سرزمین ہند میں جن اکابر اسلام نے علم و عمل کی قندیلیں فروزاں کیں ان میں زمرہ اتباع تابعین کی بھی دو ممتاز شخصیتوں کے نام ملتے ہیں، انھیں ہندوستان سے خصوصی ربط وتعلق تھا اورانہوں نے اسے اپنے فیوض وبرکات اور علمی وعملی سرگرمیوں کا جولانگاہ بنایا، ان میں سے ایک ربیع بن صبیح بصری اوردوسرے اسرائیل بن موسی ہندی ہیں،حسنِ اتفاق سے یہ دونوں بزرگ بصرہ کے رہنے والے اور شہرۂ آفاق تابعی امام حسن بصری کے ارشد تلامذہ میں تھے،مؤخر الذکر کی آمد ورفت ہندوستان میں تجارت کی غرض سے ہوئی تھی اوراول الذکر ایک اسلامی فوج کے ہمراہ بحیثیت مجاہد وارد ہوئے اورایک وبائی مرض میں مبتلا ہوکر یہیں کی خاک کا پیوند بنے۔ گوکہ ہندوستان میں مذکورہ بالا دونوں اکابر کے علمی افادہ اور درس حدیث کا کوئی ظاہری ثبوت فراہم نہیں ہوتا، تاہم اس عہدِ زریں کے عام معمول کے مطابق یہ ناممکن ہے کہ ان متحرک علمی درسگاہوں کے فیوض وبرکات سے سرزمینِ ہند محروم رہی ہو، ان دونوں محدثین کے حالات تاریخوں میں کم ملتے ہیں، اس بنا پر ان کی تاریخ زندگی کے بہت سے اوراق نظر سے اوجھل ہیں،امام ابو موسیٰ اسرائیل کا ذکر آگے آئے گا، یہاں ذیل میں ابو حفص ربیع بن صبیح کے جو سوانح وحالات طبقات وتراجم کی متعدد کتابوں کی ورق گردانی کے بعد مل سکے ہیں،پیش کیے جاتے ہیں۔

حضرت ربیع بن صبیح بصریؒ
معلومات شخصیت
تاریخ وفات 770ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب ترمیم

نام ربیع اوروالد کا نام صبیح تھا، کنیت ابوبکر اورابوحفص تھی،مگر زیادہ شہرت ابو حفص ہی کو حاصل ہے،قبیلہ بنو سعد بن زید کے آزاد کردہ غلام تھے، اسی لیے ان کی طرف منسوب ہوکر سعدی بھی کہلاتے ہیں۔[1] مزید سلسلہ نسب کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔

وطن اور ابتدائی حالات ترمیم

ربیع بن صبیح کا اصلی وطن بصرہ تھا،انھوں نے جس عہد میں اپنے ہوش وخرد کی آنکھیں کھولیں وہ اسلامی شان وشوکت اور علوم وفنون کی کثرت واشاعت کے اعتبار سے تاریخ کا عہد زریں کہلائے جانے کا مستحق ہے، اس وقت ہر بستی اور ہر قریہ علما وصلحاء سے معمور اوران کی نواسنجیوں سے پُر شور تھا، ہر اسناد اورشیخ اپنی ذات سے ایک دار العلوم بنا ہوا تھا،جہاں شمع علم کے پروانے ہر چہار سمت سے آکر اکٹھا ہوجاتے تھے۔ دوسری صدی ہجری کے اوائل میں مرکز اسلام بصرہ کی سب سے بزرگ اور پرکشش شخصیت امام حسن بصری کی تھی، جنھوں نے عثمانؓ وعلیؓ،ابن عباسؓ وابن عمرؓ،انس بن مالکؓ،جابر بن معاویہ، ابو موسیٰ اشعری،معقل بن یسار، عمران بن حصین اورابی بکرہ وغیرہ ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ اوراساطین علوم نبوی کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو روشن کیا تھا، امام حسن بصری نہ صرف علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے؛بلکہ شجاعت وشہامت میں بھی یگانہ زمن تھے اور ربیع بن صبیح ان دونوں کمالات میں اپنے بصری شیخ کا نقشِ ثانی تھے۔

اساتذہ ترمیم

ربیع بن صبیح نے امام حسن بصریؒ سے خصوصی تلمذ رکھنے کے ساتھ دوسرے نادرہ عصر شیوخ سے بھی استفادہ کیا تھا، ان کے اساتذہ کی طویل فہرست میں کبار تابعین کے نام بھی شامل ہیں، کچھ ممتاز اسمائے گرامی درجِ ذیل ہیں: حسن بصری،ابن سیرین،مجاہدبن جبیر، عطا بن ابی رباح،حمید الطویل،ابو الزبیر ابو غالب،ثابت البنانی۔ [2] یزید رقاشی ،قیس بن سعد۔ [3]

تلامذہ ترمیم

خود امام ربیع کے چشمہ علم سے جو تشنگانِ علوم سیراب ہوئے ان میں اس عہد کے ہر علم وفن کے مشاہیر ائمہ شامل ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: عبد اللہ بن المبارک،وکیع بن الجراح،ابوداؤد طیالسی،آدم بن ابی ایاس،عاصم بن علی [4] سفیان ثوری،عبد الرحمن بن مہدی،ابو نعیم،ابوالولید الطیالسی۔ [5]

فضائل ومناقب ترمیم

ربیع بن صبیح زمرہ اتباع تابعین میں بہت نمایاں اور ممتاز مقام رکھتے تھے،علامہ سید سلیمان ندوی اوربعض دوسرے محققین نے انھیں "محدث تابعی"بتایا ہے،غالباً یہ شبہ ان کی علمی جلالت اوربلندی شان کی وجہ سے پیدا ہوا ہے،ورنہ فی الحقیقت کسی صحابی سے ان کا لقا ثابت نہیں ہے۔ تقریبا تمام ائمہ اوراہلِ فن نے ربیع کے علم و فضل اوراوصاف وکمالات کا اعتراف کیا ہے ؛چنانچہ امام ابو زرعہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: شیخ صالح صدوق[6] سچے اورنیک بزرگ تھے۔ ربیع سید من سادات لمسلمین امام ربیع مسلمانوں کے پیشواؤں میں سے ایک ہیں۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: کان عابداً مجاھداً وہ عابد اورمجاہد تھے ابو حاتم کا بیان ہے: رجل صالح والمبارک احب الی منہ ربیع نیک انسان تھے البتہ ان کے مقابلہ میں ہیں مبارک زیادہ محبوب رکھتا ہوں ابوالولید کہتے ہیں: ماتکلم احد فیہ الا والربیع فوقہ [7] جس شخص نے بھی ربیع کے بارے میں کلام کیا ہے وہ اس سے بلند مرتبہ نہیں۔ بشر بن عمر کہتے ہیں کہ میں امام شعبہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ فرما رہے تھے۔ ان فی الربیع خصالا لاتکون فی الرجل واحدۃ منھا بلاشبہ ربیع بہت سی ایسی خوبیوں کے مالک ہیں جن میں کوئی ایک بھی دوسرے میں نہیں پائی جاتی۔

ثقاہت ترمیم

ائمۃ دین کی کثیر تعداد نے امام ربیع کی ثقاہت وعدالت کی شہادت دی ہے، امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ اپنے والد سے ربیع بن صبیح کے متعلق دریافت کیا توانہوں نے فرمایا: لا باس بہ رجل صالح [8] ان سے روایت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں نیک آدمی ہیں۔ ابن معین کا بیان ہے: لیس بہ بأسٌ ان سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں امام ابن عدی کا قول ہے: لہ احادیث صالحۃ مستقیمۃ ولم ازلہ حدیثا منکرا واجو انہ لاباس بہ ولا بروایاتہ [9] ان کی حدیثیں بالکل درست ہیں اورمجھے ان کی کسی منکر حدیث کا علم نہیں میرا خیال ہے کہ ان سے روایت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ربیع بن صبیح کی عدالت اورثقاہت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ امام جرح و تعدیل عبد الرحمن بن مہدی بھی ان سے روایت کرتے ہیں؛چنانچہ عمر بن علی کا قول ہے کہ: کان عبد الرحمن بن مہدی یحدث من الربیع بن صبیح عبد الرحمن بن مہدی بھی امام ربیع بن صبیح سے روایت حدیث کرتے ہیں۔ علامہ ذہبی نے بھی میزان میں ان سے روایت کی ہے

جرح ترمیم

ثقاہت کے بارے میں مذکورہ بالا تمام شہادتوں کے باوجود بعض علما نے ان کے بارے میں نقد وجرح کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں،اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان کی آخری زندگی مجاہدانہ سرگرمیوں اورغایت درجہ زہد وتقویٰ میں گذری اورانہوں نے بغیر تحقیق محض حسن ظن کی بنا پر ہر مرتبہ کے راویوں کو قبول کرنا شروع کر دیا تھا،اس کی بنا پر محدثین نے اصول روایت ودرایت اورجرح و تعدیل کی رو سے ان میں کچھ کمی محسوس کی اورانہیں ربیع بن صبیح کے بارے میں تعدیل کے ساتھ جرح کی بھی گنجائش مل گئی۔ چنانچہ یحییٰ ابن معین فرماتے ہیں: ھو عندنا صالح ولیس بالقوی وہ ہمارے نزدیک نیک آدمی تھے مگر قوی نہیں تھے۔ امام شافعی کا بیان ہے: کان الربیع بن صبیح رجلا غراء وذامدح الرجل بغیر ضاعتہ فقد وھض یعنی دق [10] ربیع بہت بڑے غازی تھے اورجب وہ فن حدیث سے غیر متعلق شخص کی تعریف کرتے تو اس کوختم ہی کردیتے تھے۔ ابن حبان کے زہد وتقویٰ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد رقمطراز ہیں: ان الحدیث لم یکن من ضاعتہ وکان یھم فیما یروی کثیرا حتیٰ وقع فی حدیثہ المناکیر من حیث لا یشعر لا یعجبنی الا جتجاج بہ اذانفرو [11] بلاشبہ حدیث ان کا فن نہ تھا، انھیں روایت حدیث میں وہم بہت زیادہ ہوتا تھا حتیٰ کہ غیر شعوری طور پر ان کی حدیث منکر ہوجاتی تھی ہیں ان کے منفرد ہونے کی حالت میں ان کی روایت کو دلیل بنانا پسند نہیں کرتا۔ حاکم کا قول ہے: لیس بالمتین عندھم [12] وہ محققین کے نزدیک قوی نہیں تھے۔ ان کے علاوہ اور بھی دوسرے ائمہ نے ربیع پر جرح ونقد کیا ہے،لیکن یہ سب کچھ ان کے فضل وکمال اورثقاہت وعدالت کو تسلیم کرنے کے بعد ہے اورجیسا کہ مذکور ہوا،روایت میں یہ تمام ضعف ربیع بن صبیح کے آخر عمر کے بعض مخصوص حالات کا نتیجہ تھا۔

عبادت گزاری اورزہد وورع ترمیم

کثرتِ عبادت زہد وورع اورتضرع والحاح میں بھی ربیع منفرد حیثیت رکھتے تھے،ابن حبان نے لکھا ہے کہ: کان من عباد اھل البصرۃ وزھاد ہم وکان یشبہ بیتہ باللیل بیبت النحل من کثرۃ التھجد [13] ربیع بصرہ میں سب سے زیادہ عبادت گزار اورصاحب ورع تھے،کثرت تہجد کی بنا پر ان کا گھر شب میں شہد کی مکھی کا چھتہ بن جاتا تھا۔ عقیلی کہتے ہیں،بصری سید من سادات المسلمین،امام احمد،ابن شیبہ اورابو حاتم انھیں "رجل صالح" کہتے ہیں،ابن خداش کایہ قول گزرچکا ہے کہ: ھو فی ھدیہ رجل صالح ربیع اپنی سیرت میں نیک آدمی تھا۔

بصرہ کے پہلے مصنف ترمیم

اسلامی علوم وفنون کو جن ائمہ نے سینوں سے سفینوں میں منتقل کیا ان میں ربیع بن صبیح کو شرف اولیت حاصل ہے،بعض محققین نے انھیں اسلام کی پہلی صاحب تصنیف شخصیت قراردیا ہے؛چنانچہ کاتب چلپی رقمطراز ہے: ھو اول من صنف فی الاسلام [14] وہ اسلام میں پہلے مصنف ہیں۔ مگر بعض دوسرے بیانات سے اس کی تردید ہوتی ہے،صاحب کشف الظنون نے لکھا ہے کہ ایک قول کے مطابق اسلام میں سب سے پہلی تصنیف کتاب ابن جریح ہے اورایک دوسرے قول میں مؤطا امام مالک کو اس شرف کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ دوسری صدی ہجری کے واسطہ میں علوم اسلامیہ کی تدوین کا کام شروع ہوا اور ہر مقام کے ائمہ فن اور اساتذہ علم نے حدیث وغیرہ علوم کو کتابی شکل میں مرتب کیا اور اس طرح سر زمین بصرہ میں یہ شرف سب سے پہلے ربیع بن صبیح کو حاصل ہوا[15] علامہ ذہبی رقمطراز ہیں۔ قال الرامهرمزى: من أول من صنف وبوب بالبصرة الربيع بن صبيح، ثم سعيد ابن أبى عروبة عاصم بن علي [16] رامہرمزی کا قول ہے کہ بصرہ میں جس نے سب سے پہلے تصنیف وتالیف کا کام کیا وہ ربیع بن صبیح ہیں اس کے بعد سعید بن ابی عروبہ اور پھر عاصم بن علی۔ حافظ ابن حجر نے بھی فتح الباری میں یہی لکھا ہے اورخلیفہ چلپی نے بھی تدوین حدیث کا ذکر کرتے ہوئے اسی کی تائید کی ہے،نیز حاجی خلیفہ کے بیان سے یہ بات بھی منکشف ہوجاتی ہے کہ اسلام میں سب سے پہلی تصنیف تو کتاب ابن جریح یا مؤطا امام مالک ہے،لیکن بصرہ میں سب سے پہلے مصنف ربیع بن صبیح ہیں؛چنانچہ کشف الظنون میں ہے۔ وقیل اول من صنف وبوب الربیع بن صبیح بالبصرۃ ثم انتشر جمع الحدیث وتدوینہ وتسطیرہ فی الاجزاء والکتب [17] کہاجاتا ہے بصرہ میں سب سے پہلے ربیع بن صبیح نے تصنیف وتبویب کا کام کیا پھر احادیث کی تدوین اورکتابوں کی شکل میں ان کی اشاعت عام ہو گئی۔

شجاعت وبہادری ترمیم

ربیع بن صبیح اپنے لائق فخر استاذامام حسن بصری کی طرح علم و فضل کے ساتھ شجاعت،مجاہدہ اوراسلامی حمیت میں بھی مفقود النظیر تھے،بصرہ کے قریب اباد ان نامی ایک مقام ان کی عملی سر گرمیوں کا مرکز تھا جہاں اس زمانہ میں اولیاء اللہ کی ایک بڑی جماعت عملی دنیا آباد کیے ہوئے تھی،ربیع بن صبیح کی مجاہدانہ حیثیت کے بارے میں امام شافعی کی یہ شہادت گذرچکی کہ: کان ربیع بن صبیح رجلا غزاء [18] ربیع بن صبیح بہت بڑے غازی تھے علاوہ ازیں امام شعبہ نے شجاعت میں ان کے مرتبہ کو احنف بن قیس سے بھی بلند تر قراردیا ہے،حضرت احنف بن قیس کی شخصیت وہ ہے جو اپنے زمانے میں بہادری اورجوانمردی کے لیے ضرب المثل بن چکی تھی، انھوں نے اپنی شجاعت کے بہت سے نمایاں ثبوت دیے تھے، ان کی اس جلالت مرتبت کے باوجود امام شعبہ کا قول ہے کہ: لقد بلغ الربیع مالم یبلغ لاحنف بن قیس یعنی فی الارتفاع [19] ربیع کا مرتبہ احنف بن قیس سے بلند تر تھا۔ علامہ بلاذری کا بیان ہے کہ ربیع بصرہ کے عوام سے چندہ وصول کرتے اورپھر رضا کاروں کو لے کر ابادان میں اسلامی سرحدوں کی حفاظت کی خدمت انجام دیا کرتے تھے۔ جمع مالا من اھل البصرۃ فحمن بہ عبادان ورابط فیھا [20] ربیع نے اہل بصرہ سے چندہ کرکے عبادان کی قلعہ بندی کی اوراس کی مرابطت کی خدمت انجام دی۔

جنگ ہندوستان میں شرکت ترمیم

عہدِ بنی عباس میں جب عہدی اورنگ خلافت پر متمکن ہوا تو اس نے عرب تاجروں کی شکایت پر ہندوستان پر فوج کشی کا ارادہ کیا اس جنگ کی تفصیلات طبری اورابن کثیر وغیرہ ،مؤرخین نے اپنی کتابوں میں دی ہیں۔ خلیفہ مہدی نے عبد الملک بن شہاب کی قیادت میں ایک جنگی بیڑا آلاتِ حرب اور اسلحوں سے لیس کرکے ہندوستان روانہ کیا جو 160ھ میں باربد(جوبھاڑ بھڑوت کی تعریب ہے) پہنچا،بھاڑ بھڑوت صوبہ گجرات میں ضلع بھڑوچ سے سات میل جنوب میں ایک کچی بندرگاہ تھی، اس فوج میں ایک ہزار سے زائد رضا کار بھی شوقِ جہاد میں شریک تھے، محققین کے بیان کے مطابق والنٹیر س کی اس کثیر جماعت کے افسر اعلیٰ ربیع بن صبیح تھے۔ بہر حال اس فوج نے بھاڑ بھڑوت پہنچنے کے دوسرے ہی دن جنگ شروع کردی،گجراتیوں نے شہر میں گھس کر پھاٹک بند کرلیے،اسلامی فوج نے اس سختی سے شہر کا محاصرہ کر لیا کہ وہ لوگ عاجز آئے،مجاہدین اسلام نے بزورشہر میں داخل ہوکر گجراتیوں سے دو بدوشدید جنگ کی اوربالآخر انھیں فتح ونصرت نصیب ہوئی، دشمنوں کے تمام آدمی کام آئے اور مجاہدین میں سے بیس سے کچھ زائد نے جام شہادت نوش کیا۔ [21] اس جنگ میں ربیع بن صبیح نے اپنے زیر قیادت رضا کاروں میں جہاد کا جوش اور ولولہ پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا،اسی جوش اورجذبہ شہادت کا نتیجہ تھا کہ مجاہدین کے سیل رواں اوران کے پر جوش حملوں کے سامنے آنے والی طاقت چور چور ہو گئی۔

وفات ترمیم

بھاڑ بھڑوت کی فتح کے بعد اسلامی فوج نے واپسی کے لیے رختِ سفر باندھا لیکن اسی زمانہ میں سمندر میں طغیانی آگئی،اس لیے مجاہدین کی فوری واپسی ممکن نہ ہو سکی اور انھیں سمندر پر سکون ہونے تک مجبوراً وہیں قیام کرنا پڑا،سوءِاتفاق سے عین اسی وقت ‘حمام قر’ نام کی ایک وبا پھوٹ پڑی،یہ مہلک مرض منہ میں ہوتا تھا اورایسا زہریلا تھا کہ جلدہی موت کے آغوش میں پہنچادیتا تھا؛چنانچہ اس بیماری سے ایک ہزار مجاہدین لقمۂ اجل بن گئے،عام محققین کے بیان کے مطابق انہی شہید ہونے والوں میں ربیع بن صبیح بھی تھے۔ [22] مؤرخین نے بالاتفاق اس وبا کے پھیلنے اوراس سے مرنے والوں کا ذکر 160ھ کے واقعات میں کیا ہے،علامہ ابن سعد نے لکھا ہے کہ ربیع بن صبیح کی تدفین جزائر بحر الہند میں سے کسی جزیرہ میں ہوئی؛چنانچہ طبقات میں ہے: خرج غازیاً الی الھند فمات فدفن فی جزیرۃ من الجزائر بسنۃ 160 فی اول خلافۃ من اھل البصرۃ کان معہ [23] وہ ہندوستان غازی کی حیثیت سے آئے اور وہیں انتقال فرماکر 160 ھ میں کسی جزیرہ میں مدفون ہوئے وہ مہدی کی خلافت کا ابتدائی زمانہ تھا،یہ تفصیل مجھے بصرہ کے ایک شخص نے بتلائی جو جنگ میں ان کے ساتھ شریک تھا۔ اس روایت کا پایہ استناد اس سے ظاہر ہے کہ علامہ ابن سعد نے اسے بصرہ کے ایک ایسے شخص سے سنا ہے جو جنگ بھاڑ بھڑوت میں ربیع کے دوش بدوش شریک تھا، اس نے اپنا چشم دید بیان دیا ہے،اسی بنا پر علامہ بلاذری نے بھی ابن سعد کے مذکورہ بالا بیان کی تائید کی ہے،وہ لکھتے ہیں : وكان خرج غازيا إلى الهند في البحر فمات، فدفن في جزيرة من الجزائر في سنة مئة وستين [24] سمندری راستے سے وہ جہاد کرنے ہندوستان آئے اور وہیں 160ھ میں انتقال کرکے کسی جزیرہ میں دفن ہوئے۔ ان دونوں بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ربیع کی وفات بھاڑ بھڑوت میں نہیں ہوئی؛بلکہ وبا کے پھیلنے کے بعد وہ قریب کے کسی جزیرہ میں چلے گئے (بعض لوگوں نے ربیع کا مدفن ضلع تھانہ (ممبئی)قراردیا ہے)اوروہیں وفات وتدفین ہوئی،گوکہ ربیع کے جائے وفات اورمدفن کی تعیین میں اختلاف ہے تاہم یہ بات بہر حال مسلم ہے کہ ان کی وفات 160ھ میں ہندوستان میں ہوئی اوریہیں کہیں مدفون بھی ہوئے: والعلم عنداللہ ابن عماد حنبلی رقمطرار ہیں: وتوفی غزوۃ الھند فی الرجعۃ بالبحر الربیع بن صبیح البصری جنگ میں بحری راستے سے واپسی کے وقت 160ھ میں ربیع کا انتقال ہوا۔

اولاد ترمیم

ربیع کی جسمانی یادگار میں دو صاحبزادوں اورلڑکی کا ذکر ملتا ہے،لڑکوں کے نام عبدہ بن ربیع بن صبیح اور سلیمان بن ربیع ہندی ہیں جو علم و فضل میں خود بھی بلند مرتبہ رکھتے تھے،صاحبزادی کا نام نہیں معلوم لیکن ابو حاتم نے محدث اسحاق بن عباد کو ربیع کا نواسہ بتلایا ہے اورانہیں ابن ابنتہ ربیع لکھا ہے جس سے علم ہوتا ہے کہ ربیع کی ایک لڑکی بھی تھی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. (تہذیب التہذیب:3/247)
  2. (تہذیب التہذیب:3/247)
  3. (کتاب الجرح واتعدیل :1/464)
  4. (تہذیب التہذیب:3/247)
  5. (کتاب الجرح والتعدیل:1/464)
  6. (تہذیب التہذیب:3/248)
  7. (کتاب الجرح والتعدیل:8/464)
  8. (خلاصہ تہذیب الکمال:115)
  9. (تہذیب التہذیب:3/248)
  10. (کتاب الجرح والتعدیل:1/465)
  11. (تہذیب التہذیب:3/247)
  12. (کتاب الجرح والتعدیل:1/425)
  13. (تہذیب التہذیب:3/248)
  14. (کشف الظنون:1/423)
  15. (تہذیب التہذیب:1/248)
  16. (میزان الاعتدال،باب الجزء:2/41)
  17. (کشف الظنون:1/423)
  18. (کتاب الجرح والتعدیل:1/465)
  19. (میزان الاعتدال:1/234)
  20. (فتوح البلدان:362)
  21. (طبری:6/253،وابن اثیر:6/31)
  22. (البدایہ والنہایہ:9/132)
  23. (طبقات ابن سعد،ج7،ق2،ص46)
  24. (فتوح البلدان،باب الجزء:2/453)