نواب بیگم فیض النساء چودھرانی (1834ء تا 1903ء) ہومنا آباد کی زمیندار تھیں جو آج کل بنگلہ دیش کے ضلع کومیلا کی پشم گاؤں ریاست ہے۔وہ خواتین کی تعلیم اور دوسرے سماجی کاموں کے لیے بہت مشہور ہیں۔ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں 1889ء میں ملکہ وکٹوریا نے فیض النساء کو "نواب" کے لقب سے نوازا۔ اس لقب "نواب" نے انھیں جنوبی ایشیا کی پہلی نواب خاتون کا اعزاز بخشا۔[3][4][5][6]

نواب فیض النساء
(بنگالی میں: ফয়জুন্নেসা চৌধুরানী ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نواب
دور حکومت 1883–1903
معلومات شخصیت
پیدائش 1834
پشچم گاؤں، ہمنآباد پرپگنہ، بنگال پریزیڈنسی، برطانوی راج (موجودہ لاکسام وپازیلا، بنگلہ دیش)
وفات 1903ء (عمر 68–69)
Pashchimgaon, Homnabad Pargana, بنگال پریزیڈنسی، British Raj
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات محمد غازی
والد احمد علی چودھری اور شہزادہ مرزہ اورنگزیب
والدہ بیگ معار فالنسا چودھرانی
نسل ارشاد النسا چودھرانی
بدرالنسا چودھرانی
دیگر معلومات
پیشہ مصنفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان بنگلہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات

فیض النساء کا علمی و ادبی کام 1857ء کے بعد سے تعلق رکھتا ہے جب مسلمان ہر طرف سے تنزلی کا شکار تھے۔ فیض النساء نے اس دور میں اپنی تہذیب کو مد نظر رکھتے ہوئے خواتین کی تعلیم کے لیے اسکول قائم کرنا شروع کیے۔ اس طرح انھوں نے مسلمان خواتین کو تعلیم سے روشناس کروا کے ناامید مسلمانوں میں اعتماد و مضبوطی کے اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کی۔

مسلمان خواتین کی تعلیم کی حامی، ایک ہمدرد اور سماجی کارکن کے طور پر کام کرنے والی فیض النساء کومیلا میں پیدا ہوئیں جو آج کل کے بنگلہ دیش میں واقع ہے۔ ان کی شادی اپنے دور پرے کے کزن اور پڑوسی زمیندار، محمد غازی سے 1860ء میں ہوئی۔ فیض النساء اس کی دوسری بیوی تھیں اور صرف دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد انھوں نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ان کی بیٹیوں کے نام ارشد النساء اور بدرالنساء ہیں۔ 1883ء میں اپنی والدہ کی وفات کے بعد وہ زمیندار بن گئیں اور پھر سماجی اور فلاحی کاموں میں ان کی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا اور اس طرح 1889ء میں انھیں برٹش انڈیا کی پہلی نواب خاتون ہونے کا اعزاز ملا۔ انھوں نے دوسرے ادبی کام بھی سر انجام دیے جیسے سنگیت سار، سنگیت لاہاری اور تتوا و جاتیا سنگیت وغیرہ۔ وہ اپنے پرخلوص علمی اور فلاحی کاموں، اسکولوں، مدرسوں اور ہسپتالوں کے قیام کے لیے جانی جاتی ہیں۔

ابتدائی زندگی اور پس منظر:
چودھرانی 1834ء میں پشم گاؤں جو ضلع کومیلا میں لکشم کے زیر تحت تھا، میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد احمد علی چودھری تھے جو شاہزادہ مرزا اورنگزیب، نواب، خان بہادر، مغل شہنشاہوں کی اولاد اور ہومنا آباد پشم گاؤں ریاست کے زمیندار کے طور پر بھی مشہور تھے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb161670243 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. https://en.wikisource.org/wiki/Page:The_Indian_Biographical_Dictionary.djvu/48
  3. "Famous Bengali: Nawab Faizunnesa Chowdhurani … | Bangladesh"۔ Mybangladesh.tumblr.com۔ 12 جون 2012۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 ستمبر 2013 
  4. "বাংলা সাহিত্যে মুসলমান নারী"۔ Daily Sangram۔ 04 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 ستمبر 2013 
  5. "নারী মহীয়সী"۔ Jaijaidin۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 ستمبر 2013