امیر خسرو
امیر خسروفارسی اور اردو کے صوفی شاعر۔ ماہر موسیقی ،انھیں طوطی ہند کہا جاتا ہے۔
امیر خسرو | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1253ء [1][2] پٹیالی [2] |
وفات | 27 ستمبر 1325ء (71–72 سال) دہلی [3][2] |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر [2]، فلسفی ، مصنف [2]، موسیقار [2] |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [2]، ترکی [2]، ہندی [2]، فارسی [4][2]، اردو |
درستی - ترمیم |
نام
ترمیمابو الحسن لقب، یمین الدین نام۔ امیر خسرو عرف۔ والدامیر سیف الدین لاچین قوم کے ایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی (آگرہ) میں سکونت اختیار کی۔
ولادت
ترمیمپیدائش: 1253ء امیر خسرو پٹیالی آگرہ پیدا ہوئے۔ ان کى والدہ ہندوستانی تھیں۔ آٹھ سال کی عمر یتیم ہوئے کچھ عرصہ بعد یہ خاندان دہلی منتقل ہو گیا اور امیرخسرو نے سلطنت دہلی (خاندان غلامان، خلجی اورتغلق) کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا اور برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔
خسرو اور محبوب الہی
ترمیممحبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیاء رضی الله تعالی عنه کے بڑے چہیتے مرید تھے حضرت امیر خسرو ؒ کو بھی مرشد سے انتہائی عقیدت تھی۔ آپ ؒ کو اپنے مرشد سے “محمد کاسہ لیس” کا خطاب بھی ملا
صنف شاعری
ترمیمخسرو نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے ،پہیلیاں، گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگارچھوڑے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ کہتے یہ کہ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید تھے۔ انھیں کے قدموں میں دفن ہوئے۔
فارسی کلام کی مثالیں
ترمیماگر فردوس بر روے زمین است | همین است و همین است و همین است | |
کافر عشقم، مسلمانی مرا در کار نیست | هر رگ من تار گشتہ، حاجت زُنار نیست | |
از سر بالین من برخیز ای نادان طبیب | دردمند عشق را دارو بہ جز دیدار نیست | |
ناخدا بر کشتی ما گر نباشد، گو مباش | ما خدا داریم ما ناخدا در کار نیست | |
خلق میگوید کہ خسرو بتپرستی میکند | آری! آری! میکنم! با خلق ما را کار نیست |
اردو میں دوہے
ترمیمخسرو دریا پریم کا، اُلٹی وا کی دھار | جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار | |
سیج وُہ سونی دیکھ کے رووُوں میں دن رین | پیا پیا میں کرت ہوں پہروں، پل بھر سکھ نا چین |
موسیقی
ترمیمامیر خسرو شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم ساز، طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔ اور فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہی کی ایجاد ہے۔
اردو کی ترویج
ترمیمدنیا میں اردو کا پہلا شعر حضرت امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے ۔
تصانیف
ترمیموفات
ترمیمآپ کی وفات 1325ء میں ہوئی اور خواجہ نظام الدین اولیاء محبوبِ الٰہی رضی الله تعالی عنه کے مزار سے چالیس قدم دور آپ کا مزار مبارک ہے دہلی، ہندوستان۔[6]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13929460p — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب پ ت ٹ عنوان : Nouveau Dictionnaire des œuvres de tous les temps et tous les pays — اشاعت دوم — جلد: 1 — صفحہ: 79 — ISBN 978-2-221-06888-5 — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13929460p
- ↑ مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Амир Хосров Дехлеви
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13929460p — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ شعر العجم، شبلی، جلد 2 صفحہ 107،
- ↑ Bio-bibliography.com - Authors
- E.G. Browne. Literary History of Persia۔ (Four volumes, 2,256 pages, and twenty-five years in the writing)۔ 1998. ISBN 0-7007-0406-X
- Jan Rypka, History of Iranian Literature۔ Reidel Publishing Company. ASIN B-000-6BXVT-K
- Shīrānī، Ḥāfiż Mahmūd. “Dībācha-ye duvum [Second Preface]۔” In Ḥifż ’al-Lisān (a.k.a. Ḳhāliq Bārī)، edited by Ḥāfiż Mahmūd Shīrānī۔ Delhi: Anjumman-e Taraqqi-e Urdū، 1944.
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر امیر خسرو سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |