زراعت کا نسوانیانا
زراعت کا نسوانیانا (انگریزی: Feminization of agriculture) دنیا بھر میں زراعت میں خواتین مختلف سطحوں پر کام کر رہی ہیں۔ یہ کہیں گھیتوں کی ملکیت اور نگرانی کی شکل میں ہے کو کہیں بیجوں کی بوائی، فصل کی کٹائی، ٹریکٹر چلانا اور اسی طرح زرعی پیداوار کی ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقلی پر مبنی ہے۔ دست یاب اعداد و شمار کی رو سے ترقی پزیر ملکوں میں کی زرعی افرادی قوت میں خواتین 43 فی صد ہیں۔ لاطینی امریکا میں تعداد محض 20 فی صد ہے، جب کہ مشرقی ایشیا اور ذیلی صحرائے افریقا یہ 50 فی صد یا کام کرنے والی آبادی کا آدھا حصہ ہیں۔ [1] اس طرح سے نسوانی معاشیات کی رو سے یہ تناسب کسی بھی ملک اور خطے کی آمدنی اور کام کرنے والوں کا ایک معتد بہ حصہ ہے۔
مختلف ممالک میں حصے داری
ترمیم- بھارت میں زراعت میں 1990ء کی دہائی تک، کھیتوں میں بیج ڈالنے والوں میں 76 فیصد تعداد عورتوں کی تھی، جب کہ دھان کے پودے کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانے والوں میں 90 فیصد عورتیں شامل تھیں۔ کھیتوں سے گھروں تک فصلوں کو کاٹ کر لے جانے میں عورتوں کی حصہ داری 82 فیصد تھی، زمین کو جوت کر فصل کے لیے تیار کرنے کے کام میں 32 فیصد اور دودھ کے کاروبار میں 69 فیصد عورتیں شامل تھیں۔ اب ان کے کام کا بوجھ اس سے بھی کہیں زیادہ ہو چکا ہے۔[2]
- پاکستان میں خواتین، خاص کر دیہی علاقوں کی خواتین کے بارے میں عوام اور میڈیا کی سطح پر کیا تاثر پایا جاتا ہے، اس بارے میں پاکستانی میڈیا میں بہتر صنفی نمائندگی کے موضوع پر کام کرنے والے محمد اقبال خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ملک کے ایک بڑے حصے، خاص کر پنجاب اور سندھ میں زراعت کے شعبے میں خواتین بہت محنت کرتی ہیں۔ لیکن انھیں نہ تو ان کی محنت کا معقول معاوضہ ملتا ہے اور نہ ان کی خدمات کو کھلے دل سے تسلیم کیا جاتا ہے۔‘‘[3]