"امراؤ جان ادا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ ٹیگ {{بلا حوالہ}} در مضمون (پلک)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 26:
 
== فنی جائزہ ==
 
=== کردار نگاری ===
فنی لحاظ سے ناول امراؤ جان ادا میں بہت زیادہ کردار ہیں۔ ناول کا مطالعہ کرتے ہوئے احسا ساحساس ہونے لگتا ہے کہ اس ناول میں قدم قدم پر نئے نئے کردار رونما ہوتے ہیںہیں؛ یہی وجہ ہے کہ کرداروں کے نام ان گنت ہو کر رہ گئے ہیں۔ اتنے زیادہ کردار شائدشاید ہی اردو کے کسی ناول میں ہوں۔ لیکن اتنے زیادہ کردار ہونے کے باجود کرداروں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ہر لحاظ سے مکمل نبھاہنباہ کیا گیاہے۔گیا رسوائکےہے۔ رسوا کے ہاں اس ناول میں بڑا کردار ہویاہو یا چھوٹا کردار، ناول نگار نے اسے اپنے تمام تر نفسیات و جذباتجذبات، عادات و اطواراطوار، خاندانی پس منظر اور موجودہ حیثیت و عمر کے ساتھ پیش کر دیاہے۔دیا ہے۔
 
=== امراؤ جان ادا ===
ناول کا سب سے بڑا کردار امراؤ کا ہے۔ اس کی اہمیت مسلم ہے۔ وہ قصے کی ہیروئن ہے۔ اس لیے پور ےپورے قصے پر چھائی ہوئی ہے۔ بقول ڈاکٹر میمونہ انصاری:
 
”امراؤ{{اقتباس|امراؤ جان ادا کا کردار اردو زبان میں اہم ترین کردار ہے۔ یہ پہلا سنجیدہ کردار ہے جو اپنی زندگی کا ضامن ہے۔ اب تک اس کردار کا ثانی کردار تخلیق نہیں ہوا۔}}
ناول کا سب سے بڑا کردار امراؤ کا ہے۔ اس کی اہمیت مسلم ہے۔ وہ قصے کی ہیروئن ہے۔ اس لیے پور ے قصے پر چھائی ہوئی ہے۔ بقول ڈاکٹر میمونہ انصاری:
 
امراؤ جا نجان پیدائشی طوائف نہ تھیتھی، وہ شریف ذادی تھی اور شریف گھرانے میں پیدا ہوئی تھی۔ دس برس تک شریف والدین کے زیرسایہزیر سایہ زندگی بسر کی۔ پھر ایک منتقم مزاج شخص کے انتقام کی بھینٹ چڑھ کر اغوا ہوکرہوئی اور خانم کے کھوٹے پر پہنچی۔پہنچی جہاں [[تعلیم و تربیت]] پا کر طوائف بنا دی گئی۔ شاعرہ تھی۔تھی، ادب سے مس تھا۔ قبول صورت تھی، رقص و سرور میں ماہر تھی۔ ان خوبیوں کی بنا پر خاصی مشہور ہوئیہوئی۔ جہاں جاتی سر آنکھوں پر بٹھائی جاتی۔ امراؤ جان ادا کے کردار پر مراز رسوا نے بڑی محنت کی ہے۔ امراؤ کے کردار میں تدریجی تبدیلیاں دراصل اس کی فطرت کیکے شریفانہ جوہر کی پیداوار ہیں۔ یہ جو ہرجوہر اسے ورثہ میں ملاتھا۔ملا تھا۔ اب اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب وہ چکلے کے گھناونے ماحول سے متنفر ہو چکی ہے اور اسے رنڈی بن کر جینا پسند نہیں۔ اس کردار کا یہ ارتقاءاسارتقا اس کی شخصیت و کردار میں عجیب مقناطیسی کشش پیدا کر دیتا ہے۔ہے اور وہ قاری کی نظر میں مطعون اور مقہور ہونے کی بجائے رحم اور ہمدردی کی مستحق ٹھہر تیٹھہرتی ہے۔ آخر یآخری عمر میں وہ سب کچھ ترک کر دیتی ہے۔ اور عام لوگوں سے بھی ملنے جلنے سے احتراز کرتی ہے۔ اور نماز روزے کی سختی سے پابندی کرنے لگتی ہے۔ آخر یآخری عمر میں کربلاکربلائے معلی کی زیارت سے بھی فیض یا بیاب ہوئی۔ اس طرح اس کردار کی تشکیل میں رسوا نے گہراگہرے نفسیاتی مطالعے سے کام لیا ہے۔
”امراؤ جان ادا کا کردار اردو زبان میں اہم ترین کردار ہے۔ یہ پہلا سنجیدہ کردار ہے جو اپنی زندگی کا ضامن ہے۔ اب تک اس کردار کا ثانی کردار تخلیق نہیں ہوا۔ “
 
=== خانم ===
امراؤ جا ن پیدائشی طوائف نہ تھی وہ شریف ذادی تھی اور شریف گھرانے میں پیدا ہوئی تھی۔ دس برس تک شریف والدین کے زیرسایہ زندگی بسر کی۔ پھر ایک منتقم مزاج شخص کے انتقام کی بھینٹ چڑھ کر اغوا ہوکر خانم کے کھوٹے پر پہنچی۔ جہاں [[تعلیم و تربیت]] پا کر طوائف بنا دی گئی۔ شاعرہ تھی۔ ادب سے مس تھا۔ قبول صورت تھی، رقص و سرور میں ماہر تھی۔ ان خوبیوں کی بنا پر مشہور ہوئی جہاں جاتی سر آنکھوں پر بٹھائی جاتی۔ امراؤ جان ادا کے کردار پر مراز رسوا نے بڑی محنت کی ہے۔ امراؤ کے کردار میں تدریجی تبدیلیاں دراصل اس کی فطرت کی شریفانہ جوہر کی پیداوار ہیں۔ یہ جو ہر اسے ورثہ میں ملاتھا۔ اب اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب وہ چکلے کے گھناونے ماحول سے متنفر ہو چکی ہے اور اسے رنڈی بن کر جینا پسند نہیں۔ اس کردار کا یہ ارتقاءاس کی شخصیت و کردار میں عجیب مقناطیسی کشش پیدا کر دیتا ہے۔ اور قاری کی نظر میں مطعون اور مقہور ہونے کی بجائے رحم اور ہمدردی کی مستحق ٹھہر تی ہے۔ آخر ی عمر میں وہ سب کچھ ترک کر دیتی ہے۔ اور عام لوگوں سے بھی ملنے جلنے سے احتراز کرتی ہے۔ اور نماز روزے کی سختی سے پابندی کرنے لگتی ہے۔ آخر ی عمر میں کربلا معلی کی زیارت سے بھی فیض یا ب ہوئی۔ اس طرح اس کردار کی تشکیل میں رسوا نے گہرا نفسیاتی مطالعے سے کام لیا ہے۔
خانم کا کردار اس ناول میں ایک خاص مقام کا حامل ہے۔ اپنے کردار کے حوالے سے گناہ کی دنیا میں وہ ایک سردار اور پیش رو کی حیثیت رکھتی ہے۔ ناول کی فضاءمیںفضا میں خانم جان نوابین کے لیے قدم قدم پر سامان تعیش فراہم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ملک کے طول و عرض سے بہلا پھسلا کر لائی گئی یا اغوا شد ہشدہ لڑکیوں کو اونے پونے داموں خرید لینا خانم کا شیوہ ہے۔ وہ اپنے مکروہ عزائم اور ناپاک ارادوں کی تکمیل کی غرض سے خریدی ہوئی لڑکیوں کی پرورش کرتی ہے۔ جوان ہو جانے پروہپر وہ ان کی آبرو کی دکان لگاتے ہوئے اپنا کاروبار چمکاتی ہے۔ اس کے کردار میں تضاد بھی پایا جاتا ہےہے؛ ایک طرف تو وہ طوائفوں کو قرآن پڑھانے کے لیے مولوی کا انتظام کرتی ہے اور دوسری طرح اس گھناونےگھناؤنے دھندے پر بھی انھیں مجبور کرتی ہے۔ وہ ایک مکار عورت ہے او راور مکمل طوائف بھی۔ پیسے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی ہےہے، حتیٰ کہ اپنی بیٹی کی تربیت بھی انہی خطوط کر تیکرتی ہے۔
 
=== خانمبسم اللہ جان ===
یہ خانم کی بیٹی ہےہے، اسی وجہ سے بسم اللہ جان کو ہم خاندانی طوائف کہہ سکتے ہیںہیں۔ دوسری نوچیوں کے مقابلے میں اس پر اپنی ماں کا بہت زیادہ اثر ہے۔ چنانچہ دوسری طوائفوں کی نسبت اپنے پیشے میں یہ سب سے زیادہ کامیاب ہے۔
 
=== خورشید جان ===
خانم کا کردار اس ناول میں ایک خاص مقام کا حامل ہے۔ اپنے کردار کے حوالے سے گناہ کی دنیا میں وہ ایک سردار اور پیش رو کی حیثیت رکھتی ہے۔ ناول کی فضاءمیں خانم جان نوابین کے لیے قدم قدم پر سامان تعیش فراہم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ملک کے طول و عرض سے بہلا پھسلا کر لائی گئی یا اغوا شد ہ لڑکیوں کو اونے پونے داموں خرید لینا خانم کا شیوہ ہے۔ وہ اپنے مکروہ عزائم اور ناپاک ارادوں کی تکمیل کی غرض سے خریدی ہوئی لڑکیوں کی پرورش کرتی ہے۔ جوان ہو جانے پروہ ان کی آبرو کی دکان لگاتے ہوئے اپنا کاروبار چمکاتی ہے۔ اس کے کردار میں تضاد بھی پایا جاتا ہے ایک طرف تو وہ طوائفوں کو قرآن پڑھانے کے لیے مولوی کا انتظام کرتی ہے اور دوسری طرح اس گھناونے دھندے پر بھی انھیں مجبور کرتی ہے۔ وہ ایک مکار عورت ہے او ر مکمل طوائف پیسے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی ہے اپنی بیٹی کی تربیت بھی انہی خطوط کر تی ہے۔
جہاں تک خورشید جان کا تعلق ہے۔ہے وہ امراؤ جان ادا کی طرح یہ بھی ایک شریف گھرانے کی بیٹی ہےہے۔ کسی زمیندار کی لڑکی ہے اغوا کرکے لکھنؤ کے شہر میں خانم کے ہاتھ بیچ دی جاتی ہے۔ہے اور خانم اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس کے کردار میں تھوڑا بہت تضاد بھی ہے۔ کبھی تو ناول نگار اسے خوبصورت کہنے کے ساتھ ساتھ ناچ گانے کی ماہر ثابت کرتا ہے مگر کبھی کہتا ہے کہ خوبصورت مگر ناچنے گانے میں پھوہڑ، بہر حال اس کی رگوں میں شریف خاندان کا خون ہے۔ گناہ کے دھندے کوتہکو تہ دل سے قبول نہیں کرتی۔ ا
 
=== بسمگوہر اللہ جانمرزا ===
گوہر مرزا بنو ڈومنی کا بیٹا ہےہے۔ اس کی عادات و اطوار، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور گفتگو سے اس کے خاندانی پس منظر کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ وہ کردار ہے جس کاکوئی ضمیر نہیںنہیں، پرلے درجے کا شرارتی، بیکار اور بے غیرت قسم کا کردار اگر کوئی ہے تو گوہرمرزاگوہر مرزا ہے۔
 
یہ خانم کی بیٹی ہے اسی وجہ سے بسم اللہ جان کو ہم خاندانی طوائف کہہ سکتے ہیں دوسری نوچیوں کے مقابلے میں اس پر اپنی ماں کا بہت زیادہ اثر ہے۔ چنانچہ دوسری طوائفوں کی نسبت اپنے پیشے میں یہ سب سے زیادہ کامیاب ہے۔
 
=== خورشید جان ===
 
جہاں تک خورشید جان کا تعلق ہے۔ امراؤ جان ادا کی طرح یہ بھی ایک شریف گھرانے کی بیٹی ہے کسی زمیندار کی لڑکی ہے اغوا کرکے لکھنؤ کے شہر میں خانم کے ہاتھ بیچ دی جاتی ہے۔ اور خانم اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس کے کردار میں تھوڑا بہت تضاد بھی ہے۔ کبھی تو ناول نگار اسے خوبصورت کہنے کے ساتھ ساتھ ناچ گانے کی ماہر ثابت کرتا ہے مگر کبھی کہتا ہے کہ خوبصورت مگر ناچنے گانے میں پھوہڑ، بہر حال اس کی رگوں میں شریف خاندان کا خون ہے۔ گناہ کے دھندے کوتہ دل سے قبول نہیں کرتی۔ ا
 
=== گوہر مرزا ===
 
گوہر مرزا بنو ڈومنی کا بیٹا ہے اس کی عادات و اطوار، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور گفتگو سے اس کے خاندانی پس منظر کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ وہ کردار ہے جس کاکوئی ضمیر نہیں پرلے درجے کا شرارتی، بیکار اور بے غیرت قسم کا کردار اگر کوئی ہے تو گوہرمرزا ہے۔
 
=== نواب سلطان ===
نواب سلطان کے کردار میں خاندانی وجاہت اور شرافت کا عنصر پایا جاتا ہےہے۔ ٹھیک ہے وہ چھپتے چھپاتے، اندھیرے میں امراؤ جان سے ملنے آتے ہیں۔ہیں جو ایک بدی ضرور ہے لیکن انہیں اس کا احساس بھی ہے۔ نواب سلطان کے کردار میں ہمیں ایسا کردار نظرآتانظر آتا ہے جو دوسروں پر اپنی شرافت و نیک نامی ثابت کرتا ہے۔ بے شک بہت سی دیگر خصلتوں کے پیش نظر نواب سلطان ایک شریف انسان ہے۔ لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ طوائف کے کوٹھے پر جانا اُن کے کردار کا ایک بہت بڑا عیب ہے۔
 
نواب سلطان کے کردار میں خاندانی وجاہت اور شرافت کا عنصر پایا جاتا ہے ٹھیک ہے وہ چھپتے چھپاتے، اندھیرے میں امراؤ جان سے ملنے آتے ہیں۔ جو ایک بدی ضرور ہے لیکن انہیں اس کا احساس بھی ہے۔ نواب سلطان کے کردار میں ہمیں ایسا کردار نظرآتا ہے جو دوسروں پر اپنی شرافت و نیک نامی ثابت کرتا ہے۔ بے شک بہت سی دیگر خصلتوں کے پیش نظر نواب سلطان ایک شریف انسان ہے۔ لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ طوائف کے کوٹھے پر جانا اُن کے کردار کا ایک بہت بڑا عیب ہے۔
 
=== نواب چھبن ===
مصنف نے ان کی گوری رنگت، کسرتی بند اور بسم اللہ جان کا دم بھرنے کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس سے نواب چھبن کے ظاہری خدوخالخد و خال ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتیجاتے ہے۔ہیں۔ بسم اللہ جان کے دام میں اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ اپنی منگیتر بڑے چچا کی بیٹی کو بھی ٹھکرانے پر تلا ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ نواب چھبن کا ضمیر اور غیرغیرت کس قدر زندہ ہے۔ اس لیے خانم کی طعن و تشنیع سے دل برداشتہ ہو کر پانی میں ڈوب مرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ مگر زندہ بچ جانے کے باوجود دوبارہ خانم کے نگار خانے پر حاضری نہیں دیتا۔
 
مصنف نے ان کی گوری رنگت، کسرتی بند اور بسم اللہ جان کا دم بھرنے کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس سے نواب چھبن کے ظاہری خدوخال ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ بسم اللہ جان کے دام میں اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ اپنی منگیتر بڑے چچا کی بیٹی کو بھی ٹھکرانے پر تلا ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ نواب چھبن کا ضمیر اور غیر کس قدر زندہ ہے۔ اس لیے خانم کی طعن و تشنیع سے دل برداشتہ ہو کر پانی میں ڈوب مرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ مگر زندہ بچ جانے کے باوجود دوبارہ خانم کے نگار خانے پر حاضری نہیں دیتا۔
 
== پلاٹ==