"سورہ یوسف" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م املا کی درستگی
م Bot: Fixing redirects
سطر 19:
}}
 
[[قرآن|قرآن مجید]] کی 12 ویں سورت جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت [[محمد {{درود}}]] کی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی۔
 
== زمانۂ نزول و سبب{{زیر}} نزول ==
سطر 58:
== مباحث و مسائل ==
یہ دو پہلو تو اس سورت میں مقصدی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس قصے کو بھی قرآن مجید قصہ گوئی و تاریخ نگاری کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے قاعدے کے مطابق وہ اسے اپنی اصل دعوت کی تبلیغ میں استعمال کرتا ہے۔
وہ اس پوری داستان میں یہ بات نمایاں کرکے دکھاتا ہے کہ [[ابراہیم علیہ السلام|حضرت ابراہیم]]، [[اسحاق علیہ السلام|حضرت اسحاق]]، [[یعقوب علیہ السلام|حضرت یعقوب]] اور [[یوسف علیہ السلام|حضرت یوسف]] علیہما السلام کا دین وہی تھا جو محمد{{درود}} کا ہے اور اسی چیز کی طرف وہ بھی دعوت دیتے تھے جس کی طرح آج محمد{{درود}} دے رہے ہیں۔
پھر وہ ایک طرف حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کے کردار اور دوسری طرف برادران{{زیر}} یوسف، قافلۂ تجار، عزیز مصر، اس کی بیوی، بیگمات مصر اور حکام مصر کے کردار ایک دوسرے کے مقابلے میں رکھ دیتا ہے اور محض اپنے انداز{{زیر}} بیاں سے سامعین و ناظرین کے سامنے یہ خاموش سوال پیش کرتا ہے کہ دیکھو، ایک نمونے کے کردار تو وہ ہیں جو اسلام، یعنی خدا کی بندگی اور حساب{{زیر}} آخرت کے یقین سے پیدا ہوتے ہیں، اور دوسرے نمونے کے کردار وہ ہیں جو کفر و جاہلیت اور دنیا پرستی اور خدا و آخرت سے بے نیازی کے سانچوں میں ڈھل تیار ہوتے ہیں۔ اب تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ وہ ان میں سے کس نمونے کو پسند کرتا ہے۔
پھر اس قصے سے قرآن حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی{{ا}} جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہوکر رہتا ہے۔ انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بلکہ بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر ماردیا مگر نتیجے میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹادیا۔ مگر فی الواقع انہوں نے یوسف کو ا{{پیش}}س بام عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لا کھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انہوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انہیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کو قید خانے میں بھجوا کر اپنے نزدیک تو ان سے انتقام لے رہی تھی مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تخت سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرمانروائے ملک کی مربیہ کہلانے کے بجائے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اٹھانی پڑی۔ یہ محض دو چار مستثنی{{ا}} واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی بلکہ دنیا جس تدبیر کو اس کے گرانے کی نہایت کارگر اوریقینی تدبیر سمجھ کر اختیار کرتی ہے، اللہ اسی تدبیر سے اس کے اٹھنے کی صورتیں نکال دیتا ہے اور ان لوگوں کے حصے میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا جنہوں نے اسے گرانا چاہتا تھا اور اسی طرح اس کے برعکس خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں الٹی پڑتی ہیں اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
سطر 67:
 
اس قصے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصرا{{دوزبر}} اس کے متعلق کچھ تاریخی و جغرافیائی معلومات بھی ناظرین کے پیش نظر رہیں:
حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت [[یعقوب علیہ السلام]] کے بیٹے، حضرت [[اسحاق علیہ السلام]] کے پوتے اور حضرت [[ابراہیم علیہ السلام]] کے پڑ پوتے تھے۔ [[کتاب مقدس|بائبل]] کے بیان کے مطابق (جس کی تائید قرآن کے اشارات سے بھی ہوتی ہے) حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے چار بیویوں میں سے تھے۔ حضرت یوسف اور ان کے چھوٹے بھائی [[بن یامین]] ایک بیوی سے اور باقی دس دوسری بیویوں سے تھے۔
فلسطین میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی جائے قیام [[حبرون]] (موجودہ [[الخلیل]]) کی وادی میں تھی جہاں حضرت اسحاق اور ان سے پہلے حضرت ابراہیم رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت یعقوب کی کچھ زمین سکم (موجودہ [[نابلوس]]) میں بھی تھی۔
بائبل کے علماء کی تحقیق اگر درست مانی جائے تو حضرت یوسف کی پیدائش 1906 قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں ہوئی اور 1890 ق م کے زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا جس سے اس قصے کی ابتدا ہوتی ہے یعنی خواب دیکھنا اور پھر کنویں میں پھینکا جانا۔ اس وقت حضرت یوسف کی عمر سترہ برس تھی۔ جس کنویں میں وہ پھینکے گئے وہ بائبل اور تلمود کی روایات کے مطابق سکم کے شمال میں دوتن (موجودہ د{{پیش}}ثان) کے قریب واقع تھا اور جس قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا وہ جلعاد (موجودہ [[اردن]]) سے آرہا تھا اور مصر کی طرف عازم تھا۔ (جلعاد کے کھنڈر اب بھی دریائے اردن کے مشرق میں وادی الیابس کے کنارے واقع ہیں)
سطر 80:
{{سورت
|12
|[[سورہ ہودھود|ہود]]
|[[الرعد]]
}}