برصغیر کی تقسیم سے قبل شمال مغربی علاقہ موجودہ پاکستان کا اہم ترین ریلوے جنکشن وزیرآباد تھا یہاں سے لاہور، راولپنڈی کے علاوہ سیالکوٹ جموں کشمیر روٹ اور فیصل آباد چاروں اطراف ریلوے لائنوں کا جال بچھا یا گیااور وزیرآباد کاریلوے اسٹیشن دن رات مصروف رہتا تھا۔ برطانوی انجینئری کمپنی کاشاہکار ریلوے پل آج بھی دریائے چناب پر موجود ہے۔ انگریز دور کے بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کی طرف سے خصوصی طور پر دریا کے آر پار ملانے والے اس اہم پل کا 1876ءمیں افتتاح کیا گیا اور آج تک یہ پل کروڑوں انسانوں کوآپس میں ملانے کا باعث بنتا چلا آ رہا ہے۔ اس دور میں محکمہ ریلوے کی جانب سے بنائی گئی عمارتیں جن میں ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارمز، دفاتر، مختلف مقامات سے ریلوے کو کنٹرول کرنے والے سگنلز رومز اور ریلوے پلوں کے قریب بنائی گئی حفاظتی چوکیاں، گودام اور ملازمین کی رہائشی کالونیاں ہر چیز تعمیرات کی دنیا کا ایک شاہکار تھیں ! مگر افسوس صد افسوس کہ متعلقہ افسران اور ملازمین نے تو ہر جگہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہی مگر ہم بھی بحثیت قوم ان قیمتی قومی اثاثوں کو بچانے میں اپنا وہ کردار ادا نہ کرسکے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ریلوے کے قیمتی آلات وغیرہ چوری کرلئے جاتے ہیں۔ عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں متعدد مضبوط ترین تعمیرات کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے بیشتر مقامات جرائم پیشہ افراد اور نشئیوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں مگر ریلوے کی اپنی ہی پولیس فرض نبھانے سے قاصر ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ریلوے کے چالو جنکشن پر قریبی بااثر افراد کے مویشی چرتے دکھائی دیتے ہیں جن کے خلاف شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔۔ ریلوے کی ٹرانسپورٹیشن کے لحاظ سے کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ سیالکوٹ اور نارووال کو جانے والاروٹ ویران نظر آتا ہے قریب تین ماہ قبل فیصل آباد روٹ پر ہیڈ چھناواں کے قریب فوجی ٹرین کو حادثہ پیش آیا اور ٹریک ٹوٹ گیا اس ٹریک کی طویل عرصہ میں مرمت نہ ہونے کی وجہ سے روٹ بند ہے جس کی وجہ سے بیسیوں شہروں کے ہزاروں مسافروں کو شدید دشواری کا سامنا ہے۔

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔