دشمنے چترالی زبان کا لفظ ہے جو علما اور دانشوروں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دشمنے حقیقت میں دانشمند کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اس قوم کے لیے اردو،پشتو یا فارسی زبان میں دانشمندخیل کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قوم کو دشمنے یا دانشمند خیل کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ قوم ابتدا میں چترال آکر آباد ہوئی تو یہی وہ قبیلہ تھا جو زیور علم سے آراستہ تھا اور چترال کی اقوام کی راہنمائی کے لیے حکمران اسی قوم کے محتاج رہے۔ یہ قوم دراصل بلخ سے تعلق رکھتی تھی۔ قدیم بلخ خراسان کا ایک اہم ترین شہر تھا اور یہ موجودہ افغانستان کا سب سے قدیم شہر ہے۔۔ آج کل قدیم شہر کھنڈر کی شکل میں موجود ہے جو دریائے بلخ کے دائیں کنارے سے 12 کلومیٹر دور اور سطح سمندر سے 365 میٹر (1200فٹ) کی بلندی پر واقع ہے موجودہ جدید بلخ افغانستان کے صوبہ بلخ کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو صوبائی دارالحکومت مزار شریف کے شمال مغرب اور آمو دریا سے 74 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔1220ء میں چنگیز خان نے اس شہر پر حملہ کیا، تمام باشندوں کو قتل اور عمارتوں کو زمین بوس کر دیا جبکہ 14 ویں صدی میں امیر تیمور کے حملے کے موقع پر بھی یہی تاریخ دہرائی گئی۔ امیر تیمور 1336ء میں یہیں تخت نشیں ہوا۔1736ء میں نادر شاہ نے بلخ کو فتح کیا۔ دشمنے قبیلہ کے آباواجداد میں علم و فضل کے بلند پایہ عالم کا نام آتا ہے جسے مولانا رومی اور چترالی زبان میں مولائے روم کہا جاتا ہے اصل نام جلال الدین تھا لیکن مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ مولانا رومی سے ہوتے ہوئے اس قبیلے کا سلسلہ نسب ثانی اثنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تک پہنچتا ہے جواہر مضئیہ میں مولانا روم کا سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا گیاہے : محمد (جلال الدین )بن محمد (بہاؤ الدین علاء)بن محمد بن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکرن الصدیق۔ اس روایت سے حسین بلخی مولانا کے پردادا ہوتے ہیں لیکن سپہ سالار نے انھیں دادا لکھا ہے اور یہی روایت صحیح ہے۔ کیونکہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔ ان کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومی 1207ء بمطابق 604ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کی اولاد میں مولانا قمرالدین نے واپس اپنے آبائی وطن بلخ میں آباد ہونے کا ارادہ کیا لیکن بلخ میں حالات کو انتہائی حد تک ناسازگار پا کر چترال کا رخ کیا اور باقی زندگی چترال ہی میں علم و حکمت کے شگوفے بکھرتے رہے آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے اسقال بیگ کو آپ کا جانشین عوامی اور حکومتی سطح پر مقرر کیا گیا۔ اسقال بیگ کے اصل نام کے بارے تاریخ میں یقینی طور پر کوئی نام نہیں مل سکا البتہ اس بات پر تاریخ نویسوں میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ اسقال بیگ ان کا اصلی نام نہیں بلکہ منصبی اور احترامی نام تھا۔ اسقال اور بیگ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں اسقال نام مقامی طور پر ایک عہدے کا علامتی نام تھا اور اسی عہدے کا جس عہدے کے لیے چترال سے باہر کی دنیا میں بیگ کا لفظ مستعمل تھا۔ بیگ یا بے۔ ترکی اور تاتاری زبان کا ایک اعزازی خطاب کسی زمانے میں شاہزدگان، امرا اور معززین کے لیے مخصوص تھا۔ لیکن بعد میں فوجی افسروں کے لیے مخصوص ہو گیا۔ سلجوقی ترک یورپ گئے تو بیگ کا لفظ بے رہ گیا۔ پاک و ہند کے مغل اپنے نام کے ساتھ بیگ کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ یہ لوگ منگولیا یا ترکستان کے تھے۔ شہنشاہ بابر کے ساتھ ہندوستان آئے اور بیگ کہلائے۔ موجودہ وقت میں دانشمندخیل المعروف دشمنے چترال کا نامی گرامی معزز اور تعلیم یافتہ قبیلہ ہے اور اس قبیلے کی مختلف شاخیں پورے چترال میں آباد ہیں جبکہ بیرون چترال اطراف گلگت ،کابل ،کنڑ،نورستان،ترکی میں اس قبیلہ کی آباواجداد سے پھیلی شاخیں آباد ہیں۔ چترال میں اس قبیلے کی کچھ شاخیں ایسی بھی ہیں جن میں نسل در نسل علما ہی چلے آ رہے ہیں۔ اور اکثر اسی قبیلے کے لوگ چترال کے مختلف علاقوں میں قضا کے منصب پر فائز رہے ہیں۔ قاضی نشکو مولانا قاضی فضل الہی (المتوفی 1996)کے مرتب کردہ شجرہ میں ان کا سلسلہ نسب یوں درج ملا۔ فضل الہی بن مولانا فضل مولی بن بھلانے شاہ(بھلے شاہ کی طرف نسبت)بن نزاربیگ(نظر/نذر)بن اسقال بیگ بن مولانا قمرالدین بن مولانا شمس الدین بن مولانا جلال الدین بن مولانا روم(ثانی)بن طبیب بن چلپی عابد بن سلطان بن مولانا محمد جلال الدین رومی ؒ۔

حوالہ جات

ترمیم