دشت تنہائی
دشت تنہائی ایک مقبول اردو نظم ہے جس کا موضوع "یاد" ہے۔[1] یہ فیض احمد فیض کی طرف سے لکھی گئی تھی۔[1] یہ اقبال بانو کی طرف سے اور بعد ٹینا ثانی اور میشا شفیع (کوک سٹوڈیو (پاکستان)) کی طرف سے اپنے گائے جانے کی وجہ سے اور بھی معروف ہو چکی ہے۔[2]
"دشت تنہائی" | |
---|---|
اقبال بانو کا سنگل | |
صنف | نظم |
مصنفین | فیض احمد فیض |
بول
ترمیم- روایتی اردو رسم الخط میں:
- دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
- تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب
- دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
- کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
- اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ
- اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی
- مدھم مدھم
- دور افق پار چمکتی ہوئی
- قطرہ قطرہ
- گر رہی رہے تیری دلدار نظر کی شبنم
- اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
- دل کے رخسار پے اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
- یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق
- ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
- دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
- تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب
دیوناگری رسم الخط میں:
- दश्त-ए-तन्हाई मे, ऐ जान-ए-जहां, लरज़ाँ हैं
- तेरी आवाज़ के साये,
- तेरे होंठों के सराब,
- दश्त-ऐ-तन्हाई में,
- दूरी के ख़स-ओ-ख़ाक़ तले
- खिल रहे हैं तेरे पहलू के समन और गुलाब
- उठ रही कहीं हैं क़ुर्बत से
- तेरी सांस की आंच
- अपनी ख़ुश्बू मे सुलगती हुई
- मद्धम मद्धम
- दूर उफ़क़ पर चमकती हुई
- क़तरा क़तरा
- गिर रही है तेरी दिलदार नज़र की शबनम
- इस क़दर प्यार से ऐ जान-ए-जहां रक्खा है
- दिल के रुख़सार पे
- इस वक़्त तेरी याद ने हाथ
- यूँ गुमान होता है
- गरचे है अभी सुबह-ए-फ़िराक
- ढल गया हिज्र का दिन
- आ भी गयी वस्ल कि रात
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Beyond Borders - Indian Express
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 11 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2016