ==
[[309ھ]] بعض نے کچھ بعض نے کچھ کہا ہے معلوم ہوتا ہے ولادت کے سن میں اختلاف ہے آپ کے والد ماجد کا نام تمام روایات میں عیسیٰ ہے لہذا آپ کی کنیت ابن عیسیٰ رکھنی چاہیے تھی اس کے بر عکس آپ نے ابوعیسیٰ رکھ لی اور اس پر اعتراضات ہوئے ہیں کہ حضرت [[عیسیٰ علیہ السلام]] تو والدہ کے بطن سے پیدا ہوئے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ذٰلک عیسیٰ ابن مریم) (مریم:٣٤) (قالت انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا قال کذالک اللہ یفعل مایشاء) (آل عمران ٤٧) اور یہ کنیت رکھنا صحیح نہیں لگتا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے یہ کنیت رکھی تو حضرت عمر نے ڈانٹا۔ حضرت مغیرہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا بلکہ ایک روایت ہے کہ خود آپ نے یہ کنیت حضرت مغیرہ کی رکھی اور مبارکپوری نے ''تحفۃ الاحوذی''میں کہا ہے کہ کوئی مرفوع متصل صریح حدیث نہی کی نہیں ہے حضرت عمر کی زجر و تنبیہ اثر کا حکم رکھتی ہے اور ایسے بڑے جلیل القدر محدث کو نہی کا علم نہ ہونا بعید من الفہم ہے کہ انہوں نے باب کی حدیث بیان کر کے قال ابوعیسیٰ ہزاروں دفعہ کہا ہے
 
== تعلیم ==
سطر 38:
 
== غیر معمولی حافظہ ==
اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی حافظہ عطاء فرمایا تھا احادیث کے دو جزو آپ کے پاس سفر میں تھے اثناء سفر میں آپ کو علم ہوا کہ قافلے میں وہ وہ شیخ بھی ہیں کہ جن سے وہ جزو پہنچے ہیں۔ خیال کیا کہ ان کو سنا کر ان کی توثیق کراؤں مستفر پر آئے تو دیکھا تو لکھے ہوئے دونوں جزو غائب تھے ان کی جگہ سفید کاغذ لے کر حاضر ہو گئے اور سنانے لگے شیخ کی نظر پڑ گئی کہ اوراق سادہ ہیں اور کہا کہ اما تستحی منی؟''کیا تمہیں مجھ سے شرم نہیں آتی۔ اس پر امام ترمذی نے پورا واقعہ سنایا اور عرض کیا کہ جناب مجھے کچھ اور احادیث سنائیں میں آپ کو مجرد ایک دفعہ سننے پر سنا دوں گا اس پر شیخ نے چالیس احادیث سنائیں سننے کے بعد امام ترمذی نے من وعن ان احادیث کو شیخ کو سنا دیا شیخ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور فرمایا کہ ''ما رایت مثلک ''میں نے آپ جیسا نہیں دیکھا۔ آخر عمر میں آپ رقت قلبی اور خشیت الہی سے گریہ و زاری کرتے ہوئے نابینا ہو گئے۔ ایک دفعہ [[سفر حج]] کو گئے تو ایک جگہ جا کر اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے سر نیچا کر لیا۔ احباب کے سوال پر کہ ایسا کیوں کیا تو فرمایا کہ یہاں ایک درخت تھا جس کا ٹہنہ یا شاخیں سر کو لگتی تھیں انہوں نے فرمایا کہ یہاں تو کوئی درخت نہیں اس پر فرمایا کہ ارد گرد سے تحقیق کرو اگر یہاں درخت نہیں تھا تو میں سوء حفظ کا شکار ہو گیا ہوں اور اب مجھے روایت حدیث کو ترک کرنا پڑے گا۔ تحقیق کی تو لوگوں نے کہا کہ درخت تھا لیکن ہم نے اسے مسافروں کی راحت کے لیے اکھیڑ دیا اس پر آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا اس زمانے میں محدثین کے حافظے اور دماغ کمپیوٹر یا ریڈار یا آج کل کی زبان میں ''آٹومیٹک ''(خبر دار کرنے کا آلہ ) تھے کہ خطرے پر اس کی بتی از خود سرخ ہو جاتی تھی۔
 
== جامع ترمذی کا مقام ==
بلاشبہ جامع ترمذی ''صحاح ستہ''میں شامل ہے لیکن اس پر بحث ہوتی ہے کہ اس کا درجہ کس نمبر پر ہے کئی حضرات کہتے ہیں کہ صحیحین (بخاری، مسلم) سنن ابی داؤد، [[سنن نسائی]] کے بعد ہے لیکن اکثر کا خیال ہے کہ صحیحین کے بعد اس کا مقام ہے تبھی تو اس کو جامع کہتے ہیں جو بیک وقت جامع اور سنن ہے۔ جامع ایسی کتاب حدیث کو کہتے ہیں جس میں حدیث کے تمام موضوعات کا لحاظ رکھا گیا ہو اور سنن جو فقہی ترتیب پر ہو ترمذی میں دونوں باتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے
اگر بعض چیزوں یا اعتراضات کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو جامع ترمذی کے فوائد [[صحاح ستہ]] کتب سے زائد ہیں اسی لیے ہمارے مدارس عربیہ میں اکثر روایت یہ رہی کہ [[شیخ الحدیث]] بخاری اور ترمذی دونوں پڑھاتا ہے۔ ایک بڑی بات جو امام ترمذی نے اہتمام سے کی ہے وہ یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے کے بعد صحابہ اور ائمہ مجتہدین کا مسلک بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث پر کن کن حدیث بیان حضرات کا عمل رہا ہے۔
اور حدیث کا مقام صحیح، حسن، مشہور، غریب اور ضعیف وغیرہ بھی بیان کرتے ہیں اور ایک مسئلہ پر باب میں جو حدیث بیان کرتے ہیں اس کا متعلقہ حصہ ہی بیان کرتے ہیں ساری حدیث نہیں بیان کرتے اور مخالف و موافق دونوں طرح کی احادیث بیان کرتے ہیں اور ایک سب سے بڑا اہتمام جس کو کسی محدث نے نہیں چھیڑا وہ یہ کہ ''فی الباب '' کہہ کر اس باب میں جتنے صحابہ سے روایت کا ذکر کرتے ہیں اور بعد میں آنے والوں نے ''فی الباب ''کی احادیث کو تلاش کر کے جمع کیا ہے۔
 
سطر 72:
[[زمرہ:نویں صدی کے مصنفین]]
[[زمرہ:نویں صدی میں اسلامی مذہبی رہنما]]
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]