رشدیت
رشدیت سے مراد مسلم فلسفی ابن رشد کے فلسفہ کی تشریح اور وضاحت ہے۔ حالانکہ ابن رشد کا فلسفہ جسے آج رُشدیت سمجھا جاتا ہے، دراصل کوئی نیا فلسفہ نہیں ہے بلکہ یہ یونانی فلسفی ارسطو کے فلسفہ کی شرح ہے۔ابن رشد کا فلسفہ چونکہ ارسطو کے فلسفہ کی شرح ہے اور ارسطو کے فلسفہ کے مبادی سب کے سب ابن رشد تسلیم کرتا ہے، البتہ ارسطو کے فلسفہ میں جہاں کہیں اِبہام باقی رہ گیا ہے، وہ خود اُس اِبہام کو دور کرنے کی خاطر اُس کی تشریح کردیتا ہے۔ جن مسائل فلسفہ کو ارسطو نے نظر انداز کیا ہے، ابن رشد وہیں نئی تحقیقات سے اِضافہ کرتا ہے، لیکن تحقیقات کے سلسلہ میں وہ اکثر مثالی فلسفہ کو مذہب افلاطون کے مسائل جدیدہ سے مخلوط کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک مبادی اور اُصول کا تعلق ہے، ابن رشد ارسطو کا مُقَلَّد ہے۔یورپ میں ابن رشد کے فلسفہ کو Averroism کے نام سے پکارا جاتا ہے اور مغربی فلسفہ کے ناقدین اِس فلسفہ کو مغربی فلسفہ کی ایک شاخ قرار دیتے ہیں۔
فلسفہ رشدیت
ترمیمابن رشد کا فلسفہ دو مسائل پر مبنی ہے: قدامت و اَزلیتِ عالم اور وَحدتِ عقل۔ اول الذِکر مسئلہ پر دین اسلام کے متکلمین سے ابن رشد کا واسطہ پڑا اور اُسے مسلم متکلمین کا مقابلہ کرنا پڑا اور ثانی الذِکر پر مسیحی متکلمین نے اُس سے نبرد آزمائی جاری رکھی۔ تخلیق عالم یا تخلیق کائنات کے مسئلہ پر عقلاء نے ہمیشہ سے تین آراء اِختیار کی ہیں۔
- پہلے فریق کے مطابق عالم ایک مجتمع الصِفَّات ہستی کا تخلیق کردہ ہے، اُس ذات نے نہ صرف عالم کا اِبتدائی ڈھانچہ تیار کیا بلکہ دنیا میں جتنی چیزیں پیدا ہوتی ہیں، اُسی ذات کی بدولت پیدا ہوتی ہیں۔ اِس معاملے میں اَسباب و مُسَبَبات محض خیالی داستان جیسے ہیں، ورنہ آسمان اور زمین سے لے کر معمولی معمولی اشیاء تک کی تخلیق و تشکیل محض اُسی ذات کے اِرادۂ و مشیت سے ہوتی ہے اور وہ عالم الکُل اور غیب دان ہے، اُس کا اِرادہ سب پر حاوی اور مشیت اٹل ہے اور یہ اہل اَدیان اور متکلمین کی رائے ہے۔
- دوسرے فریق کے مطابق رائے یہ ہے کہ: عالم کی نہ اِبتداء ہے اور نہ اِنتہاء، مادہ قدیم اور خالق عالم اِس کی تخلیق (تکوین) کا باعث نہیں ہوا بلکہ اُس نے مادہ کو متشکل اور ذِی صورت کر دیا ہے اور اِسی کا نام تخلیق ہے۔ عالم کی تمام اشیاء قانونِ علیت کی تابع ہیں اور عالم کے تمام تغیرات اِسی قانون کی ماتحتی میں سر انجام پاتے ہیں۔ کسی نئی چیز کی پیدائش یا تخلیق میں خدا تعالیٰ کو دخل دینا نہیں پڑتا بلکہ قانونِ علیت کی ماتحتی میں پیدائش کا سلسلہ برابر جاری ہے اور اِس رائے کی بنیاد پر خدا کا درجہ بہت پست ہوجاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اِس فریق نے دو مساوری وجود تسلیم کیے ہیں: ایک مادہ جو اپنی تخلیق میں کسی سبب کا محتاج نہیں ہوتا اور دوسرا محرک یا خالق عالم جو مادوں کو حرکت میں لاتا ہے اور اَزخود عِلَّت سے بے نیاز ہے۔
- تیسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ: مادہ جس طرح اپنے وجود میں عِلَّت کا محتاج نہیں ہے، اِسی طرح تشکیل و حرکت میں بھی عِلَّت سے بے نیاز ہے اور حرکتِ دائمی اِس کا خاصہ ہے اور اِسی سے شکلیں اور صورتیں وجود میں آتی ہیں اور یہ مادہ پرست طبیعین کا خیال سمجھا جاتا ہے۔ گویا تیسرے فریق نے محرک کی شِق کو ختم کر دیا ہے۔[1]
عالم کا قدیم ہونا
ترمیمصانع عالم اور غیر صانع طبعی کی حالت تکوین و تخلیق میں بعض حیثیتوں سے مختلف ہے۔ مادہ کو دونوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن صانع غیر طبعی ایک عرصے تک غیر صانع رہتا ہے، یعنی جب تک مشق و تمرین کے ذریعہ سے وہ تکوین کی اِستعداد اپنے اندر پیدا نہیں کرلیتا، اُس وقت تک اُس سے تکوین یا پیدائش کا ظہور نہیں ہو سکتا، بخلاف صانع طبعی کے کہ وہ چونکہ فعل محض ہے اور یہ ناممکن ہے کہ اِس سے تکوین کا صدور نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ صانع غیر طبعی مصنوعات پر بالزمان اور بالسبیتہ دونوں حیثیتوں سے مُقَدَّم ہوا کرتا ہے، لیکن صانع طبعی صرف بالسبیتہ مُقَدَّم ہوتا ہے اور زماناً وہ اپنے مصنوع کا ہم عصر ہوا کرتا ہے۔ یہی مطلب ہے کہ اِس مسئلہ کا عالم قدیم ہے، یعنی اپنے خالق کے ساتھ اِس کو معیتِ زمانی حاصل ہے۔ اگر فرض کیا جائے کہ صانع عالم اپنے مصنوعات پر بالزمان مُقَدَّم بھی ہو تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ تَقَدُّم و تاخرِ زمانی تو خود زمانیات میں سے ہیں، پس یہ تقدم یا تو زمانہ میں ہوگا یا زمانہ میں نہیں ہوگا۔ اگر زمانہ میں یہ تقدم نہیں ہے تو اِس سے صریحاً لازم آتا ہے کہ صانع عالم کو اپنے مصنوعات پر تقدمِ زمانی حاصل نہیں ہے اور اگر دوسری مشق اِختیار کی جائے یعنی یہ کہ یہ زمانہ میں اِس کو تقدمِ زمانی حاصل ہے تو یا تو زمانہ کو غیر مخلوق تسلیم کرنا پڑے گا اور باہم اِس دوسرے زمانہ میں اگلے سوالات عائد ہوتے جائیں گے کہ بالفرض ہم یہ مان لیں کہ صانع عالم کو بھی صانع غیر طبعی کی طرح اپنے معلولات پر تقدمِ زمانی حاصل ہے تو بعض ایسے شکوک و شہات پیدا ہوں گے کہ جن کا جواب ناممکن ہوگا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مادہ اور صورت دونوں غیر اَزلی اور غیر مخلوق ہیں، یعنی خالق عالم بالسبیتہ اِن سے مُقَدَّم ہے لیکن زماناً دونوں خالق عالم کے ہم عصر ہیں۔[2] ابن رشد نے ارسطو کی کتاب مابعد الطبیعۃ کے بارہویں باب کی شرح میں اِس مسئلہ پر نہایت وضاحت سے اپنے خیالات کا اِظہار کیا ہے کہ:
- ’’تخلیق عالم کے مسئلہ میں فلاسفہ نے اُصولاً دو متضاد آراء قائم کی ہیں، ایک فریق تخلیق کا اِنکار کرتا اور قانونِ ارتقا کی ہمہ گیریت کا مدعی ہے اور دوسرے فریق کو ارتقا سے اِنکار اور ابداع تخلیق پر اِصرار ہے۔ قائلین ارتقا کا خیال یہ کہ تخلیق کی حقیقت بجز اِس کے کچھ نہیں ہے کہ منتشر ذرات مجتمع ہوکر ترکیب و تالیف اِختیار کرلیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اِس صورت میں عِلَّتِ فاعلی کا فعل صرف اِسی قدر ہوگا کہ ذرات مادی کو متشکل کرکے اُن میں باہم اِمتیاز پیدا کر دے۔ یعنی گویا اَب اِس حالت میں فاعل خالق نہ رہا بلکہ اُس کی حیثیت گرگئی (معدوم ہوگی) اور محض محرک کے درجہ پر باقی رہ گیا۔ اِس کے مقابل تخلیق و ابداع کے قائلین کا خیال یہ ہے کہ خالق عالم نے بدونِ مادے کی ضرورت کے عالم کو پیدا کیا ہے، یہ ہمارے متکلمین اور مسیحی فلاسفہ کی رائے ہے۔[3]
کائنات اور اجرام فلکی کے متعلق رائے
ترمیمابن رشد نے فلسفہ یونان میں کائنات اور نظام شمسی سے متعلق توہمات اور محض دیومالائی داستانوں پر مبنی خیالات سے خود کو پاک رکھتے ہوئے نفوسِ فلکیہ کا فلسفہ یہ پیش کیا ہے کہ:
- ’’کائنات کا باہمی ربط نظام دنیاوی حکومتوں کے اِنتظامات سے مشابہہ ہے، جہاں تمام اعمال بادشاہ کے فرمان کے بموجب صادر ہوتے ہیں، لیکن سب کا تعلق خود بادشاہ کی ذات سے براہِ راست نہیں ہوتا، بلکہ بادشاہ کے مقرر کردہ عُمَّالِ حکومت اُن کو انجام دیتے ہیں۔ خدا نے اِس ربط و نظام کو قرآن میں اِن الفاظ سے اداء کر دیا ہے کہ: ’’ وَ اُوْحِیَ فِیْ کُلِّ سَمَاءِِ اَمْرُھَا‘‘، یعنی خدا نے آسمانوں کو احکام کی وحی کی۔‘‘[4]