زحل
زحل (علامت: ) ہمارے سورج سے چھٹے نمبر پر جبکہ ہمارے نظام شمسی کا دوسرا بڑا سیارہ ہے۔ زحل کا نام انگریزی میں سیٹرن ہے جو ایک یونانی دیوتا کے نام پر رکھا گیا تھا۔
زحل، یورینس، نیپچون اور مشتری کو مشترکہ طور پر گیسی دیو بھی کہا جاتا ہے۔ ان سیاروں کو مشتری نما بھی کہا جاتا ہے۔ زحل کا مدار زمین کے مدار کی نسبت 9 گنا بڑا ہے۔ تاہم اس کی اوسط کثافت زمین کی کثافت کا آٹھواں حصہ ہے۔ تاہم کمیت میں یہ سیارہ زمین سے 95 گنا بڑا ہے۔
زحل کی کمیت اور نتیجتاً اس کی کششِ ثقل کی وجہ سے زمین کی نسبت زحل کے حالات بہت شدید ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ زحل کے اندر لوہا، نکل، سیلیکان اور آکسیجن کے مرکبات پائے جاتے ہیں۔ ان کے گرد دھاتی ہائیڈروجن موجود ہے جبکہ ان کے درمیان مائع ہائیڈروجن اور مائع ہیلئم پائی جاتی ہے۔ بیرونی سطح گیسوں سے بنی ہے۔ دھاتی ہائیڈروجن میں بہنے والی برقی رو کی وجہ سے زحل کا مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے جو زمین کی نسبت کچھ کمزور ہے۔ بیرونی فضاء زیادہ تر کمزور ہے تاہم طویل المدتی اثرات ہو سکتے ہیں۔ ہوا کی رفتار 1٫800 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے جو مشتری سے بھی زیادہ ہے۔
زحل کے گرد نو دائرے ہیں جو زیادہ تر برفانی ذرات سے بنے ہیں جبکہ کچھ پتھر اور دھول بھی موجود ہے۔ زحل کے گرد 62 چاند دریافت ہو چکے ہیں جن میں سے 53 کو باقائدہ نام دیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ چاند نما اجسام بھی ان دائروں میں موجود ہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ زحل کا سب سے بڑا چاند ٹائیٹن ہے اور یہ ہمارے نظامِ شمسی کا دوسرا بڑا چاند ہے۔ یہ چاند عطارد سے بڑا ہے اور ہمارے نظام شمسی کا واحد چاند ہے جہاں مناسب مقدار میں فضاء موجود ہے۔
طبعی خد و خال
ترمیمکم کثافت، تیز رفتاری اور مائع حالت کی وجہ سے زحل چپٹا دائرے نما ہے۔ اس وجہ سے قطبین پر زحل پھیلا ہوا جبکہ خطِ استوا پر باہر کو نکلا ہوا ہے۔ دیگر گیسی دیو بھی اسی شکل کے ہیں۔ زحل ہمارے نظامِ شمسی کا واحد سیارہ ہے جو پانی سے کم کثافت رکھتا ہے۔ زحل کا وزن زمین سے 95 گنا زیادہ ہے۔
اندرونی ڈھانچہ
ترمیمزحل کے اندرونی ڈھانچے کے بارے براہ راست کوئی معلومات نہیں لیکن اندازہ ہے کہ یہ مشتری سے مماثل ہے یعنی اس کے اندر چھوٹا سا دھاتی مرکزہ ہے جس کے گرد ہائیڈروجن اور ہیلئم موجود ہے۔ یہ دھاتی مرکزہ زمین کے دھاتی مرکزے کے مماثل لیکن کم کثیف ہے۔ اس کے گرد دھاتی ہائیڈروجن مائع حالت میں موجود ہے جس کے بعد مائع شکل میں ہائیڈروجن اور ہیلئم پائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد 1٫000 کلومیٹر کی فضاء موجود ہے۔ آتشگیر مواد بھی معمولی مقدار میں یہاں پائے جاتے ہیں۔ مرکزہ زمین کے کل وزن سے 9 سے 22 گنا زیادہ بھاری ہے۔ زحل کا اندرونی حصہ زمین کی نسبت بہت زیادہ گرم ہے جو 11٫700 ڈگری کے لگ بھگ ہے۔ زحل سورج سے آنے والی جتنی توانائی جذب کرتا ہے اس سے اڑھائی گنا زیادہ توانائی زحل خلاء میں خارج کرتا ہے۔
فضاء
ترمیمزحل کی بیرونی فضاء میں 96.3 فیصد ہائیڈروجن اور 3.25 فیصد ہیلئم ہے۔ انتہائی معمولی مقدار میں امونیا، ایسیٹیلین، ایتھین، فاسفین اور میتھن بھی پائی جاتی ہیں۔ زحل کے بالائی بادل زیادہ تر امونیا کی قلموں سے بنے ہیں جبکہ زیریں بادل یا تو امونیئم ہائیڈرو سلفائیڈ سے بنے ہیں یا پھر پانی سے۔
ہیلئم سے زیادہ بھاری عناصر کی مقدار کے بارے یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
بادلوں کی تہیں
ترمیمزحل کی فضاء مشتری کی طرح پٹیوں سے مل کر بنی ہے تاہم زحل کی یہ پٹیاں بہت دھندلی ہیں اور خط استوا کے نزدیک زیادہ پھیلی ہوئی ہیں۔ گہرائی میں یہ 10 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور درجہ حرارت منفی 23 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور یہ پٹی یا تہ پانی کی برف سے بنی ہے۔ اس تہ کے اوپر اندازہ ہے کہ امونیئم ہائیڈرو سلفائیڈ کی برف موجود ہے جو 50 کلومیٹر پر محیط ہے اور اس کا درجہ حرارت منفی 93 ڈگری ہے۔ اس کے اوپر 80 کلومیٹر تک امونیا کے بادل موجود ہیں جن کا درجہ حرارت منفی 153 ڈگری ہے۔ فضاء کے اوپر 200 سے 270 کلومیٹر کے علاقے میں ہائیڈروجن اور ہیلئم موجود ہیں۔ زحل کی ہوائیں ہمارے نظامِ شمسی کی تیز ترین ہیں۔ وائجر کے بھیجے گئے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ مشرق کی سمت تیز ترین ہوائیں 1٫800 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھیں۔ اس وقت زمینی دوربینیں اتنی طاقتور ہو چکی ہیں کہ اب ہم زمین سے زحل کے بادلوں کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔
زحل کے بے رنگ موسم میں کبھی کبھار طویل المدتی تبدیلی آتی ہے۔ 1990 میں ہبل خلائی دور بین نے استوا کے قریب ایک بڑا سفید بادل دیکھا جو وائجر کے سفر میں دکھائی نہیں دیا تھا۔ 1994 میں ایک اور چھوٹا طوفان دکھائی دیا۔ اس طرح کے طوفان زحل پر ہر سال آتے ہیں۔ زحل کا ایک سال زمین کے 30 سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ اس سے قبل 1876، 1903، 1933 اور 1960 میں اس طرح کے طوفان بھی دیکھے گئے ہیں۔ 1933 کا طوفان مشہور ترین ہے۔ اگر یہ سلسہ اسی طرح جاری رہا تو اندازہ ہے کہ 2020 میں اگلا طوفان آئے گا۔
کیسینی خلائی جہاز کی بھیجی ہوئی تصاویر کے مطابق زحل کا شمالی نصف کرہ یورینس کی طرح چمکدار نیلے رنگ کا تھا تاہم اس وقت زمین سے اس کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ زحل کے دائرے راستے میں آ جاتے تھے۔
برقی کرہ
ترمیمزحل کا اپنا مقناطیسی میدان عام نوعیت کا ہے جس میں دو قطب پائے جاتے ہیں۔ اس کی شدت زمینی مقناطیسیت سے کچھ کم ہے۔ نتیجتاً زحل کا مقناطیسی کرہ مشتری کی نسبت مختصر ہے اور ٹائیٹن کے مدار سے ذرا باہر تک پھیلا ہوا ہے۔
مدار اور گردش
ترمیمزحل اور سورج کا درمیانی فاصلہ اوسطاً 1 ارب 40 کروڑ کلومیٹر ہے جو 9 شمسی اکائیوں کے برابر ہے۔ ایک شمسی اکائی زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے کو ظاہر کرتی ہے۔ مدار میں زحل کی حرکت کی رفتار 9.69 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ اس رفتار سے زحل تقریباً 30 زمینی سالوں میں سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ زحل کے مدار کی نوعیت کے اعتبار سے زحل اور سورج کا درمیانی فاصلہ ساڑھے 15 کروڑ کلومیٹر تک کم ہو سکتا ہے۔
حلقے
ترمیمزحل کو اس کے حلقوں کی وجہ سے زیادہ جانا جاتا ہے جو اسے ہمارے نظام شمسی کا منفرد ترین سیارہ بناتے ہیں۔ یہ حلقے زحل کے خطِ استوا سے 6٫630 سے لے کر 1٫20٫700 کلومیٹر اوپر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی اوسط موٹائی 20 میٹر ہے اور 93 فیصد پانی کی برف اور 7 فیصد کاربن پر مشتمل ہیں۔ ان ذروں کا حجم دھول کے ذرے سے لے کر چھوٹی گاڑی تک ہو سکتا ہے۔ ان حلقوں کے بارے دو آراء ہیں۔ پہلی رائے میں یہ حلقے کسی سابقہ چاند کی باقیات ہیں[1] جبکہ دوسری رائے میں یہ حلقے اسی مادے کا بقیہ حصہ ہیں جس سے زحل بنا تھا۔ چند مرکزی حلقوں میں موجود برف زحل کے ایک چاند کے برفانی آتش فشانوں سے آئی ہے۔
قدرتی چاند
ترمیمزحل کے کم از کم 62 چاند ہیں۔ ٹائیٹن سب سے بڑا اور زحل کے گرد موجود تمام مادے کے 90 فیصد کے برابر ہے۔ اندازہ ہے کہ دوسرے بڑے چاند ریا کے گرد اس کا اپنا حلقوں کا نظام ہے۔ دیگر چاندوں میں سے 34 کا قطر 10 کلومیٹر سے کم ہے اور بقیہ 14 ایسے ہیں جن کا قطر 50 کلومیٹر سے کم ہے۔ عام طور پر ان چاندوں کو یونانی دیومالائی داستان کے کرداروں پر نام دیا جاتا ہے۔
مہم کی ابتدا
ترمیمزحل کی چھان بین تین ادوار میں منقسم ہے۔ پہلے یعنی قدیم دور میں جب تمام تر مشاہدات انسانی آنکھ سے بغیر کسی آلے کی مدد کے کیے جاتے تھے جب دوربین ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ 17ویں صدی سے بتدریج دوربینوں میں جدت پیدا ہونے لگی اور زمین سے دوربین کی مدد سے مشاہدات کیے جانے لگے۔ اس کے بعد خلائی جہاز جیسا کہ خلائی جہازوں کی مدد سے مشاہدات کیے جانے لگے۔
قدیم مشاہدات
ترمیمزحل کو قدیم دور سے جانا جاتا ہے۔ قدیم دور میں اسے نظام شمسی کے زمین کے علاوہ دیگر پانچ معلوم سیاروں میں سب سے دور مانا جاتا تھا۔ بابل کے ستارہ شناسوں نے اس کی نقل و حرکت کی باقاعدہ دستاویزی تحریر تیار کی۔ اس کے علاوہ ہندو مت اور یہودیت میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔
یورپی مشاہدات (17ویں تا 19ویں صدی)
ترمیمزحل کے حلقوں کو دیکھنے کے لیے کم از کم 15 ملی میٹر قطر کی دوربین کا ہونا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے 1610 میں پہلی بار ان حلقوں کا مشاہدہ گلیلیو نے کیا۔ تاہم گلیلیو کا خیال تھا کہ زحل کے گرد دونوں جانب دو چاند موجود ہیں۔ کرسچئن ہیخز نے مزید طاقتور دوربین کی مدد سے ان حلقوں کی شناخت کی۔ ہیخز نے ہی پہلی بار زحل کے چاند ٹائیٹین کا مشاہدہ کیا۔ کچھ عرصے بعد جیوانی ڈومینکو کیسینی نے ایاپیٹس، ریا، ٹیتھی اور ڈیان نامی مزید چاند دریافت کیے۔ 1675 میں کیسینی نے ہی ان حلقوں کے درمیان ایک خلاء دیکھا جسے کیسینی کی تقسیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
1789 تک مزید کوئی اہم دریافت نہیں ہوئی۔ تاہم اس سال ولیم ہرشل نے مزید دو چاند دریافت کیے جن کے نام میماس اور انکلاڈس رکھے گئے۔ ہاپیروئن نامی چاند کی شکل متناسب نہیں اور اسے برطانوی ٹیم نے 1848 میں دریافت کیا۔
1899 میں ولیم ہنری پکرنگ نے فوب کو دریافت کیا جو بے قاعدہ چاند ہے۔ دیگر چاندوں کے برعکس اس کی مدار میں حرکت الٹ سمت میں ہے۔ 20ویں صدی کے اوائل سے ہونے والی تحقیق سے 1944 میں یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچ گئی کہ زحل کے چاند ٹائیٹن پر باقاعدہ فضاء موجود ہے جو ہمارے نظام شمسی کے چاندوں کے لیے اچھنبے کی بات ہے۔
ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی کے خلائی جہاز
ترمیمپائینئر 11 کا گذرنا
ترمیمزحل کے نزدیک سے پہلی بار پائینئر 11 نامی خلائی جہاز 1979 میں گذرا تھا۔ یہ خلائی جہاز زحل کے بادلوں کی اوپری سطح سے 20٫000 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے سے گذرا تھا۔ ہلکے معیار کی تصاویر سے زحل اور اس کے کچھ چاندوں کے بارے کچھ معلومات ملی تھیں۔ اس خلائی جہاز نے زحل کے حلقوں کا بھی مشاہدہ کیا اور پتہ چلا کہ "خالی" حلقوں کو جب سورج کے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وہ خالی نہیں دکھائی دیتے۔ اس خلائی جہاز نے ٹائیٹن کے درجہ حرارت کی پیمائش بھی کی۔ تصاویر کے دھندلے ہونے کی وجہ زحل پر سورج کی کم روشنی پہنچنا اور اس دور کے کیمروں کا پرانا ہونا بھی اہم وجوہات تھیں۔
وائجر کا گذرنا
ترمیمنومبر 1980 میں وائجر اول نامی خلائی جہاز زحل سے گذرا۔ اس جہاز سے ہمیں زحل اور اس کے نظام کے بارے پہلی بار صاف اور واضح تصاویر ملیں۔ پہلی بار زحل کے چاندوں کی سطح کی تصاویر بھی واضح دکھائی دیں۔ وائجر اس سفر میں ٹائیٹن کے قریب سے بھی گذرا جس سے ہمیں اس چاند کی فضاء کے بارے اہم معلومات جاننے کو ملیں۔ ٹائیٹن کے پاس سے گذرنے کی وجہ سے وائجر کا رخ ہمارے نظام شمسی سے باہر کی جانب ہو گیا۔
تقریباً ایک سال بعد اگست 1981 میں وائجر دوم نے زحل کے چاندوں کے بارے ہمارے علم میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ زحل کے چاندوں کے بارے مزید واضح تصاویر ملنا شروع ہو گئیں اور زحل کی فضا میں ہونے والی تبدیلیاں اور حلقے بھی واضح ہونے شروع ہو گئے۔ بدقسمتی سے وائجر دوم کا متحرک کیمرا اس وقت پھنس گیا اور دو دن تک منصوبے کے مطابق تصاویر نہیں لی جا سکیں۔ زحل کی کشش کو استعمال کرتے ہوئے وائجر دوم کا رخ یورینس کی جانب کر دیا گیا۔ ان خلائی جہازوں نے پہلے سے موجود چاندوں کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ نئے چاند اور حلقوں کو بھی دریافت کیا۔
کیسینی ہیخز خلائی جہاز
ترمیمیکم جولائی 2004 کو کیسینی ہیخز نامی خلائی جہاز زحل کے مدار میں داخل ہو کر اس کے گرد گھومنے لگا۔ مدار میں داخل ہونے سے قبل اس خلائی جہاز نے زحل کے نظام کا اچھی طرح جائزہ لیا تھا۔ جون 2004 میں یہ فوب کے قریب سے گذرا اور ہمیں اس کے بارے بہترین تصاویر اور مواد بھیجا۔
کیسینی پھر زحل کے سب سے بڑے چاند ٹائیٹن کے پاس سے گذرا اور ریڈار سے لی گئی تصاویر سے پتہ چلا ہے کہ ٹائیٹن پر بڑی جھیلیں اور ان کے ساحل کے علاوہ جزیرے اور پہاڑ بھی موجود ہیں۔ دو بار ٹائیٹن کے قریب سے گذرنے کے بعد کیسینی نے 25 دسمبر 2004 کو ہیخز نامی ایک چھوٹا سیارہ ٹائیٹن کی طرف روانہ کیا۔ 14 جنوری 2005 کو ہیخنز جہاز ٹائیٹن کی سطح پر پہنچا اور تصاویر کی بہت بڑی مقدار بھیجنے لگا۔ یہ تصاویر ٹائیٹن کی سطح پر اترنے کے عمل اور اترنے کے بعد فضا اور سطح سے متعلق تھیں۔ 2005 میں کیسینی نے ٹائیٹن کے گرد کئی چکر لگائے اور ٹائیٹن اور دیگر برفانی چاندوں کی تصاویر بھیجتا رہا۔ 23 مارچ 2008 کو کیسنی ٹائیٹن سے آگے کو روانہ ہو گیا۔
2005 سے سائنس دان ٹائیٹن پر آسمانی بجلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس بجلی کی شدت زمینی بجلی سے تقریباً 1000 گنا زیادہ ہے۔
2006 میں ناسا نے مطلع کیا کہ کیسینی نے زحل کے چاند انکلیڈس پر مائع پانی ڈھونڈ لیا ہے۔ یہ پانی آتش فشانی گیزروں سے نکل رہا تھا۔ تصاویر میں برفانی سوراخوں سے مائع پانی نکلتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک سائنس دان کے مطابق ہمارے نظام شمسی کے دیگر چاندوں پر مائع پانی کئی کلومیٹر گہری برف کی تہ کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ تاہم انکلیڈس پر یہ پانی سطح سے چند میٹر ہی نیچے ہے۔ مئی 2011 میں ناسا کے سائنس دانوں نے اعلان کیا ہے کہ نظام شمسی میں زمین کے بعد دوسرا سب سے زیادہ رہائش کے قابل چاند انکلیڈس ہے۔
کیسینی خلائی جہاز کی بھیجی ہوئی تصاویر سے بہت سے دیگر حیران کن انکشافات بھی ہوئے ہیں جن میں ایک نئے حلقے کی دریافت بھی شامل ہے۔ جولائی 2006 میں کیسینی کی تصاویر نے ٹائیٹن کے قطب شمالی پر مائع ہائیڈروکاربن کی جھیلیں دریافت ہوئی ہیں۔ ان کی تصدیق جنوری 2007 میں ہوئی تھی۔ مارچ 2007 میں ٹائیٹن کی قطب شمالی کے قریب ہائیڈروکاربن کے سمندر دریافت ہوئے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا بحیرہ کیسپئن کے برابر ہے۔ اکتوبر 2006 میں زحل کے قطب جنوبی پر 8٫000 کلومیٹر قطر کا ہری کین یعنی سمندری طوفان بھی دریافت ہوا ہے۔
2004 سے 2 نومبر 2009 تک کیسینی نے زحل کے آٹھ نئے چاند دریافت کیے جن کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ زحل کے گرد 74 چکر پورے کرنے کے بعد اس خلائی جہاز کا بنیادی مقصد 2008 میں پورا ہو گیا تھا۔ تاہم بعد میں مشن میں توسیع کرتے ہوئے اسے ستمبر 2010 تک بڑھا دیا گیا۔ مزید توسیع کے بعد یہ مشن 2017 تک بڑھا دیا گیا ہے جس میں زحل کے تمام موسموں کا جائزہ لیا جا سکے گا۔
مشاہدہ
ترمیمزمین سے عام آنکھ سے دیکھے جانے والے پانچ سیاروں میں سے زحل سب سے دور ہے۔ اولین ستارہ شناس اسے 1781 تک ہمارے نظام شمسی کا آخری سیارہ مانتے تھے۔ اس سال یورینس کی دریافت ہوئی۔ زحل کے گرد موجود حلقوں کو دیکھنے کے لیے زیادہ تر افراد کو دوربین کی ضرورت پڑے گی جس کی طاقت کم از کم 20 ایکس ہو۔ زحل اور اس کے حلقوں کو دیکھنے کے لیے بہتر وقت وہ ہے جب زمین سورج اور زحل کے درمیان موجود ہو۔
حوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر زحل سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |