ابو اسحاق شامی
شیخ ابو اسحق شامی کا لقب شرف الدین تھا۔ خلیفہ چہارم علی کے سلسلہ طریقت میں نویں نمبر پر ہیں۔
ابو اسحاق شامی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 10 جون 852ء چشت |
تاریخ وفات | 16 جنوری 941ء (89 سال) |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | خواجہ معین الدین چشتی |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمابو اسحٰق شامی چشتی ملک شام میں پیدا ہوئے، اسی لحاظ سے شامی کہلائے۔ قصبہ چشت میں تعلیم و تربیت ہوئی۔
علوم ظاہری و باطنی
ترمیمعلوم ظاہریہ و باطنیہ کے جامع تھے آپ نے خرقہ خلافت ممشاد علوی دینوری سے پایا تھا۔ ظاہری اور باطنی علوم میں ممتاز تھے اور زہد و ریاضت میں بے مثال۔ خلق سے بے نیاز اور خالق سے ہمراز، درویشوں سے محبت کرتے۔ ’’معراج الفقراء الجوع‘‘ کے مصداق ہمیشہ سنت نبوی کے مطابق نفلی روزے رکھتے تھے۔ بہت کم کھانا کھاتے تھے فرمایا کرتے تھے کہ بھوک میں جو لذت پاتا ہوں وہ کسی کھانے میں نہیں پاتا۔ مرید ہونے سے پہلے چالیس دن تک استخارہ کرتے رہے۔ ہاتف غیبی نے علوی دینوری کی خدمت میں حاضری کا اشارہ دیا تو ان کے خدمت میں حاضر ہوئے۔ سات سال بعد تکمیل کو پہنچے اور خلافت عطا ہوئی۔ بغداد پہنچ کر خواجہ ممشاد دینوری نے بیعت کی۔
سلسلہ چشتیہ کے حقیقی بانی
ترمیمطریقۂ سلسلہ چشتیہ کے بانی خواجہ ابو اسحاق شامی ہیں۔ مرشد نے جب نام پوچھا تو ابو اسحٰق شامی بتایا۔ مرشد نے کہا آج سے لوگ تمھیں ابواسحٰق چشتی کہیں گے اور جو بھی تمھارے سلسلے میں داخل ہوگا، چشتی کہلائے گا۔ اسی نسبت سے سلسلہ کی ابتدائی شہرت میں چشتیہ انہی کی وجہ سے ہوئی۔آپ کے پیرو مرشد نے آپ کو یہ بشارت دی کہ اہل چشت کے امام بنو گے۔ چنانچہ آپ اپنے وطن چشت واپس آئے تو ’’قطب چشتیہ ‘‘کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کے بعد مزید چار مشائخ کا تعلق بھی چشت سے تھا۔ ان میں ابو احمد ابدال چشتی، ابو محمد بن ابو احمد ابدال چشتی، ناصرالدین، ابویوسف چشتی اورخواجہ مودود چشتی کے اسمائے گرامی مشہور ہیں انھیں ہی پنچ گنج چشت بھی کہا جاتا ہے۔
کیفیات وجد
ترمیمآپ کو سماع سے بے حد لگاؤ تھا۔ آپ کی مجلس میں جو شخص ایک بار حاضر ہوتا پھر گناہ سے دور رہتا، آپ کی مجلس کی برکات سے ہر شخص وجد میں رہتا، اگر کوئی مریض ایک بار مجلس میں آجاتا تو شفا پاتا، دنیا کا پجاری آتا تو تارک الدنیا ہوجاتا تھا۔
وصال
ترمیمآپ نے 940 ء 14 ربیع الثانی 329 ھ کو وصال فرمایا
بعض کے مطابق شام میں رہے وہیں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔[1]
[2]
مزار
ترمیمآپ کا مزار مبارک شہر عکہ شام میں ہے۔[3] سیر الاقطاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ آپ کے وصل سے لے کر آج تک آپ کے مزار پر ایک چراغ روشن ہے جو کبھی نہیں بجھا۔ وہ شام سے صبح تک روشن رہتا ہے باد و باراں کا کئی بار طوفان آیا۔ مگر رات کے وقت اس چراغ کو نہیں بجھا سکا۔ یہ چراغ اس شعر کی عملی تصویر ہے۔
- اگر گیتی سرا سر باد گیرد
- چراغ مقبولاں ہرگز نمیرد