مخدوم علی مہائمی
مخدوم فقیہ علی مہائمی شافعی(پیدائش: 21 جون 1374ء— وفات: 7 فروری 1432ء) آٹھویں صدی ہجری میں ہندوستان کے نامور صوفی بزرگ تھے۔مخدوم علی مہائمی پندرہویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں فقہ شافعی سے استدلال کرنے والے پہلے جید عالم، محقق تھے۔ فتاویٰ بھی اِن کی وجہ شہرت ہیں۔ علاوہ ازیں کثیرالتصانیف تھے جن میں سے اکیس کے قریب تصانیف ہنوز باقی ہیں۔
مخدوم علی مہائمی | |
---|---|
(بنگالی میں: মখদুম আলী মাহিমি) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 21 جون 1374ء ماہم |
وفات | 7 فروری 1432ء (58 سال) ماہم |
مدفن | ماہم |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | شافعی |
عملی زندگی | |
پیشہ | فقیہ ، صوفی ، مفسر قرآن ، عالم |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم |
خاندان اور نام و نسب
ترمیممخدوم مہائمی کا نام علاؤ الدین اور علی ہے۔ اکثر نے نام صرف علی لکھا ہے۔ کنیت ابو الحسن اور لقب زین الدین ہے۔ خاندان نوایت کے قبیلہ پَرو سے تعلق رکھنے کی بنا پر آپ کے نام کا جزو پَرو بھی ہو گیا۔ والد کا نام شیخ احمد تھا اور وہ کوکن کے دولت مند تاجروں میں سے تھے جبکہ والدہ کا نام فاطمہ بنت ناخدا حسین انکولیا تھا جو متمول خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اُن کے والد (یعنی مخدوم مہائمی کے نانا) ملک التجار کہلاتے تھے۔ مخدوم مہائمی کا خاندان نائت یا نوائت کہلاتا ہے جو دراصل نوائط کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ قبیلہ نوائط کے کچھ تاجر مدینہ منورہ سے آکر خطہ کوکن (ممبئی) میں آباد ہو گئے تھے، اِنہی میں آپ کے مورثِ اعلیٰ بھی تھے۔ فقہ میں مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر فقیہ اور مرجع خلائق ہونے کی بنا پر مخدوم کے القاب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ کے نسب سے متعلق دو اَقوال ملتے ہیں:
- عربی رسالہ ضمیر الانسان میں خطیب کلیانی کے قول کے مطابق آپ کا نسب یوں ہے: مخدوم علی بن احمد علی بن احمد المشہور بہ ابن بنت حسین ناخدا اَنکولیا۔
- خود مخدوم علی مہائمی نے اپنے رسالہ شمائل الاتقیاء کے آخر میں اپنا نسب یوں لکھا ہے: علی بن حسن بن ابراہیم بن اسماعیل، مصنف الہام الرحمٰن و متمم تبصیر الرحمٰن بن محمد بن احمد الملقب بہ کودَر۔[1]
مولوی محمد یوسف کھٹکھٹے مرحوم نے تفسیر تبصیر الرحمٰن کے قلمی نسخہ پر لکھی ہوئی تقریظ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’اِس میں آپ کا نام علاء الدین والحقیقۃ والدنیاء والدین علی پَرو بن احمد پَرو بن علی پَرو بن احمد پَرو المشہور بہ ابن بنت حسین ناخدا اَنکولیا ہے اور غالباً یہی صحیح ہے۔ یہ قلمی نسخہ مخدوم مہائمی کی وفات کے 133سال بعد نقل کیا گیا ہے اور اِس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مخدوم مہائمی کے نسخے سے نقل ہوا ہے۔[2][3]
تعلیم و تربیت
ترمیممخدوم مہائمی کے والد مولانا شیخ احمد بہت بڑے عالم و فاضل اور متقی پرہیزگار تھے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے بیٹے کی ذہانت اور علم کے شوق کو دیکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کی۔ چونکہ خود بھی عربی زبان کے عالم تھے، اِسی لیے اپنے بیٹے کو بھی عالم بنایا۔ مولانا شیخ احمد بن علی کی زیر تربیت کمسنی میں ہی تجوید قرآن، فقہ، حدیث، تفسیر، فلسفہ اور منطق سمیت دیگر معقولات و منقولات میں درس مکمل کرلیے۔ ایک مشہور روایت کے مطابق حضرت خضر نے بھی آپ کی تربیت میں بڑا حصہ لیا، مگر اِس روایت کی تصدیق یا حوالہ غیر مستند ہے۔ ابھی نو سال کے تھے کہ علوم ظاہریہ یعنی شرعی علوم سے فارغ ہوئے چند روز گذرے تھے کہ 25 جمادی الاول 785ھ مطابق 26 جولائی 1383ء کو والد بزرگوار مولانا شیخ احمد بن علی کا انتقال ہو گیا۔ والد کے انتقال کے بعد علمی تشنگی کے لیے اپنی والدہ سے سفر کی اجازت طلب کی تو والدہ نے کہا: ’’بیٹے! تمھاری جدائی میرے لیے ناقابل برداشت ہے، اللہ تعالیٰ مُسَبِبُّ الاسباب ہے، غیب سے کوئی ایسا سامان کر دے گا جس سے تمھارے شوق کی تکمیل ہوجائے گی، کس طریقے سے تعلیم و تعّلُّم سے علم وہی جو فیضانِ باطنی سے حاصل ہوگا، وہ بدرجہا بہتر ہے۔‘‘
چنانچہ اُس شب والدہ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی جو قبول ہو گئی اور فجر کے وقت مخدوم مہائمی حسبِ عادت سمندر کے کنارے ٹہلنے گئے تو دیکھا کہ ایک بلند پتھر پر جو کنارے ہی پڑا تھا، ایک نورانی صورت بزرگ اُس پر تشریف فرما تھے۔ آپ نے سلام عرض کیا۔ بزرگ نے سلام کا جواب دیا اور نہایت خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ فرمایا کہ تم کو علم معرفت حاصل کرنے کا شوق ہے تو روزانہ صبح یہاں آیا کرو، ہم تم کو تعلیم دیں گے۔ وہ چیز جو تم دور دراز سفر اختیار کرکے حاصل کرنا چاہتے ہو، وہ تمھیں ان شاء اللہ یہیں مل جائے گی کہ میں خضر ہوں۔ تمھاری تعلیم کے لیے مجھے اللہ تعالیٰ نے یہاں بھیجا ہے اور یہ راز کسی پر ظاہر نہ کرنا۔ چنانچہ آپ روزانہ صبح فجر کی نماز کے بعد اُس جگہ پابندی سے جانے لگے اور حضرت خضر سے علم معرفت حاصل کرنے لگے۔ چند روز گزرنے پر علم معقولات و منقولات میں کمال حاصل ہو گیا اور ایک دِن اتفاق سے والدہ نے پوچھا کہ روزانہ کس کے پاس علم حاصل کرنے جاتے ہو کیونکہ میں نے سنا ہے کہ تم روزانہ سمندر کے کنارے جاتے ہو۔ آپ نے جواب دینے میں تأمل کیا اور پھر ترکِ ادب سمجھ کر بتا دیا کہ میں حضرت خضر سے علم حاصل کرتا ہوں۔[4]
عبادت و ریاضت
ترمیمآپ زاہد، عابد، جامع العلوم شریعت و طریقت، صاحب تصرفاتِ ظاہری و باطنی تھے۔[5] مخدوم مہائمی کی عبادت و ریاضت کے علاوہ ذوقی شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ:’’آپ نے ایک عرصے تک خلوت اور گمنامی کی زِندگی کو پسند کیا۔ لیکن آپ کے علم و فضل اور آپ کے کمالاتِ ظاہری اور باطنی اور کرامات و خوارق جو آپ سے ظہور پزیر ہوئے، انھوں نے ایک عالم کو آپ کا گرویدہ کر لیا۔[6] مولانا محمد باقر آگاہ نے اپنی کتاب نفحۃ العنبریہ میں آپ کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’آپ علوم عقلیہ و نقلیہ میں اِنتہا کو پہنچے ہوئے اور توحید وجودی و علومِ طریقت کے اعلیٰ یادگار اور استغراق و مشاہدۂ ذات میں کامل الحیار اور ملاحظہ صفات سے کنارہ کش تھے۔ آپ سے بین کرامات اور عمدہ اوصاف اور پسندیدہ خصلتیں اور بزرگ صفتیں ظاہر ہوئیں۔[7]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ عبد الرحمٰن پرواز اصلاحی: مخدوم علی مہائمی، حیات آثار و افکار، صفحہ 25، مطبوعہ دہلی، 1976ء
- ↑ عبد الرحمٰن پرواز اصلاحی: مخدوم علی مہائمی، حیات آثار و افکار، صفحہ 26، مطبوعہ دہلی، 1976ء
- ↑ کشف المکتوم من حالات فقیہ المخدوم
- ↑ محمد یوسف کھتری: حضرت شیخ مخدوم علی فقیہ مہائمی، صفحہ 14 تا 16۔ مطبوعہ پٹنہ، 2002ء
- ↑ رسالہ ضمیر الانسان، صفحہ 36۔
- ↑ محمد یوسف کھتری: حضرت شیخ مخدوم علی فقیہ مہائمی، صفحہ 24۔ مطبوعہ پٹنہ، 2002ء
- ↑ تاریخ النوائط، باب چہارم، فصل دوم، صفحہ 360۔