دولماباغچہ محل یا دولمہ باغچہ سرائے (ترکی زبان: Dolmabahçe Sarayı) ترکی کے شہر استنبول میں واقع ایک تاریخی شاہی محل ہے جو 1853ء سے 1922ء تک سلطنت عثمانیہ کا انتظامی مرکز تھا۔ اس میں 1889ء تا 1909ء کے 20 سال شامل نہیں جس میں یلدز محل استعمال میں رہا۔ یہ استنبول کے یورپی حصے میں آبنائے باسفورس کے کنارے واقع ہے۔

محل کے داخلی دروازوں میں سے ایک

تاریخ

ترمیم

دولما باغچہ استنبول کا پہلا یورپی طرز کا محل تھا جس کی تعمیر کا حکم سلطان عبد المجید اول نے دیا تھا اور 1842ء سے 1853ء کے دوران 5 ملین عثمانی گولڈ پاؤنڈز کی خطیر رقم سے تیار ہوا جو 35 ٹن سونے کے برابر ہے۔ اس میں سے 14 ٹن سونا صرف اندرونی چھت کی سجاوٹ میں استعمال ہوا۔ دنیا کا سب سے بڑا بوہیمیائی کرسٹل فانوس مرکزی ہال میں نصب ہے جسے برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا نے تحفے میں پیش کیا تھا۔ اس فانوس میں 750 چراغ ہیں اور اس کا وزن 4 اعشاریہ 5 ٹن ہے۔ دولماباغچہ میں بوہیمیائی اور بکارت کرسٹل فانوسوں کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔

دولماباغچہ دراصل باسفورس کی ایک خلیج تھی جسے شاہی باغ کی تعمیر کے لیے 18 ویں صدی کے دوران پُر کیا گیا تھا۔ یہ اصل میں دو الفاظ کا مجموعہ ہے دولما معنی "پُر کیا گیا" اور باغچہ مطلب "باغیچہ"۔ اصل لفظ دراصل باغیچہ سے ہی نکلا ہے لیکن تلفظ میں جا کر "باخچہ" بن گیا ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے دوران یہاں موسم گرما گذارنے کے لیے متعدد محل تعمیر کیے گئے۔ اب جو محل یہاں موجود ہے وہ 1842ء سے 1853ء کے دوران سلطان عبد المجید کے عہد میں قدیم ساحلی محل بشکتاش کی جگہ تعمیر ہوا۔ اس کی تعمیر آرمینیائی ترک ماہرین تعمیر غرابت امیرا بلیان اور ان کے صاحبزادے نگوگایوس بلیان نے کی۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعد سلطان توپ کاپی محل سے یہاں منتقل ہوا۔ محل تین حصوں پر مشتمل ہے: مابینِ ہمایوں (یا سلیمالک، مردوں کی رہائش گاہ)، موایدِ سالونو (تقریباتی دربار) اور حرمِ ہمایوں (سلطان کے اہل خانہ کی قیام گاہ)۔ محل 45 ہزار مربع میٹر (11 اعشاریہ 2 ایکڑ) رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں 285 کمرے، 46 دربار، 6 حمام اور 68 بیت الخلاء ہیں۔

 
اتاترک کا کمرہ

دولماباغچہ محل اب ایک عجائب گھر ہے جو پیر اور جمعرات کے علاوہ ہر روز صبح 9 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک عوام کے لیے کھلا ہوتا ہے۔ یہ محل آج کل ملی سرائے لر دائرہ بشکان لہی (نظامتِ قومی محلات) کے زیر انتظام ہے۔

جدید ترکی کے بانی اور پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک نے اپنی زندگی کے آخری ایام اسی محل میں گزارے اور 10 نومبر 1938ء کو اسی محل کے ایک کمرے میں انتقال کر گئے۔

متعلقہ مضامین

ترمیم

توپ قاپی محل

نگار خانہ

ترمیم