ویاس (سنسکرت: व्यास؛ لفظی معنی مؤلف) ہندو روایات میں ایک مرکزی اور قابل احترام ہستی ہیں۔ انھیں بعض اوقات وید ویاس (वेदव्यास یعنی وہ شخص جس نے ویدوں کی زمرہ بندی کی) یا کرشن دویپاین (ان کی سانولی رنگت اور مقام پیدائش کے باعث) بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر انھیں مہا بھارت کا مصنف بھی تصور کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ ان کا ایک کردار بھی اور ویدوں اور پُرانوں کو تحریر کرنے والا بھی۔ ویاس کو سات چِرَن جیوِنوں (طویل عمر پانے والوں، لافانی ہستیوں) میں سے بھی ایک تصور کیا جاتا ہے، جو ہندو عقائد کے مطابق ابھی بھی زندہ ہیں۔

ویاس
(سنسکرت میں: व्यास ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
شہریت کرو مملکت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد پانڈو ،  دھریتراشتر   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  فلسفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سنسکرت   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں مہا بھارت ،  بھگوت گیتا   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

وشنو پران کے مطابق، "وید ویاس" کا لقب ویدوں کے ان مؤلفین کو دیا گیا ہے جو وشنو کے اوتار ہیں؛ تاحال اس لقب کے حامل 28 افراد نمودار ہو چکے ہیں۔ ان 28 افراد کے نمودار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہر یُگ میں برہما کا دور آتا ہے۔ وید ویاس، جو خدا کا جنم بھی ہیں — برہما کے نمائندے کے طور پر زمین پر آتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہم 7ویں منو جسے ویواس وتامنو کہا جاتا ہے کی شویتا وراہا کلپا میں ہیں اور 27 مہا یُگ مکمل ہو چکے ہیں؛ اور موجودہ دور میں ہم 28ویں کل یُگ کے آخری مرحلے میں ہیں۔[1][2]

گرو پورنیما (برج قوس میں وقوع پزیر ہونے والا ماہِ کامل یا پورا چاند) ان سے منسوب ہے۔ اسے ویاس پورنیما کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ یہ ایسا دن ہے جب ان کی پیدائش بھی ہوئی اور اسی دن انھوں نے ویدوں کی زمرہ بندی بھی کی۔[3][4]

مہا بھارت میں تذکرہ ترمیم

پہلی مرتبہ ویاس بہ حیثیت مؤلف اور ایک اہم کردار کے طور پر مہابھارت میں نمودار ہوتے ہیں۔یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بھگوان ویشنو کا روپ ہیں، جو دواپار یُگ میں نمودار ہوئے – تاکہ ویدوں کا تمام علم کا تحریری شکل میں مہیّا ہو سکے ، جو اس دور میں زبانی طور پر دستیاب تھا۔وہ ستیاوتی جو مچھیرے دوشا راج لے پالک بیٹی تھیں [5] اوردیس دیس آوارہ گھومنے والے والے دانش ور پاراشارا(جن کو پہلے پُران، ویشنو پُران کا مصنف تسلیم کیا جاتا ہے) کے بیٹے تھے۔ان کے مقامِ پیدائش کے حوالے سے دو آراء پائی جاتی ہیں۔ایک رائے کے مطابق وہ مغربی نیپال میں واقع تاناہون ڈسٹرکٹ میں پیدا ہوئے، تانا ہون ڈسٹرکٹ کے گانداکی علاقے کی ویاس میونسپلٹی میں؛ اور ان کا نام وید ویاس ان کے مقام پیدائش کی نشان دہی کرتا ہے۔ دوسری رائے کے مطابق وہ اترپردیش، ہندوستان میں کلپی کے نزدیک دریائے جمنا کے ایک جزیرے پر پیدا ہوئے۔[6] ویاس گہری سانولی رنگت کے حامل تھے اور لہٰذا انھیں کرشن کہا جا سکتا ہے—اور دوائی پایان بھی یعنی "جزیرے پر پیدا ہونے والا"۔

امبیکا سے پیدا ہونے والے دھریتراشتر، امبالیکا سے پیدا ہونے والے پانڈو اور خادمہ سے پیدا ہونے والے ویدورا – ویاس کی روحانی قوّتوں (سِدّھِیوں) کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔[7]

ویاس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جدید دور کے اتر کھنڈ میں دریائے گنگا کے کنارے رہا کرتے تھے۔یہ مقام دانش ور وَشیستا کے ساتھ ساتھ مہابھارت کے پانچ بھائیوں ، پانڈوؤں کی بھی قیام گاہ تھی۔[8]

مہابھارت کے مطابق، مہا رشی ویاس ، ان کے چیلوں اور دانش ور وشوا متر نے فیصلہ کیا کہ کُرُک شیترجنگ کے بعد ٹھنڈے اور پُر سکون ماحول میں سکونت اختیار کی جائے۔پُر سکون جگہ کی تلاش میں ویاس ڈانڈاکا جنگل پہنچے ، علاقے کے پُر سکون ماحول سے متاثر ہوئے؛ اور اس جگہ کا انتخاب کیا۔چونکہ مہا رشی ویاس زیادہ تر وقت تپسّیا یا عبادت میں گزارتے تھے، تو اس مقام کو "واسار" کا نام دیا گیا؛جو علاقے میں مراٹھی زبان کے اثرونفوذ کے باعث باسار (تلنگانہ میں) بن گیا ۔

ابتدائی زندگی ترمیم

ویشنو پُران کے مطابق شری ویاس دیو (کرشن دوائی پائن ویاس) یا وید ویاس، پارا شار اور ستیا وتی کے سپوت – اور مہابھارت کے مصنف – دریائے جمنا کے جزیرے پر کلپی کے مقام پر پیدا ہوئے۔[9]

روایات کے مطابق، اپنے پچھلے جنم میں – ویاس ایک دانش ور، اپانتاراتاماس تھے – جو اس وقت پیدا ہوئے جب بھگوان ویشنو نے "بھُو" کیا آواز نکالی۔ وہ بھگوان ویشنو کے بھگت تھے۔ اپنی پیدائش کے وقت سے ہی وہ ویدوں، دھرم شاستروں اور اُپانیشدوں کا علم رکھتے تھے۔ ویشنو کے احکامات پر انھوں نے دوبارہ ویاس کے طور پر جنم لیا۔

ویاس کے والد دانش ور پاراشار تھے جو دانش ور وَشیستا کے پوتے تھے۔ویاس کی پیدائش سے پہلے پاراشار نے بھگوان شیو کی سخت تپسّیا کی تھی۔ شیو نے بشارت دی تھی کہ پاراشار کا بیٹا وشیستا کے مساوی برہما رشی ہوگا؛ اور اپنے علم کی وجہ سے مشہور ہو گا۔پاراشار اور ستیاوتی سے ویاس پیدا ہوئے۔ ستیا وتی نے حمل ٹھہرتے ہی فوری طور پر ویاس کو جنم دے دیا۔ ویاس بالغ ہوئے اور اس کے بعد گھر بار چھوڑ دیا – اپنی والدہ سے یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ جب بھی ان کی والدہ کو ان کی ضرورت پڑے گی، وہ ان سے ملنے آجائیں گے۔

ویاس نے اپنا علم چار کماروں، نرادوں اور بہ ذات خود بھگوان برہما سے حاصل کیا۔و(حوالے کی ضرورت) و

وید ویاس ترمیم

روایتی طور پر ہندو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ویاس نے قدیم واحد وید کی تین صحیفوں میں زمرہ بندی کی – اور یہ کہ چوتھا صحیفہ – جس کو اتھر وید کے نام سے جانا جاتا ہے، کو وید کے طور پر بہت بعد میں تسلیم کیا گیا۔اس لیے انھیں وید ویاس کہا جاتا تھا یا "ویدوں کی زمرہ بندی کرنے والا"؛ زمرہ بندی ایسی ایک خصوصیت ہے جس نے لوگوں کو وید کی الوہی تعلیمات سمجھنے میں مدد دی۔ ویاس کا مطلب ہے توڑنا یا زمرہ بندی کرنا، فرق ظاہر کرنا ،یا بیان کرنا۔

ویاس کے بارے میں ویشنو پُران میں ایک نظریہ ہے۔ [10] کائنات کے بارے میں ہندو نظریہ دائرہ جاتی حرکت یا گردشی اصول پر مبنی ہے، جو وجود میں آنے کے بعد فنا ہو جاتی ہے۔ ہر گردشی سفر کی سربراہی منوؤں کی ایک تعداد کرتی ہے ، ایک منو ہر من ونتر کے لیے—جس کے چار ادور ہیں، نیکی اور اچھائی کے کم ہوتے ہوئے یُگ۔ دواپار یُگ تیسرا یُگ ہے۔ ویشنو پُران (کتاب 3، باب 3) کہتی ہے:

دنیا کے ہر تیسرے دور (دواپار) میں ، ویشنو، ویاس کی شکل میں – انسانیت کی اچھائی کو ترقی دینے کے لیے – ویدوں کی زمرہ بندی کرتا ہے، جس کو باقاعدہ طور پر ایک کے بہ جائے بہت سارے میں بانٹا جاتا ہے۔ فانی انسانوں کی صلاحیت، توانائی اور عمل کرنے کی طاقت کو دیکھتے ہوئے ، وہ ویدوں کی چار حصوں میں زمرہ بندی کرتا ہے – تاکہ وہ اپنی استعداد کے مطابق اس سے سیکھ سکیں؛ اور جو انسانی شکل وہ اختیار کرتا ہے – زمرہ بندی کرنے کے لیے، اس کو وید ویاس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ موجودہ من ونتر اور شاخوں کے مختلف ویاسوں میں جو انھوں نے تعلیم دی ہے، اس کا آپ کو لازمی طور پر اندراج ملے گا۔ویدوں کو اٹّھائیس مرتبہ ویوس وتا من ونتر میں عظیم رشیوں کی جانب سے ترتیب دیا جا چکا ہے۔۔۔ نتیجے کے طور پر آٹھ اور بیس ویاس انتقال کر چکے ہیں؛ جن کی جانب سے، متعلقہ ادوار میں—ویدوں کی چار حصّوں میں زمرہ بندی کی جا چکی ہے۔ پہلی زمرہ بندی سوایمبھُو (برہما) نے بہ ذات خود کی؛ دوسری میں ، ویدوں کے ترتیب کار (ویاس) ، پرجا پتی تھے۔۔۔ (اور اس طرح اٹّھائیس تک تعداد پہنچی)۔[11]

ویشنو پُران کے مطابق، گرو درونا کے سپوت ، رشی آس وتّا ہام اگلے دانش ور ویاس (لقب) بنیں گے، جونتیجتاً 7ویں من ونتر کے 29 ویں مہا یُگ میں وید کی زمرہ بندی کریں گے۔[12]

مہابھارت کے داستان گو ترمیم

روایتی طور پر ویاس کو اس کہانی کے داستان گو کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کا تذکرہ اس میں اہم کردار کے طور پر بھی ہے۔روایت کے مطابق دانش ور ویاس ، ستیا وتی اور پاراشار کے سپوت تھے۔ اپنی ابتدائی زندگی میں ستیاوتی ایک مچھیرن تھیں جو کشتی چلایا کرتی تھیں۔ ایک روز، دانش ور پاراشار کو یوجنا میں شرکت کی جلدی تھی ۔ ستیا وتی نے دریا پار کرنے میں ان کی مدد کی۔ اس بات پر پاراشار نے ستیاوتی کو ایک منتر بتایا جس کے نتیجے میں انھوں نے ایک بیٹے کو جنم دیا ، جو دانش وری اور تمام اچّہی خصوصیات سے آراستہ تھا۔ ستیا وتی نے فوری طور پر منتر پڑھااور لہٰذا ویاس نے جنم لیا۔ ستیاوتی نے اس واقعے کو خفیہ رکھا، یہاں تک کہ راجا شانتانو کو بھی نہیں بتایا۔ بہت سال کے بعد شانتانو اور ستیا وتی کے دو بیٹے ہوئے، جن کے نام چترن گد اور وچتر ویریا تھے۔ ایک جنگ میں چترن گد کو گندھارووں نے قتل کر دیا، جبکہ ویچیترویریا اس وقت کم زور اور بیمار تھے۔ ستیا وتی نے بھیشم سے کہا کہ وہ ویچیتر ویریا کے لیے رانیاں لے کر آئیں۔ بھیشم نے کاشی (جدید دور کا وارانسی) کی جانب منعقد کردہ سوئمبر میں شرکت کی اور تمام راجاؤں کو شکست دے دی۔ انھوں نے تین راج کماریوں ، امبا، امبیکا اور امبالیکا کو اغواء کر لیا۔ امبا بعد میں بھیشم کے لیے پریشانی کی وجہ بنیں۔ امبا، شالوا کے راج کمار سے محبّت کرتی تھیں اور جب بھیشم کو اس بارے میں پتا چلا ، تو انھوں نے امبا کو شالوا جانے کی اجازت دے دی، جس نے انھیں مسترد کر دیا۔ امبا واپس بھیشم کے پاس آئیں اور بھیشم سے کہا کہ وہ ان سے شادی کر لیں، جو بھیشم اپنے وعدے کی وجہ سے نہیں کر سکتے تھے۔امبا کسی کامیابی کے بغیر بھیشم اور شالوا کے حوالے سے کش مکش کا شکار رہیں۔ اس وجہ سے انھوں نے بھیشم کو قتل کرنے کا عہد کیا۔ شادی کی تقریب کے دوران، ویچیترویریاغش کھا کر گر پڑے اور انتقال کر گئے۔ ستیاوتی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہ کیسے شاہی خاندا ن کو مٹنے سے بچایا جائے۔ انھوں نے بھیشم سے کہا کہ وہ دونوں رانیوں سے شادی کر لیں؛ بھیشم نے انکار کر دیا، کیونکہ وہ انھیں اور ان کے پتا کو وچن دے چکے تھے کہ وہ کبھی شادی نہیں کریں گے۔لہٰذا وہ راجیہ یا ریاست کے وارث کو جنم نہیں دے سکتے تھے۔بعد میں ستیاوتی نے بھیشم کواپنی گذشتہ زندگی کے راز وں کے بارے میں بتایا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ویاس کو ہستینہ پور لے کر آئیں۔ دانش ور ویاس کی شخصیت سخت گیر تھی اور وہ دیکھنے میں نا خوش گوار تاثر چھوڑتے تھے۔ لہٰذا انھیں دیکھ کر امبیکا ڈر گئیں اور اپنی آنکھیں بند کر لیں، جس کے نتیجے میں ان کی نسل نابینا پیدا ہو ئی۔ پیدا ہونے والا بچّہ دھریتارشتر تھا۔ دوسری رانی، امبالیکا کا ویاس سے ملاقات پر وزن کم ہو گیا ؛ اس کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہوا ، اس کا وزن کم تھا۔ اس کا نام پانڈو تھا۔ اس صورت حال پر ستیاوتی کے کان کھڑے ہوئے؛ انھوں نے ویاس سے درخواست کی کہ وہ امبیکا سے دوبارہ ملاقات کریں اور ان کو ایک اور وارث سے نوازیں۔ امبیکا نے اس کے بہ جائے اپنی خادمہ کو ویاس سے ملاقات کے لیے بھیجا۔ فرض شناس خادمہ پُر سکون اور شانت تھی؛ اس سے صحت مندبچّہ پیدا ہوا، جس کا نام ویدورا تھا۔ جہاں یہ سب ویاس کے بیٹے تھے، ایک اور بیٹا ، شوکا ان کی پتنی پنجالا (واٹیکا) سے پیدا ہوا،[13] جو دانش ور جابالی کی بیٹی تھیں۔ شوکا ، ویاس کا اصل روحانی وارث تھا۔ داستان میں شوکا کبھی کبھارنوجوان کورو راج کماروں کی روحانی راہ نمائی کے لیے نمودار ہوتے ہیں۔

مہابھارت کی پہلی کتاب میں ویاس ، گنیش سے کہتے ہیں کہ تحریر لکھنے میں گنیش ان کی معاونت کریں۔گنیش پہلے سے یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ وہ معاونت اس صورت میں کریں گے اگر ویاس بنا رُکے داستان بیان کریں۔ ویاس نے جواب میں یہ شرط عائد کی کہ گنیش اشلوک تحریر کرنے پہلے ان اشلوکوں کو سمجھیں۔اس طرح ویاس نے تمام مہابھارت ، تمام اُپانیشدوں اور 18 پُرانوں کی داستان بیان کی، جبکہ بھگوان گنیش نے انھیں تحریر کیا۔

ویاس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اس داستان پر مراقبہ اور اس کی تصنیف پنجاب کے خطّے میں دریائے بیاس (وپاس) کی پہاڑیوں میں کی۔و(حوالے کی ضرورت)و

ویاس کی جے ترمیم

ویاس کی جے(لفظی معنی، "فتح") – مہابھارت کی جان – دھریتارشتر (کورو راجا اور کوروؤں کا باپ، جنھوں نے کُرُک شیتر جنگ میں پانڈوؤں کی مخالفت کی) اور ان کے مشیر و کوچوان، سنجے کے مابین مکالمہ ہے۔ سنجے کُرُک شیتر جنگ کے اہم نکات مرحلہ وار بیان کرتے ہیں، جو اٹّھارہ یوم لڑی گئی ۔ دھریتا رشتر بعض اوقات سوالات پوچھتے ہیں اور شبہات کا اظہار کرتے ہیں؛ بعض اوقات افسردہ ہوتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ جنگ نے ان کے خاندان، دوستوں اور عزیزوں پر کتنی تباہی نازل کی۔

ابتدا میں سنجے زمین کے مختلف برِّ اعظموں ، اورمختلف سیّاروں کی خصوصیات بیان کرتے ہیں اور بھارت کی راجیہ یا ریاست کے آبا و اجداد پر توجّہ مرکوز کرتے ہیں، جو ہندوستان، نیپال، تبّت، پاکستان، افغانستان، سری لنکا، ایران، کمبوڈیا اور جنوب ایشیائی برِّصغیر میں میں متعدد دوسرے ممالک پر مشتمل ہیں۔طویل اور تفصیلی فہرستیں دی گئی ہیں، جو بھارت ورش کے سیکڑوں ریاستوں، قبیلوں، صوبوں، شہروں، قصبوں، دیہاتوں، دریاؤں، پہاڑوں، جنگلوں، وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ مزید یہ کہ وہ عسکری تشکیل کی تفصیلات بیان کرتے ہیں ، جو ہر فریق کی جانب سے ہر یوم اختیار کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی بہادروں اور ان کی جنگوں کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔ویاس کی جے کے اٹّھارہ ابواب بھگوَت گیتا کو تشکیل دیتے ہیں، جو ہندو مت میں ایک مقدّس تحریر ہے۔جے مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہے، جیسے جغرافیہ، تاریخ، عسکری فنون، روحانیت اور اخلاقیات ۔

اُگرَس راؤ ساؤتی کی مہابھارت ترمیم

ویاس کے کام کی آخری شکل مہابھارت ہے۔ اس کو اُگرَس راؤ ساؤتی کی جانب سے رشیوں کی سبھا میں – نائمیشا جنگل میں بہ حیثیت داستان گو، داستان کی شکل میں بیان کیا گیا ہے۔ ان رشیوں نے 12 سالہ قربانی میں شرکت کی تھی، جس کو ساؤناکا اور کُولا پتی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

تحریر کا حوالہ ترمیم

مہابھارت میں ایک روایت ہے، جس میں ویاس کی جانب سے اپنے کا م کو تحریر کرنے یا اس کو محفوظ کرنے کی خواہش کا اظہار ہے: برہما(کائنات کا خالق) ویاس کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کے لیے گنپتی کی مدد لیں ۔ گنپتی ویاس کی جانب سے ان کے حافظے کی بنیادپر بیان کی گئی شاعری تحریر کرتے ہیں۔ اس طرح مہابھارت تحریری شکل میں وجود میں آتی ہے۔

تاہم، اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ تحریر بہت پہلے وجود میں آئی تھی، جس کی بنیاد Painted Grey Wareculture میں Styli کے آثارِ قدیمہ کے حاصلات ہیں، جو 5000 قبلِ مسیح اور 3000 قبلِ مسیح کے درمیان کا عرصہ ہے[14][15][16] اوربرہمی تحریر کے آثارِ قدیمہ پر مبنی شواہد ہیں، جو کم ازکم 300 قبلِ مسیح کے دور سے استعمال کیے جاتے تھے۔[17] (بے قاعدہ ملاوٹ)

دیگر تحریروں کا تذکرہ ترمیم

ویاس کو اس بات کو سہرا بھی جاتا ہے کہ انھوں نے اٹّھارہ اہم پُران تحریر کیے۔ ان کے بیٹے، شوکا اہم پُران، بھَگوَت پُران کے داستان گو ہیں۔

یوگ بھاشیہ ، جو یوگ ستُروں اور پتانجلی پر تبصرہ ہے—اس کا مصنف ویاس کو قرار دیا جاتا ہے۔

برہما سُترکا مصنف بدارایَن کو کہا جاتا ہے – جو ان کو ہندو فلسفے کے شکھا گہنا مکتبہء فکر کا وکیل بناتا ہے – یعنی کہ ویدانت۔ ویش نواس، ویاس کو بدارایَن سے جوڑتے ہیں،کیونکہ جس جزیرے پر ویاس کی پیدائش ہوئی ، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بَدَرا یا بیروں (Indian jujube / Ber / Ziziphus mauritiana)کے پیڑوں سے بھرا ہوا ہے ۔ [18] بعض جدید مؤرخ وکون و، گو کہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ مختلف شخصیات تھے۔

ایک سے زیادہ ویاس ہو سکتے ہیں یا ویاس کا نام بعض اوقات متعدد قدیم تحریروں کو قابل اعتماد بنانے کے لیے دیا گیا ہو۔[19] زیادہ تر قدیم ہندوستانی ادب طویل زبانی روایات کا نتیجہ ہے، جس میں ایک واحد مصنف کے بہ جائے وسیع ثقافتی اہمیت زیادہ ہے۔تاہم، ویاس کے سر اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ادب کو دستاویزی، تالیفی، زمرہ بندی، تحریری تبصرہ جاتی شکل دی۔

سکھ مت میں تذکرہ ترمیم

برہم اوتار میں دسم گرنتھ (سکھوں کا دوسرا صحیفہ) کی تحریروں میں ایک تحریر میں گرو گوبند سنگھ رشی ویاس کو برہما کے اوتار کے طور پر بیان کرتے ہیں۔[20] انھیں برہما کے پانچویں جنم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ گرو گوبند سنگھ نے رشی ویاس کی تحریروں کا مٹصر اقتباس تحریر کیا ہے، جو عظیم راجاؤں – منو، پریتھو، بھرتھ، جوجاٹ، بین، منداتا، دلیپ، رگھوراج اور اَج [20][21] کے بارے میں ہے – اور ویاس کو وید کے علم کا خزانہ کہا ہے۔[22]

مزید دیکھیے ترمیم

  • گرو گیتا
  • پاراشار

حوالہ جات ترمیم

  1. Jeaneane D. Fowler (2012)۔ The Bhagavad Gita: A Text and Commentary for Students۔ Sussex Academic Press۔ صفحہ: 177۔ ISBN 9781845193461۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019 
  2. Bibek Debroy (2011)۔ The Mahabharata۔ 4۔ Penguin۔ صفحہ: xviii۔ ISBN 9780143100164۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019 
  3. Awakening Indians to India۔ Chinmaya Mission۔ 2008۔ صفحہ: 167۔ ISBN 81-7597-434-6۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019 
  4. What Is Hinduism?: Modern Adventures Into a Profound Global Faith۔ Himalayan Academy Publications۔ صفحہ: 230۔ ISBN 1-934145-00-9 
  5. According to legend, Vyasa was the son of the ascetic Parashara and the dasyu Satyavati and grew up in forests, living with hermits who taught him the Vedas. It is important to mention here that as per the divine plan of Lord Brahma to eradicate the curse of Satyavati which she inherited from her mother, through the greater power of "Brahmatapa", the great Parashar was forced & ordered to establish the physical relation with Satyavati,out of which Vyasa born with inherent knowledge of Vedas. fromEncyclopædia Britannica
  6. Essays on the Mahābhārata, Arvind Sharma, Motilal Banarsidass Publisher, p. 205
  7. [Mahabharata]
  8. Sarah Strauss (2002)۔ "The Master's Narrative: Swami Sivananda and the Transnational Production of Yoga"۔ Journal of Folklore Research۔ Indiana University Press۔ 23: 221۔ JSTOR 3814692 
  9. Kalpriya Nagri, Bundelkhand.
  10. Encyclopaedic Dictionary of Puranas, Volume 1 (2001), page 1408
  11. "Vishnu Purana"۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2014 
  12. Vishnu Purana -Drauni or Asvathama as Next Vyasa Retrieved 2015-03-22
  13. Skanda Purāṇa, Nāgara Khanda, ch. 147
  14. S. U. Deraniyagala. Early Man and the Rise of Civilisation in Sri Lanka: the Archaeological Evidence. آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ lankalibrary.com (Error: unknown archive URL)
  15. N. R. Banerjee (1965). The Iron Age in India. New Delhi: Munshiram Manoharlal.
  16. F. Raymond Allchin, George Erdosy (1995). The Archaeology of Early Historic South Asia: Emergence of Cities and States. Cambridge University Press. آئی ایس بی این 0-521-37695-5.
  17. T. S. Subramanian. Skeletons, script found at ancient burial site in Tamil Nadu. آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ orientalthane.com (Error: unknown archive URL) Institute for Oriental Study, Thane.
  18. Madan Gopal (1990)۔ مدیر: K.S. Gautam۔ India through the ages۔ Publication Division, Ministry of Information and Broadcasting, Government of India۔ صفحہ: 74 
  19. The Yoga Sutras of Patanjali. Edwin F. Bryant 2009 page xl
  20. ^ ا ب Dasam Granth, Dr. SS Kapoor
  21. Line 8, Brahma Avtar, Dasam Granth
  22. Line 107, Vyas Avtar, Dasam Granth