"غزوہ بدر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← کر دیا؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 69:
رات بھر قریشی لشکر عیاشی و بدمستی کا شکار رہا۔ خدا کے نبی نے خدا کے حضور آہ و زاری میں گزاری اور قادر مطلق نے فتح کی بشارت دے دی۔ جس طرف مسلمانوں کا پڑاؤ تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور ریت مسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے مضر ثابت ہو سکتی تھی۔ لیکن خداوند تعالٰی نے باران رحمت سے مسلمانوں کی یہ دونوں دقتیں دور کر دیں۔ ریت جم گئی اور قریشی لشکر کے پڑاؤ والی مقبوضہ چکنی مٹی کی زمین پر کیچڑ پیدا ہو گیا۔
 
[[فائل:The Message – Meccan Army.jpg|تصغیر|فلم دی میسیج کا منظر، لشکر{{زیر}} کفار میدان میں آرہا ہے|ربط=Special:FilePath/The_Message_–_Meccan_Army.jpg]]
 
17 [[رمضان المبارک]] [[2ھ]] ([[17 مارچ]] [[624ء]]) کو فجر کے بعد آنحضرت {{درود}} نے جہاد کی تلقین کی۔ آنحضرت {{درود}} کے ارشاد کے مطابق انہوں نے صف بندی کی اور آہن پوش لشکر کو شکست دینے کا آہنی عزم لے کر میدان کی طرف چلے۔ قریشی لشکر تکبر و غرور میں بدمست نسلی تفاخر کے نعرے لگاتا ہوا سامنے موجود تھا۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔ ابوبکر اپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور حذیفہ کو اپنے بات عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔ عرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مدمقابل طلب کیا۔ مقابلے پر حضرت عمر کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ میدان میں نکلے اور مبارز طلب کیے۔ تین انصاری صحابہ میدان میں نکلے لیکن ان تینوں نے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا اے محمد{{درود}} ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ کے ارشار پر [[حمزہ بن عبدالمطلب|حضرت حمزہ]]، [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] اور [[حضرت عبیدہ]] مقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ’’ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو‘‘مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرت حمزہ نے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرت علی نے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ اس دوران میں عتبہ اور حضرت عبید ہ نے ایک دوسرے پر بھرپور وار کیا اور دونوں زخمی ہو کر گر پڑے۔ [[علی بن ابی طالب|حضرت علی]] اپنے مدمقابل سے فارغ ہو کر عتبہ کی طرف لپکے اور ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کرکے حضرت عبیدہ کو لشکر میں اٹھا لائے۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔
سطر 138:
== مدینہ میں اسلام کی مزید اشاعت ==
 
مدینہ میں [[بنو اوس]] اور [[بنو خزرج]] قبائل کے بہت سے لوگوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا اور وہ ہوا کا رخ دیکھ رہے تھے۔ 313 کے ہاتھوں ایک ہزار قریشی سرداروں کی شکست نے اپنان پر لات و منات و عزی اور ہبل کی قوت کا کھوکھلا پن واضح کر دیا ۔
 
== منافقین کا گروہ ==