"مخدوم علی مہائمی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← وجہ، ہو گیا، ہو گئے؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 15:
[[فائل:Handwriting of Makhdoom Ali Mahimi.jpg|تصغیر|288x288پکسل|شیخ مہائمی کا عکس تحریر جس میں [[سورہ فاتحہ]]، [[سورۃ الم نشرح]] اور [[التین|سورۃ التین]] کی خطاطی موجود ہے۔]]
[[فائل:Mazaar of Makhdoom ali mahimi dargah.jpg|تصغیر|290x290پک|درگاہ مخدوم علی مہائمی، ([[ماہم]])]]
مولوی محمد یوسف کھٹکھٹے مرحوم نے تفسیر تبصیر الرحمٰن کے قلمی نسخہ پر لکھی ہوئی [[تقریظ]] کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’اِس میں آپ کا نام علاء الدین والحقیقۃ والدنیاء والدین علی پَرو بن احمد پَرو بن علی پَرو بن احمد پَرو المشہور بہ ابن بنت حسین ناخدا اَنکولیا ہے اور غالباً یہی صحیح ہے۔ یہ قلمی نسخہ مخدوم مہائمی کی وفات کے 133سال بعد نقل کیا گیا ہے اور اِس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مخدوم مہائمی کے نسخے سے نقل ہوا ہے۔<ref>عبدالرحمٰن پرواز اصلاحی: مخدوم علی مہائمی، حیات آثار و افکار، صفحہ 26، مطبوعہ [[دہلی]]، [[1976ء]]</ref><ref>کشف المکتوم من حالات فقیہ المخدوم</ref><br />
 
== تعلیم و تربیت ==
مخدوم مہائمی کے والد مولانا شیخ احمد بہت بڑے عالم و فاضل اور متقی پرہیزگار تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنے بیٹے کی ذہانت اور علم کے شوق کو دیکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کی۔ چونکہ خود بھی [[عربی زبان]] کے عالم تھے، اِسی لیے اپنے بیٹے کو بھی [[عالم]] بنایا۔ مولانا شیخ احمد بن علی کی زیر تربیت کمسنی میں ہی تجوید [[قرآن]]، [[فقہ]]، [[حدیث]]، [[تفسیر]]، [[فلسفہ]] اور منطق سمیت دیگر معقولات و منقولات میں درس مکمل کرلیے۔ ایک مشہور روایت کے مطابق حضرت [[خضر]] نے بھی آپ کی تربیت میں بڑا حصہ لیا، مگر اِس روایت کی تصدیق یا حوالہ غیرمستند ہے۔ ابھی نو سال کے تھے کہ علوم ظاہریہ یعنی شرعی علوم سے فارغ ہوئے چند روز گزرے تھے کہ 25 [[جمادی الاول]] [[785ھ]] مطابق [[26 جولائی]] [[1383ء]] کو والد بزرگوار مولانا شیخ احمد بن علی کا انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد علمی تشنگی کے لیے اپنی والدہ سے سفر کی اجازت طلب کی تو والدہ نے کہا: ’’بیٹے! تمہاری جدائی میرے لیے ناقابل برداشت ہے، اللہ تعالیٰ مُسَبِبُّ الاسباب ہے، غیب سے کوئی ایسا سامان کردے گا کہ جس سے تمہارے شوق کی تکمیل ہوجائے گی، کس طریقے سے تعلیم و تعّلُّم سے علم وہی جو فیضانِ باطنی سے حاصل ہوگا، وہ بدرجہا بہتر ہے۔‘‘
 
چنانچہ اُس شب والدہ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی جو قبول ہوگئی اور [[فجر]] کے وقت مخدوم مہائمی حسبِ عادت سمندر کے کنارے ٹہلنے گئے تو دیکھا کہ ایک بلند پتھر پر جو کنارے ہی پڑا تھا، ایک نورانی صورت بزرگ اُس پر تشریف فرما تھے۔ آپ نے سلام عرض کیا۔ بزرگ نے سلام کا جواب دیا اور نہایت خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ فرمایا کہ تم کو علم معرفت حاصل کرنے کا شوق ہے تو روزانہ صبح یہاں آیا کرو، ہم تم کو تعلیم دیں گے۔ وہ چیز جو تم دور دراز سفر اختیار کرکے حاصل کرنا چاہتے ہو، وہ تمہیں ان شاء اللہ یہیں مل جائے گی کہ میں [[خضر]] ہوں۔ تمہاری تعلیم کے لیے مجھے اللہ تعالیٰ نے یہاں بھیجا ہے اور یہ راز کسی پر ظاہر نہ کرنا۔ چنانچہ آپ روزانہ صبح [[فجر]] کی نماز کے بعد اُس جگہ پابندی سے اجنے لگے اور حضرت [[خضر]] سے علم معرفت حاصل کرنے لگے۔ چند روز گزرنے پر علم معقولات و منقولات میں کمال حاصل ہوگیا اور ایک دِن اتفاق سے والدہ نے پوچھا کہ روزانہ کس کے پاس علم حاصل کرنے جاتے ہو کیونکہ میں نے سنا ہے کہ تم روزانہ سمندر کے کنارے جاتے ہو۔ آپ نے جواب دینے میں تامل کیا اور پھر ترکِ ادب سمجھ کر بتا دیا کہ میں حضرت [[خضر]] سے علم حاصل کرتا ہوں۔<ref>محمد یوسف کھتری: حضرت شیخ مخدوم علی فقیہ مہائمی، صفحہ 14 تا 16۔ مطبوعہ [[پٹنہ]]، [[2002ء]]</ref>
 
<br />
 
[[زمرہ:1372ء کی پیدائشیں]]