راشد آزر
راشد آزر حیدرآباد، دکن، بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو شاعر، مصنف اور نقاد ہیں۔
خاندان کا پس منظر
ترمیمراشد کے والد حسین علی خان انگریزی کے پروفیسر تھے۔ ان کی والدہ معصومہ بیگم ایک سیاسی شخصیت تھیں اور وزیررہ چکی ہیں۔[1]
تعلیم
ترمیمراشد نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد پبلک اسکول میں پائی۔ انھوں نے نظام کالج سے ڈگری مکمل کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ایل ایل بی کیا اور دو سال پیشہ وکالت سے منسلک رہے۔ بعد میں وکالت کو چھوڑ دیا اور تدریس کے ارادے سے بی ایڈ کیے۔[1]
پیشہ ورانہ کام
ترمیمچونکہ راشد کا طبعی میلان درس کی دنیا سے جڑا تھا، اس لیے بی ایڈ کے فوری بعد وہ حیدرآباد پبلک اسکول میں انگریزی کے مدرس بن گئے۔[1]
اردو ادب سے وابستگی کا آغاز
ترمیمحالانکہ پیشہ ورانہ دنیا میں راشد انگریزی سے وابستہ ہیں، مگر عملی طور پر اردو سے ان کو لگاؤ ہے۔ ان کے والد ان کی اردو شاعری کے خلاف تھے، مگر طبعی رجحان کی وجہ سے وہ اسی سے جڑ گئے۔ وہ ترقی پسند تحریک کا حصہ بن گئے۔[1]
اصناف سخن
ترمیمراشد غرلیں اور قطعات لکھ چکے ہیں۔ مگر وہ بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں۔[1]
مجموعات کلام
ترمیمراشد کے مجموعات کلام حسب ذیل ہیں:
بطور نقاد
ترمیمراشد نے بطور نقاد کئی شعرا کا بغور مطالعہ کیا۔ انھوں نے بطور خاص جائزہ اپنے چھ مضامین میں کیا۔ ان کے مطابق میر تقی میر نے حصول معاش کی خاطر مختلف کام کیے جن میں سفیر بننا، محرر کا کام، جنگی مہم، مصالحت، درویشی، مصاحبت اور رونق محفل بننا شامل ہیں۔ ان مضامین کو انھوں اپنی کتاب میر کی غزل گوئی: ایک جائزہ میں یکجا کیا۔[1]
کلام پر تبصرے
ترمیمشاذ تمكنت نے راشد آزر کی کتاب آبدیدہ کو ایک کرب ناک دیوان قرار دیا۔[1]
نمونہ کلام
ترمیمانہیں یہ ضد کہ میں زخموں کا اشتہار بھی دوں | مجھے تو شرم سی آتی ہے آہ بھرتے ہوئے | |
کبھی نہ ختم ہوئی آرزوئے منزل عشق | ڈھلی جو دھوپ تو سائے کے پیچھے چل نکلا | |
میں جس کو جاں سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں | دفینہ وقت کا کھودا تو ایک پل نکلا |