خفیہ ہندو ان افراد کو کہا جاتا ہے جو عوامی سطح پر کسی اور مذہب کی پیروی کے دعویدار ہوں اور اندرون خانہ ہندو مت سے تعلق رکھتے ہوں۔ جنوبی ایشیا میں یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی تھی جب جبری تبدیلی مذہب کا آغاز ہوا اور ہندوؤں نے ظاہری طور پر اپنے بیرونی استعمار پسند آقاؤں کا مذہب اختیار کیا۔ چنانچہ عہد استعمار میں ایسے کئی افراد گرفتار ہوئے جنھوں نے علانیہ مسیحیت اختیار کر لی تھی لیکن چھپ چھپا کر ہندو رسوم پر عمل بھی کرتے تھے۔ نیز اس بنا پر پرتگیزی استعمار کے دور میں گوا میں متعدد ہندوؤں کو سزائے موت بھی سنائی گئی۔[1][2]

مسلم دور حکومت ترمیم

گوکہ مسلمان دور حکومت میں ہندوؤں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی، ان کے تمام حقوق سرکاری سطح پر محفوظ کر دیے گئے تھے اور ہندوستانی معاشرے میں رواداری اور معاشرت باہمی کی فضا عام تھی لیکن بسا اوقات سیاسی وجوہات کی بنا پر بعض نو مسلم امرا پر خفیہ ہندو ہونے کا الزام لگتا رہا۔ مثلاً خسرو خان پر جس نے ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا تھا اور دکن حملوں کا کماندار تھا، بعض ترک امرا نے خفیہ ہندو ہونے کا الزام عائد کیا۔[3] علاوہ ازیں عزیز احمد لکھتے ہیں کہ متعدد عرب علما بنگال کے اسلام کو ہندومت سے متاثر خیال کرتے تھے اور جزیرہ عرب کے معاشرے کے مطابق اس کی اصلاح کے لیے کوشاں رہے۔[4] تاہم اس قدر طویل مدت میں بھی مسلمان حکمرانوں اور امرا نے عموماً ہندوﺅں کو پریشان نہیں کیا۔

گوا کی تفتیشی عدالت ترمیم

ابتدائی پرتگیزی عہد کے گوا میں خفیہ ہندومت ایک فوجداری جرم تھا اور اس جرم میں متعدد افراد ماخوذ اورگرفتار ہوئے۔[5] کاتھولک مسیحی پرتگیزی حکومت نے درجنوں افراد کو سزائے موت سنائی۔[6] گو کہ عموماً ہندوؤں کو ہی ہدف تفتیش بنایا جاتا تھا لیکن بعض اوقات بودھ، یہود اور مسلمان بھی گرفتار کر لیے جاتے۔[7][8]

بعض مورخین کے مطابق گوا کی تفتیشی عدالت نے سابقہ ہندو اور نئی مسیحی آبادی کو دہشت میں مبتلا کر رکھا تھا۔ سنہ 1560ء میں پرتگیزیوں کی حکومت کے قیام سے دو سو سالہ قلیل مدت میں سولہ ہزار سے زائد معاملات درج ہوئے۔ سنہ 1812ء میں جب اس قسم کے مقدمات پر پابندی عائد کی گئی تو ہرتگیزیوں نے ان کی فائلوں کو ضائع کر دیا۔ تقریباً ستر فیصد ہندو جو اس جرم میں ماخوذ تھے قتل کر دیے گئے۔ بعض معاملات میں ایسا بھی ہوا کہ سزا سنانے سے قبل ہی مجرم کی موت ہو گئی تو گوا کی حکومت نے مجرم شخص کا مجسمہ بنوا کر اسے عوام کے سامنے نذر آتش کیا۔

پاکستان ترمیم

تقسیم ہند کے وقت پنجاب کے بہت سے ہندوؤں اور مذہبی سکھوں نے ہندو مخالف اور سکھ تشدد سے بچنے کے لیے مسیحیت اختیار کر لی تھی۔ یہ برادریاں تبدیلی مذہب کے عمل سے گزرنے کے بعد آج بھی اپنے بہت سے آبائی مذہبی عقائد و رسومات پر عمل پیرا ہیں۔[9] تقسیم کے بعد بھی ملک میں مذہبی توقیفیت برقرار رہی اور آج بھی بعض مسلمان معتقدین ہندو اور سکھ مذہبی شخصیات کے مقبروں کی زیارت کرتے ہیں۔

ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسلام آباد میں ایسے ہندو موجود ہیں جو خفیہ طور پر ہندو نام رکھتے ہیں اور عوام میں مسلمان نام استعمال کرتے ہیں۔ اجت ڈوبھال نے اپنے قیام پاکستان کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کی ملاقات ایک ایسے ہندو سے ہوئی جو عوام میں مولوی بن کر رہتے تھے۔[10][11]

انڈونیشیا ترمیم

کیجاون روایت کے بہت سے پیروکاروں کو جس میں مظاہر پرست، بودھ، ہندو اور صوفی روایات یکجا ہیں، 2018ء سے قبل باضابطہ طور پر مسلمان سمجھا جاتا تھا اور ان کے شناختی کارڈ بھی مسلمان درج ہوتا تھا۔ سنہ 2018ء میں اسے علاحدہ مذہب تسلیم کیا گیا۔ اس عقیدے میں ویدک روایتیں بھی موجود ہیں۔[12]

حوالہ جات ترمیم

  1. António José Saraiva (2001)۔ The Marrano Factory: The Portuguese Inquisition and Its New Christians 1536-1765۔ BRILL Academic۔ صفحہ: 346–347, 353۔ ISBN 90-04-12080-7 
  2. Charles H. Parker، Gretchen Starr-LeBeau (2017)۔ Judging Faith, Punishing Sin۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 292–293۔ ISBN 978-1-107-14024-0 
  3. Bardwell L. Smith (1978)۔ Religion and the Legitimation of Power in South Asia۔ BRILL Academic۔ صفحہ: 19–20۔ ISBN 90-04-05674-2 
  4. Aziz Ahmad (1999)۔ Studies in Islamic Culture in the Indian Environment۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 84–85۔ ISBN 978-0-19-564464-7 
  5. Group Identity in the Renaissance World p.216, Hannah Chapelle Wojciehowski آئی ایس بی این 9781107003606
  6. António José Saraiva (2001)۔ The Marrano Factory: The Portuguese Inquisition and Its New Christians 1536-1765۔ BRILL Academic۔ صفحہ: 346–347, 353۔ ISBN 90-04-12080-7 
  7. António José Saraiva (2001)۔ The Marrano Factory: The Portuguese Inquisition and Its New Christians 1536-1765۔ BRILL Academic۔ صفحہ: 346–347, 353۔ ISBN 90-04-12080-7 
  8. Charles H. Parker، Gretchen Starr-LeBeau (2017)۔ Judging Faith, Punishing Sin۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 292–293۔ ISBN 978-1-107-14024-0 
  9. Gustav Henningsen، Marisa Rey-Henningsen (1979)۔ Inquisition and Interdisciplinary History۔ Dansk folkemindesamling۔ صفحہ: 125 
  10. Hannah Chapelle Wojciehowski (2011)۔ Group Identity in the Renaissance World۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 215–216 with footnotes 98–100۔ ISBN 978-1-107-00360-6 
  11. B. Malieckal (2015)۔ مدیر: Ruth IllmanL and Bjorn Dahla۔ Early modern Goa: Indian trade, transcultural medicine, and the Inquisition۔ Scripta Instituti Donneriani Aboensis, Finland۔ صفحہ: 149–151, context: 135–157۔ ISBN 978-952-12-3192-6 
  12. https://scroll.in/article/816573/to-escape-partition-violence-in-lahore-these-hindus-and-sikhs-converted-to-christianity