خالق باری
خالق باری اردو زبان کی ایک مشہور قدیم لغت ہے جسے اردو کے اولین شعری لغات میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ لغت ایک منظوم کتاب ہے جسے امیر خسرو کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، تاہم اس بات پر محققین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا یہ کتاب واقعی امیر خسرو کی تصنیف ہے یا بعد میں کسی اور نے ان کے نام سے لکھی۔ خالق باری میں زیادہ تر ایسے الفاظ شامل ہیں جو عربی، فارسی، ہندی اور دیگر زبانوں سے اردو میں داخل ہوئے۔ اس کتاب کا مقصد ان الفاظ کی تشریح اور ان کے معانی کو آسان فہم انداز میں پیش کرنا تھا تاکہ قارئین اردو زبان کے مختلف الفاظ کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔[1]
مصنف | امیر خسرو (منسوب) |
---|---|
ملک | ہندوستان |
زبان | اردو، فارسی، عربی، ہندی |
موضوع | لغت |
صنف | منظوم لغت |
تاریخ اشاعت | سولہویں یا سترہویں صدی |
طرز طباعت | کتاب |
تاریخ اور پس منظر
ترمیمخالق باری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سولہویں صدی یا سترہویں صدی کی تصنیف ہے، تاہم اس کی اصل تاریخ اور مصنف کے بارے میں حتمی شواہد موجود نہیں ہیں۔ تاریخی طور پر یہ کتاب اردو اور ہندی بولنے والے طلباء اور علماء کے لیے ایک اہم وسیلہ رہی ہے، جس میں عربی اور فارسی زبان کے الفاظ کے معانی کو اردو میں پیش کیا گیا ہے۔ اس لغت کا استعمال تعلیمی مقاصد کے لیے بھی کیا جاتا رہا ہے اور یہ زبان کے طلبا کو ان کی زبان دانی میں مدد فراہم کرتی رہی ہے۔[2]
مواد اور ساخت
ترمیمخالق باری میں اردو، فارسی، عربی اور ہندی الفاظ کو شاعری کی صورت میں بیان کیا گیا ہے، اور ہر لفظ کا ایک متبادل یا معنی درج ہوتا ہے۔ یہ کتاب زیادہ تر دو لسانی یا چند لسانی لغت کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے، جس میں مختلف زبانوں کے الفاظ اور ان کے معانی شامل ہیں۔ کتاب کا منظوم انداز اسے دیگر لغات سے منفرد بناتا ہے اور اس کی پڑھنے کی دلکشی میں اضافہ کرتا ہے۔[3]
اہمیت
ترمیمخالق باری کو اردو ادب اور لغات کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ یہ اردو زبان کے ابتدائی لغات میں شامل ہے اور اس کا کردار زبان کی ترقی اور فہم میں نمایاں رہا ہے۔ اس کتاب نے اردو زبان کے ابتدائی دور میں زبان کو معیاری شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا، اور آج بھی اسے زبان کے طلباء اور محققین کے لیے ایک قیمتی ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔[4]
خالق باری اور امیر خسرو
ترمیمخالق باری کو روایتی طور پر امیر خسرو کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو کہ دہلی سلطنت کے دور کے ایک مشہور شاعر اور موسیقار تھے۔ تاہم، کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہ کتاب امیر خسرو کے بعد لکھی گئی ہے اور ان سے منسوب کر دی گئی۔ اس حوالے سے مختلف تحقیقات سامنے آچکی ہیں، مگر ابھی تک اس بات کی مکمل تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ کتاب واقعی امیر خسرو کی تصنیف ہے یا کسی اور شاعر کی۔[5]
جدید تحقیق
ترمیمآج کے دور میں بھی خالق باری پر تحقیقات جاری ہیں اور اسے اردو ادب کے قدیم متون میں شمار کیا جاتا ہے۔ جدید لغت نویس اور محققین اس کتاب کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ اس کے مواد، مصنف اور زمانہ تصنیف کے بارے میں مزید مستند معلومات حاصل کی جا سکیں۔[6]