خواجہ عبد السلام چشتی سات صدی قبل چشتیہ سلسلہ کے عظیم بزرگ جن کی بہت سے کرامات زبان زد عام ہیں،

  • خواجہ عبد السلام چشتی خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ خاص تھے دیورائے ڈوگرا راجا کے زمانے میں جب ”گنیا سنگھ“اس حصے کا حکمران تھا خواجہ عبد السلام اپنے پیرو مرشد کے حکم سے تین مصاحبوں جمال خان، کمال خان اور حسین خان کے ساتھ یہاں تشریف لائے۔ گنیا سنگھ ان کی مقبولیت سے خائف رہنے لگا اس نے زہر دینے کی کوشش کی جنگل جہاں شیروں اور سانپوں کا مسکن تھا، چھوڑ آیا۔.ایک شیر آگے بڑھا۔آپ کے قدم چومے اور بیٹھ گیا آپ اسی شیر پر سوار ہوکر ایک سانپ کو "چابک "بنائے واپس آگئے راجا نے منظر دیکھا تو کانپ اٹھا کہ میں تو انھیں موت کے کنویں میں چھوڑکر آیا تھا۔بے اختیار پکاراٹھا کہ مہاراج!تسی وڈے تے اسی چھوٹے“یعنی مہاراج آپ بڑے اور ہم چھوٹے ٹھہرے تب سے آپ کو ”بڑا بھائی “کے نام سے پکارا جاتا ہے اس نام سے اس بستی کو بھی بڑا بھائی کہا جاتا ہے مزار کے پاس ایک ٹیوب ویل ہے جو سارا سال بغیر کسی ظاہری سبب( بجلی اور تیل)کے مسلسل پانی نکالتا ہے جو ان کی کرامت شمار کیا جاتاہے
  • پاکستان کا معیاری وقت بھی اس مزار سے شروع ہوتا ہے ڈاکٹر مبارک غوری (جو سابق سجادہ نشین تھے)نے ان کے حالات زندگی پرایک کتاب لکھی جس کا نام تذکرہ ہے۔ تقسیم سے پہلے "خواجہ صاحب کی نگری" پاکستان، کشمیر اور بھارت سے ایک جیسے فاصلے پر ہونے کے باعث "مرکز "کا درجہ رکھتی تھی
  • ان کا مزار مسرور المعروف بڑا بھائی تحصیل شکر گڑھ ضلع نارووال میں ہے[1]

حوالہ جات ترمیم