زفر بن ہذیل
ابو الہذیل امام زفر بن الہذيل بن قيس التمیمی العنبری البصری جو امام ابو حنیفہ کے جلیل القدر شاگرد،فقیہ، مجتہد،امام اوراصحاب المذہب میں بھی شامل ہیں۔
زفر بن ہذیل | |
---|---|
(عربی میں: زُفر بن الهذيل العنبري التميمي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 728ء اصفہان ، کوفہ |
وفات | سنہ 775ء (46–47 سال) بصرہ |
قومیت | خلافت امویہ خلافت عباسیہ |
عملی زندگی | |
استاد | ابو حنیفہ ، سلیمان بن مہران الاعمش |
پیشہ | عالم ، فقیہ ، محدث |
شعبۂ عمل | فقہ ، علم حدیث |
درستی - ترمیم |
امام زفر
ترمیمامام ابوحنیفہ کے تیسرے ممتاز شاگرداورمعروف مجتہد امام زفر بن ہذیل ہیں، یہ اپنے علم و فضل اور ملکۂ اجتہاد میں امام ابویوسف اور امام محمد سے کم نہ تھے؛ بلکہ قیاس میں تویہ صاحبین سے کچھ آگے ہی تھے، عام تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ اَحَدہم قیاساً امام صاحب کے تلامذہ میں قیاس کرنے میں سب سے زیادہ تیز تھے؛ لیکن اس استعداد وصلاحیت کے باوجود اتنے مشہور نہیں ہوئے جتنے کہ صاحبین ہوئے، اس کی وجہ شاید یہ ہوا کہ صاحبین میں ملکۂ اجتہاد کے ساتھ قوت تحریر اوت تصنیف وتالیف کی صلاحیت بھی تھی اور انھوں نے اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی تھیں، اس لیے دنیا نے ان کے علم و فضل کوزیادہ جانا اور امام زفر اس نعمت سے یاتومحروم تھے یاانہوں نے اسے اختیار نہیں کیا اس لیے وہ کوئی ایسی تحریری یادگار نہیں چھوڑ گئے کہ دنیا ان کے فضل وکمال کا پورا اندازہ کرتی۔
امام زفر رحمہ اللہ اس حیثیت سے بھی امام صاحب کے تلامذہ میں ممتاز ہیں کہ ان کوامام صاحب نے اپنی زندگی ہی میں درس وتدریس کی اجازت دے دی تھی، جب کہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد کوان کی زندی میں اس کی اجازت نہیں مل سکی تھی، علم و فضل کے ساتھ زہد واتقا اور استغنا وبے نیازی میں بھی امام صاحب کا پرتوان پرپڑا تھا؛ چنانچہ حکومت کے شدید اصرار بلکہ سختی کے باوجود انھوں نے عہدۂ قضا قبول نہیں کیا اس جرم میں ان کا گھرگرادیا گیا، ان کوروپوشی کی مصیبت بھی اُٹھانی پڑی مگر اس سب کے باوجود انھوں نے اپنے کواس آزمائش میں ڈالنا پسند نہیں کیا۔
نام ونسب
ترمیمزفر نام، ابوالہذیل کنیت تھی، بصرہ (بعض لوگوں نے ان کواصبہانی لکھا ہے؛ لیکن یہ صحیح نہیں ہے) آبائی وطن تھا، ان کے والد ہذیل اموی دور میں اصبہان کے والی تھے، یہیں سنہ110ھ میں ا کی ولادت ہوئی۔ [1]
ولادت
ترمیمان کی پیدائش 110ھ بمطابق 728ء میں ہوئی ۔
خاندان
ترمیمان کا سلسلہ نسب عدنان سے مل جاتا ہے، ان کا خانوادہ بصرہ کے ممتاز عربی خانوادوں میں تھا، کردری نے لکھا ہے مِنْ بَیْتٍ شریف غالباً اسی امتیاز کی وجہ سے یزید بن عبدالملک نے ان کے والد کو اصبہان (علامہ زاہد الکوثری نے تاریخ اصبہان کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ اصبہان کے والی مقرر تھے وہیں، امام زفر رحمہ اللہ کی ولادت ہوئی؛ مگرکردری نے لکھا ہے کہ یہ بصرہ کے والی تھے، تاریخ اصبہان ہمارے سامنے موجود نہیں ہے؛ لیکن شدزرات الذہب وغیرہ سے پہلے بیان کی تائید ہوتی ہے؛ اس لیے اسی کواختیار کیا گیا ہے) جیسے اہم مقام کا والی (گورنر) مقرر کر دیا تھا، ا نکے ایک بھائی صباح بن ہذیل بنوتمیم کے صدقات کی وصولی کے عامل مقرر کیے گئے تھے۔ امام زُفر رحمہ اللہ کی اہلیہ بصرہ کے ممتاز محدث خالد بن حارث کی بہن تھیں، ان کی والدہ البتہ عجمی النسل تھیں، چنانچہ انھوں نے صورت ان کی اور سیرت باپ کی پائی تھی، حجاج بن ارطاۃ کہا کرتے تھے، اللسان عربی لاالوجہ، ان کا چہرہ توعربوں جیسا نہیں ہے؛ مگرزبان عربوں جیسی ہے۔
تعلیم و تربیت
ترمیمامام زُفر رحمہ اللہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں تذکرے خاموش ہیں؛ البتہ ان سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ ان کی تعلیم کا آغاز محدثین کی آغوش میں ہوا؛ مگران کی ذہانت اور طباعی محض تحدیث روایت پراکتفا نہ کرسکی او ران کوامام ابوحنیفہ کے درس فقہ تک کھینچ لائی، امام طحاوی کے واسطہ سے یہ روایت تذکروں میں درج ہے کہ امام زفر رحمہ اللہ ابتداً محدثین کی خدمت میں تحصیل علم کے لیے جایا کرتے تھے، ایک دن ایک مسئلہ ایسا پیش آیا کہ جسے ان کے شیوخ حل نہ کرسکے، وہ ناچار امام صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں آئے اور مسئلہ دریافت کیا، امام صاحب رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا؛ مگرامام زفر رحمہ اللہ اس سے مطمئن نہیں ہوسئے اور کتاب وسنت سے اس کی دلیل پوچھی، امام صاحب رحمہ اللہ نے اپنے دستور کے مطابق فرمایا کہ یہ مسئلہ فلاں حدیث سے ماخوذ ہے اور اس کے عقلی دلائل یہ ہیں ؛ پھرامام صاحب نے فرمایا کہ اگرمسئلہ کی صورت یہ ہوتوپھر جواب کیا ہوگا؟ امام زفر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس صورت کا سمجھنا تومیرے لیے پہلی صورت سے بھی زیادہ دشوار ہے، امام صاحب نے اس کا بھی جواب عنایت فمرایا اس کے بعد امام صاحب نے کچھ اور مسائل پرروشنی ڈالی، امام زفر رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں امام صاحب کی مجلس سے بہت خوش خوش واپس ہوا اور اپنے اصحاب حدیث کے سامنے ان مسائل کورکھا کہ وہ ان کا جواب دیں مگروہ کسی مسئلہ کا کوئی جواب نہیں دے سکے، میں نے پھرتمام مسائل کے جوابات اور ان کے دلائل ان کے سامنے بیان کیے تووہ حیرت زدہ ہو گئے اور پوچھا کہ یہ باتیں تمھیں کہاں سے معلوم ہوئیں، میں نے بتایا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس درس میں، اس کے بعد سے میں اپنے ساتھیوں میں راس الحلقہ سمجھا جانے لگا [2] اس واقعہ کے بعد سے وہ بالاالتزام امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مجلسِ درس میں شامل ہونے لگے اور تقریباً بیس برس تک ان کی خدمت اور رفاقت میں رہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مجلسِ درس میں عجیب کشش اور اس کی یہ عجیب خصوصیت تھی کہ جوایک بار اس میں شریک ہو گیا؛ پھرکیا مجال کہ وہ اس کوچھوڑ کر کسی دوسری جگہ جائے، امام ابویوسف رحمہ اللہ، امام محمد رحمہ اللہ اور امام زفر رحمہ اللہ یہ تمام حضرات پہلے کسی اور حلقہ درس میں شریک تھے؛ مگرجب امام صاحب کی حدمت میں آئے توپھر وہیں کے ہوکر رہ گئے، امام ابویوسف رحمہ اللہ کے شیوخ کی فہرست سو سے زیادہ ہے اور اس سے کچھ زیادہ امام محمد کے شیوخ ہیں، خود امام زفر کے شیوع کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے؛ مگرجومحبت شیفتگی اور عقیدت ان لوگوں کوامام صاحب رحمہ اللہ سے تھی وہ کسی سے نہیں تھی اس میں امام صاحب کے علم وتفقہ اور ان کے مجتہدانہ درس کے ساتھ ان کے عام اخلاق وکردار اور زہد وتقویٰ کا بڑا دخل تھا، خصوصیت سے طلبہ کے ساتھ وہ جس شفقت، حسن سلوک اور مساوات کے ساتھ پیش آتے تھے اور ان کے لیے جودلسوزی کرتے تھے، اس کی مثال دوسری جگہ کم ملتی ہے۔ امام زفر رحمہ اللہ امام صاحب کی زندگی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں۔ جالستُ أباحنيفة أكثر من عشرين سنة فلم أرأحداً أنصح وَأشفق النَّاسَ منه، وَإِنَّہُ یبذل نفسه لله تعالى، أمّاعامة النهار فَإِنَّہُ کَانَ مشغولا باالمسائل وحلِّھا وتعلیمہا فاذا قام من المجلس عاد مریضاً اوشیَّع جنازۃ اوواسی فقیرا اوواصل اخاً اوسعی فی حاجۃٍ فاذاکَانَ اللَّیْلُ خلاللتلاوۃ والعبادۃِ والصَّلوٰۃِ فَکَانَ ھَذَا سبیلہٖ حتی توفی۔ [3] ترجمہ: میں بیس برس سے زیادہ امام صاحب کی حدمت میں رہا، میں نے ان سے زیادہ کسی کوعام انسانوں کا خیرخواہ مخلص اور مشفق نہیں دیکھا، وہ صرف خدا ہی کے لیے اپنی جان کھپایا کرتے تھے، کوئی دوسرا جذبہ نہیں ہوتا تھا، قریب قریب پورے دن وہ مسائل کے حل اور ان کی تعلیم وتدریس میں لگے رہتے تھے، جب مجلسِ درس سے اُٹھتے تھے توکسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے یاکسی جنازہ میں شرکت کرتے یاکسی سے ملاقات کے لیے جاتے یاپھرکسی کی کوئی اور ضرورت پوری کرنے میں لگ جاتے تھے، جب رات ہوجاتی توپھرذکر تلاوت اور نماز کے لیے اپنے کویکسو کرلیتے تھے، پوری زندگی انھوں نے اسی طریقہ پرگذاردی۔
امام زفر رحمہ اللہ کے دوسرے شیوخ
ترمیماوپرذکر ااچکا ہے کہ امام زفرؒ اللہ ابتداً کوفہ کے دوسرے شریوخ حدیث سے استفادہ کرتے تھے، اس کے بعد ان کوامام صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہوا، امام صاحب کے علاوہ جن شیوخ سے انھوں نے استفادہ کیا ان کی تعداد کافی ہے، چند مشاہیر کے نام یہ ہیں: سلمان بن مہران معروف بہ اعمش، یحییٰ بن سعید، محمد بن اسحاق صاحب المغازی، یحییٰ بن ایوب التیمی، اسماعیل بن ابی خالد، ایوب علیہ سختیانی، زکریا بن ابی زائدہ، سعید بن ابی عروبہ۔ نہایت ذہین اور ذکی تھے، اس لیے اپنے تمام اساتذہ کی نظروں میں بہت محبوب رہے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی انھیں بہت عزیز رکھتے تھے۔
امام صاحب کا طریقِ تعلیم اور امام زفر
ترمیمامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ درس وتدریس عام شیوخ سے مختلف تھا، دوسرے شیوخ عموماً اپنی معلومات طلبہ کواملا کرادیتے تھے یاپھرزبانی تحدیث روایت کردیتے تھے؛ مگرامام ابوحنیفہ رحزہ اللہ کا درس مجتہدانہ اوت تمرینی ہوتا تھا وہ طلبہ کے سامنے مسائل پیش کرکے انھیں سے جواب لیتے تھے اور پھران ہی سے دلائل پوچھتے تھے، جب تلامذہ اپنی معلومات پیش کردیتے تھے توامام صاحب اپنی معلومات ان کے سامنے رکھتے، اس بحث وتمحیص کے بعد جواصول وفروع طے ہوجاتے تھے، ان کوقلمبند کر لیا جاتا تھا [4] اس طریقہ درس کا نتیجہ تھا کہ امام صاحب کے تلامذہ میں جتنے ممتاز مجتہدین اور فقہا پیدا ہوئے کسی امام کے تلامذہ میں نہیں ہوئے۔
شیوخ کی رائے
ترمیمامام صاحب امام ابویوسف اور امام زفر رحمہم اللہ کوتمام تلامذہ میں ممتاز حیثیت دیتے تھے، ایک بار فرمایا کہ میرے چھتیس اصحاب ایسے ہیں جن میں اٹھائیس قاضی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور چھ مفتی بن سکتے ہیں اور دوآدمی یعنی ابویوسف اور زفر قاضیوں اور مفتیوں کی تعلیم و تربیت کا کام کرسکتے ہیں۔ [5]
استاد کا احترام
ترمیمامام زفر رحمہ اللہ امام صابح کا غایت درجہ احترام کرتے تھے، فرماتے تھے کہ امام صاحب کی زندگی میں میں ان سے اختلاف کرتا تھا؛ مگراب ہمت نہیں پڑتی جب ان کی شادی ہوئی توامام صاحب رحمہ اللہ کوانہوں نے مدعو کیا اور خطبہ کی خواہش ظاہر کی اور لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہ اپنے علم و فضل اور شرف کے لحاظ سے امام المسلمین ہیں، بعض لوگوں کویہ اعزاز برامعلوم ہوا اور اُن سے کہا کہ تمھارے خاندان اور قوم کے ممتاز لوگ موجود ہیں، ان سے خطبہ کی خواہش نہیں کی، امام زفر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگرمیرے والد بھی موجود ہوتے تومیں ان پربھی امام صاحب کوترجیح دیتا۔ [6]
درس وتدریس
ترمیمامام صاحب نے اپنی زندگی ہی میں ان کودرس وتدریس کی اجازت دے دی تھی؛ مگرانہوں نے استاد کی موجودگی میں غالباً درس وتدریس کا مشغلہ جاری نہیں کیا؛ بلکہ ان کی وفات کے بعد یہ سلسلہ جاری کیا، یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ انھوں نے کوفہ میں کتنے دنوں تک درس وتدریس کا سلسلہ قائم رکھا؛ مگربہرِحال انھوں نے کچھ دن یہاں درس دیا؛ پھربصرہ منتقل ہو گئے۔
بصرہ میں مجلسِ درس
ترمیمبصرہ کی فضا اس وقت امام صاحب کے تلامذہ کے لیے نہایت غیر موزوں تھی؛ گووہاں امام صاحب کے متعدد ممتاز تلامذہ موجود تھے؛ مگرکسی نے درس وتدریس کا سلسلہ جاری کرنے کی ہمت نہیں کی۔ یوسف بن خالد بصری، امام صاحب کے خاص شاگرد تھے، جب وہ امام صاحب کی خدمت سے وطن واپس ہونے لگے توامام صاحب نے اُن سے کہا تھا کہ بصرہ میں بہت سے صاحب علم و فضل ہیں وہاں جاکر کسی کھمبے سے لگ نہ بیٹھنا (اس وقت دینی علوم کی درسگاہیں مسجدیں ہوتی تھیں، یہ اسی طرف اشارہ ہے کہ مسجد کے کسی کھمبے سے لگ کرمسنددرس نہ بچھادینا) یعنی درس وتدریس کا سلسلہ نہ جاری کردینا اور یہ کہنے لگنا کہ ابوحنیفہ نے یہ اور یہ کہا ہے؛ ورنہ جلد ہی مسند درس اُٹھادینی پڑے گی؛ مگرانہوں نے امام صاحب کی ہدایت پرعمل نہیں کیا اور بصرہ پہچنتے ہیں مسنددرس قائم کردی، نتیجہ وہی ہوا جس کی امام صاحب نے پیش گوئی کی تھی، یعنی ان کوجلد ہی مسنددرس اُٹھادینی پڑی، اس وقت بصرہ میں عثمان بن مسلم امام بصرہ تھے، یہ ان کی خدمت میں جانے لگے مگر ان سے وہاں بھی خاموش نہیں رہا گیا اور انھوں نے امام صاحب کے اقوال ان کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیے جس کے نتیجہ میں شیخ عثمان کے تلامذہ نے ان کوزدوکوب تک کیا۔ [7]
ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بصرہ میں امام صاحب اور ان کے تلامذہ سے لوگوں میں کتنی نفرت پھیلی ہوئی تھی؛ انہی حالات میں امام زفر رحمہ اللہ بصرہ جاتے ہیں، امام صاحب لوگوں کی نفسیات اور ان کی سیاست اور رحجان سے خوب واقف تھے؛ اسی لیے انھوں نے یوسف بن خالد کواہلِ بصرہ کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا؛ مگروہ اس کونہ سمجھ سکے، جس کے نتائج ان کے حق میں اچھے نہیں ہوئے، امام زفر رحمہ اللہ خود بھی ذہین اور موقع شناس تھے اور پھرامام صاحب کی اس ہدایت سے بھی واقف تھے، اس لیے جب وہ بصرہ گئے توانہوں نے پہلے حلقۂ درس نہیں قائم کیا؛ بلکہ شیخ عثمان بن مسلم کی مجلس درس میں شرکت کرنے لگے، کچھ روز وہ چپ چاپ درس میں شریک ہوکر سنتے رہے، اس کے بعد انھوں نے ان کے اصول وفروع پرنظرڈالی توبہت سے مسائل کے سلسلہ میں اصل وفرع اور ماخوذ میں تضاد نظر آیا، امام زفر رحمہ اللہ نے ان مسائل کا تذکرہ ان کے تلامذہ سے کرتے اور پھربہ دلائل اُن کی غلطی واضح کرتے وہ تلامذہ اس کا ذکر شیخ سے کرتے اور اُن سے اپنی رائے سے رجوع کرنے کے لیے اصرار کرتے، تھوڑے دن کے بعد نتیجہ یہ ہوا کہ امام زفر رحمہ اللہ سے استفادہ کرنے والوں کا ہجوم ہوا اور ان کوایک الگ حلقۂ درس قائم کرنا پڑا، ابواسد کہتے ہیں کہ ان کے درس میں اتنا ہجوم ہوا کہ وہاں کے اکثر حلقہائے درس ٹوٹ گئے (اتنا ہی نہیں ہوا؛ بلکہ اسی اختلاف کی وجہ سے ان کوبے دین اور مبتدع وغیرہ ٹھہرایا گیا)۔ امام زفر بہت دقیق النظر اور باریک بین تھے، اس لیے بعض تلامذہ ان کا درس سمجھ نہیں پاتے تھے اور اس سے اکتاجاتے تھے، مشہور محدث وکیع بن الجراح امام صاحب رحمہ اللہ کے پاس جاتے تھے توبہت تیار ہوکر جاتے تھے، مشہور محدث وکیع بن الجراح امام صاحب کے تربیت یافتہ ہیں، امام کی وفات کے بعد بغرض استفادہ صبح کوامام زفر کے پاس اور شام کوامام ابویوسفؒ کے پاس جایا کرتے تھے۔ لیکن امام ابویوسف چونکہ عہدۂ قضا اور دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے مشغول رہتے تھے جس کی وجہ سے ان کواستفادہ کا موقع کم ملتا تھا، اس لیے انھوں نے اب صرف امام زفر رحمہ اللہ ہی کے پاس اپنی آمدورفت محدود کرلی، ان کے بارے میں فرماتے تھے کہ: الحمد اللہ الذی جعلک خلفاً لنا عن الامام ولکن لایذہب عنی حسرۃ الامام۔ [8] ترجمہ: حدا کا شکر ہے کہ آپ کواس نے امام کا جانشین بنایا؛ اگرچہ امام صاحب کی غیر موجودگی کی حسرت کسی طرح دل سے نہیں جاتی۔
تلامذہ
ترمیمان کی عمر نے زیادہ وفا نہیں کی؛ پھربھی جتنے دن انھوں نے درس دیا ان سے ایک خلق کثیر فیضیاب ہوئی، چند مشہور تلامذہ کے نام یہ ہیں: عبد اللہ بن مبارک، محمد بن حسن، وکیع بن جراح، سفیان بن عیینہ، ہلال بن یحییٰ، حسن بن زیادہ، محمد بن عبد اللہ انصاری، فضل بن وکین، ابراہیم بن سلیمان، بشرابن قاسم، محمد بن وہب، حافظ خالد بن حارث وغیرہ۔
عہدۂ قضا
ترمیمحافظ ابن عبد البر اور عبد القادر قرشی نے لکھا ہے کہ امام زفر بصرہ کے قاضی بھی بنائے گئے تھے اور اہلِ بصرہ کوامام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کے مسلک سے جوکچھ اختلاف تھا اور جوغلط فہمی تھی وہ ان کے قاضی ہی ہونے کے بعد ختم ہوئی [9] مگریہ خیال صحیح نہیں ہے کہ وہ بصرہ یاکسی اور جگہ کے قاضیح مقرر کیے گئے، عدم صحت کے وجوہ یہ ہیں: (1)سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ سوار بن عبد اللہ سنہ138ھ سے لے کر سنہ156ھ تک بصرہ کے قاضی رہے اور امام زفر رحمہ اللہ کی وفات سنہ158ھ میں ہوئی ہے، اس لیے ان کے عہدۂ قضا کے تقرر کا زمانہ زیادہ سے زیادہ دوبرس ہو سکتا ہے؛ مگراس مدت میں وہ منصب درس پرمتمکن نظ رآتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان کی عمر کا اور کوئی حصہ نہیں بچتا جس میں یہ عہدہ قبول کرسکتے ہوں۔ (2)بعض روایتوں میں ہے کہ قاضی سوار کے بعد ان کے لڑکے عبد اللہ اس عہدہ پرمامور ہوئے اگریہ روایت صحیح ہے توپھرامام زفر رحمہ اللہ کے بارے میں عہدہ قضا قبول کرنے کی روایت بالکل ہی بے بنیاد ہے، بصرہ کے قیام کے زمانہ میں ان سے وہاں کے اہلِ علم سے جوعلمی مباحثے ومناظرے ہوئے اور ان کے لیے بصرہ کی فضا ہموار ہوئی اس کی وجہ سے حافظ ابن عبد البر کویہ غلط فہمی ہوئی کہ یہ عہدۂ قضا ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ (3)تیسری بات یہ کہ عہدۂ قضا قبول نہ کرنے کے سلسلہ میں جوصریح روایتیں موجود ہیں اس کی موجودگی میں مذکورہ روایت بالکل ہی موضوع معلوم ہوتی ہے، کردری لکھتے ہیں: اکرہ زفر علی ان یلی القضاء فابیٰ۔ ترجمہ: امام زفر کومجبور کیا گیا کہ وہ عہدۂ قضاء قبول کر لیں؛ لیکن انھوں نے انکار کیا۔ ظاہر ہے کہ حکومت کی کسی پیشکش کوٹھکرا دینا کچھ ااسان نہیں تھا؛ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ: ھدم منزلہ واختفی مدۃ ثم خرج واصلح منزلہ ثم ہدمہ ثانیاً واختفی کذالک حتی عفی عنہ۔ [10]
ترجمہ: ان کا گھر گرادیا گیا اور وہ مدتوں روپوش رہے؛ پھرآکر انھوں نے اپنا مکان درست کرایا؛ پھردوبارہ گرادیا گیا وہ مدتوں روپوش رہے؛ پھرجاکے ان کومعاف کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس واضح بیان کے بعد ان کے عہدۂ قضاء قبول کرلینے کی روایت کے عدم صحت میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؛ پھرامام صاحب اور ان کے تلامذہ کے عہدہ قضاء نہ قبول کرنے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک غیر معمولی عزم وارادہ، ہمت وجرأت اور عدیم المثال کردار کا ثبوت ہے، ان کی اس قربانی اور ایثار نفسی نے دین کے وقار کوبلند کیا، حکومت کے غلط رُخ کوبڑی حد تک موڑا اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ امام صاحب اور امام زفر رحمہ اللہ جیسے اولوالعزم بزرگوں ہی کی قربانی نے امام ابویوسف رحمہ اللہ اور دوسرے بزرگوں کے لیے حکومت کی فضا سازگار بنائی کہ وہ حکومت میں رہ کردینی مقاصد برروئے کار لاسکے؛ پھریہ بات بھی قابل قدر ہے کہ کوئی معمولی لیاقت کا آدمی اس عہدہ سے انکار کرتا توزیادہ تعجب انگیز نہیں تھا، اس لیے کہ اس وقت کے سلاطین ووزراء تک بھی اچھے خاصے دین کے عالم ہوتے تھے، ان کے سامنے ان کی لیاقت اور علمی صلاحیت کا ہروقت امتحان ہوا کرتا تھا اور پھروہ حکومت تقریباً شخصی حکومت تھی، جس کے لیے حبس وقتل ایک معمولی بات تھی، اس لیے ہرشخص اس کے قبول کرنے کی جرأت کربھی نہیں سکتا تھا؛ مگرامام صاحب اور ان کے تلامذہ نے اپنی غیر معمولی صلاحیت کے باوجود ایک دینی مقصد کی خاطر اس سے انکار کیا تھا، خود امام زفر رحمہ اللہ کے متعلق امام صاحب فرمایا کرتے تھے کہ قاضی بننا تومعمولی بات ہے یہ توقاضیوں کی تربیت وتادیب کرسکتے ہیں۔
شادی
ترمیمغالباً ان کی دوشادیاں ہوئی تھیں، ایک ممتاز محدث خالد بن حارث کی بہن سے، دوسری ان کے بڑے بھائی کی بیوہ سے غالباً یہ نکاح صرف انھوں نے بیوہ کی پرورش کی خاطر کر لیا تھا۔
وفات
ترمیمبہت کم عمری یعنی کل 48/سال کی عمر میں وفات پائی، وفات کے وقت امام ابویوسف موجود تھے، انھوں نے آخری وصیت کی خواہش ظاہر کی، انھوں نے کہا کہ یہ سامان میری بیوی کے لیے ہے اور یہ تین ہزار درہم میرے بھتیجے کے لیے ہیں؛ پھرفرمایا کہ نہ تومجھ پرکسی کا کوئی حق ہے اور نہ میرا کسی پرکوئی حق ہے [11] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کوئی اولاد نہ تھی۔
اخلاق و عادات
ترمیماپنے زہد واتقاء اخلاق وکردار کے لحاظ سے بھی اپنے معاصرین میں ممتاز تھے، ان کی وفات کے بعد لوگوں میں یہ عام چرچا تھا کہ محض آخرت کی بازپرس کے خوف سے ان کا انتقال ہوا [12] حالانکہ ان کی زندگی بالکل بے داغ تھی، خود فرماتے تھے کہ میں نے اپنے بعد کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جس کی باز پرس کا مجھے خوف ہو۔ [13] ابراہیم بن سلیمان کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ امام زفر رحمہ اللہ کی خدمت میں بیٹھتے توکسی کی یہ مجال نہیں تھی کہ وہ دنیاوی باتوں کا تذکرہ کرسکتا اور اگرکوئی شخص دنیا کا تذکرہ چھیڑ ہی دیتا تووہ مجلس سے اُٹھ جاتے تھے۔ [14] امام صاحبؒ کے شاگردوں میں داؤد طائی مشہور صاحب زہد وتقویٰ بزرگ گذرے ہیں، ان سے اور امام زفر رحمہ اللہ سے بہت زیادہ بھائی چارہ تھا، حسن بن زیادہ کہتے ہیں کہ داؤد صرف عبادت میں مشغول ہو گئے؛ مگرامام زفر علم وعبادت دونوں کے جامع تھے۔ [15] یحییٰ بن اکثم فرماتے ہیں کہ میرے والد امام صاحب کے بعد امام زفر رحمہ اللہ کی مجالس میں اس لیے زیادہ جانا پسند کرتے تھے کہو ہ علم کے ساتھ صاحب ورع وتقویٰ بھی تھے۔ [16] خود فرماتے تھے میں نے دنیا میں رہنے کی کبھی خواہش نہیں کی اور نہ میرا دل کبھی دنیا کے مزخرفات کی طرف مائل ہوا۔ [17]
علم و فضل
ترمیمعلم و فضل میں ان کوجوامتیازحاصل تھا اس کا کچھ تذکرہ اوپر آچکا ہے، اس سلسلہ میں ائمہ فقہ وحدیث کے چند اقوال اور نقل کیے جاتے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ایک بار ایک مجمع میں فرمایا کہ: ھوامام من ائمۃ المسلمین و علم من اعلام الدین۔ ترجمہ: وہ ائمہ مسلمین کے ایک امام اور دین کی سربلندی کے ایک نشان ہیں۔ دوسرے ائمہ نے بھی ان کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے، عثمان بن ابی شیبہ کہتے تھے کہ میں نے اپنے والد سے ان کے علم و فضل کے بارے میں پوچھا توفرمایا کہ اس زمانہ کے سب سے بڑے فقیہ ہیں، ان کے اندر فقہ وحدیث کا بڑا اچھا امتزاج تھا، لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ تمھارے پاس جواحادیث ہوں وہ میرے سامنے پیش کرو میں رطب ویابس الگ کردوں گا ۔ [18] امام صاحب کے تلامذہ کے بارے میں عام طور سے یہ غلط فہمی تھی کہ وہ قیاس کوحدیث وآثار پرترجیح دیتے ہیں؛ لیکن یہ ایک صریح بہتان تھا، امام زفر فرماتے تھے کہ احادیث وآثار کی موجودگی میں ہم لوگ قیاس کوترک کردیتے ہیں۔ [19] علم حدیث میں انھوں نے اپنی جوتحریری یادگاریں چھوڑی ہیں ان کا تذکرہ آگے آئے گا۔
مجتہد کی حیثیت سے
ترمیمامام صاحب کے دوسرے مخصوص تلامذہ امام ابویوسف اور امام محمد کی طرح امام زفر کوبھی لوگوں نے مجتہد مطلق قرار نہیں دیا ہے، امام ابویوسف کے حالات ہیں ہم اس کی پوری توضیح کرآئے ہیں اس لیے ان کا اعادہ تحصیل حاصل ہے، امام زفر کے متعلق جن لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کی دلیل یہ ہے کہ امام زفر نے ایک بار فرمایا تھا کہ میں امام صاحب کی زندگی میں اختلاف کیا کرتا تھا؛ لیکن اب اختلاف سے ڈرتا ہوں اس لیے کہ ان کی زندگی میں اختلافی مسائل ان کے سامنے پیش ہوئے تھے توردوکد کے بعد اکثر ان کی رائے کوترجیح دینی پڑتی تھی؛ مگراب اس کی کوئی شکل باقی نہیں ہے۔ یہ بات اپنے موقع محل کے لحاظ سے صحیح ہے؛ مگران کومقلد محض قرار دے کر ان کے تمام مجتہدات کونظر انداز کردینا صریح ظلم ہے اوپر ذکر آچکا ہے کہ امام صاحب خو داپنے تلامذہ سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے کسی قول پراس وقت تک فتویٰ نہ دو جب تک کہ اس کا ماخذ معلوم نہ ہوجائے، جب امام صاحب خود اپنے تلامذہ کوتقلید محض سے منع کرتے تھے توپھر یہ کیسے ممکن ہے ک جس بات سے انھوں نے اپنے تلامذہ کوسختی سے منع کیا ان کے تلامذہ اسی کواپنا شعار بنالیتے؛ پھرامام صاحب نے اپنے درس وتدریس کا طریقہ ہی ایسا رکھا تھا کہ ان میں اجتہاد واستنباط کی صلاحیت لامحالہ پیدا ہوجاتی تھی، ان تمام باتوں کے باوجود ان کے تلامذہ میں سے توکوئی مجتہد مطلق پیدا نہ ہوا اور نہ اُن سے کم درجہ کے لوگ اس مرتبہ پرفائز کر دیے جائیں، یہ انتہائی زیادتی کی بات ہے، خاص طور پرامام زفر جن کے مجتہد مطلق ہونے کے بعض اور دلائل بھی ہیں۔ امام زفر کے تقریباً سترہ اجتہاد کردہ مسئلے ایسے ہیں جن میں وہ بالکل منفرد ہیں اور فقہ حنفی میں ان کے مطابق فتوے دیے جاتے ہیں، ان مسائل کوالاشباہ والنظائر کے شارح اور مشہور فقیہ احمد حموی نے ایک رسالہ میں جمع کر دیا ہے، اس رسالہ کی متعدد شرحیں اور تلخیصیں کی گئی ہیں؛ اسی طرح ابوزید دبوسی نے اپنی کتاب تاسیسی النظر میں ایک باب میں خاص طور سے ان مسائل سے بحث کی ہے، جن میں امام زفر نے امام صاحب سے اصولی یافروعی اختلاف کیا ہے، اس کی تمام تفصیلات علامہ زاہد الکوثری نے امام زفر رحمہ اللہ کے سوانح حیات میں کی ہیں، آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ ان کے مخصوص مجتہدات کی طرف، اتقانی زرکشی اور علامہ بزودی وغیرہ نے بھی اشارہ کیا ہے، اس کے بعد وہ پھرلکھتے ہیں: فان کان شان المجتہد المطلق الانفراد بمسائل فی لاصول والفروع فہا ہوزفر لہ انفرادات فی الناحسیتین علی ان الموافقۃ لامام فی الرای فی بعض مسائل الاصول والفروع عن علم بادلتہا لاتخل بالاجتہاد المطلق اصلاً۔ ترجمہ:اگرمجتہد مطلق کی شان یہی ہے کہ وہ بعض اصولی اور فروعی مسائل میں منفرد ہوتودونوں حیثیتوں سے امام زفر منفرد ہیں اور بعض اصولی یافروعی مسائل میں ان کے دلائل ومآخذ کی واقفیت کے ساتھ امام صاحب کی ہمنوائی کرنا بھی اجتہاد مطلق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امام صاحب ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اقیس اصحابی میرے اصحاب میں سب سے زیادہ قیاس کرنے والے۔ امام غزالی رحمہ اللہ سے کسی نے اصحاب ابوحنیفہ کے بارے میں پوچھا توانہوں نے امام ابویوسف اور امام محمد کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد فرمایا زفر سب سے زیادہ دقیقہ سنج تھے۔
تصنیف
ترمیمامام زفر رحمہ اللہ اپنے علم و فضل کے لحاظ سے امام صاحب کے خاص تلامذہ امام ابویوسف اور امام محمد سے کم ترنہیں تھے؛ مگران میں تصنیف وتالیف کا وہ مادہ یاتوفطرۃ کم تھا یانہوں نے اس مشغلہ کواختیار ہی نہیں کیا، اس لیے نہ توان کے خیالات اتنے زیادہ پھیل سکے جتنے ان دونوں بزرگوں کے پھیلے اور نہ ان کووہ شہرت ہوئی جوصاحبین کوہوئی، مناقب کردری میں ہے: کان زفر قلیل الکتابۃ یحفظ بالسمع حسن القیاس۔ ترجمہ: امام زفر لکھتے بہت کم تھے، وہ جوکچھ سنتے تھے اسے حافظہ میں محفوظ کرلیتے تھے اور بہترین قیاس کرتے تھے۔ حاکم نے حدیث میں ان کی دوکتابوں کا تذکرہ کیا ہے، لکھتے ہیں: ان لزفر نسختین فی الحدیث احداہما روایۃ ابی وہب والاخری روایتہ شداد بن حکم۔ [20] ترجمہ:حدیث میں امام زفر کے دومجموعے ہیں، ایک کے راوی ابووہب اور دوسرے کے راوی شداد بن حکم ہیں۔
بے فائدہ کلامی مسال سے گریز
ترمیماوپرذکر ااچکا ہے کہاس زمانہ میں فلسفہ کے اثر سے علما میں بہت سے ایسے مباحث اور لفظی اختلافات پیدا ہو گئے تھے جن کی حیثیت دین میں توکھچ نہیں تھی؛ مگرسوء اتفاق سے وہ اُس وقت توحید وآخرت کے مسائل کی طرح اہم ہو گئے تھے اور جولوگ ان کلامی مسائل اور فلسفیانہ موشگافیوں سے اپنے دامن کوبچائے رکھنے کی کوشش کرتے تھے، ان کے دامن پربھی لوگ دوچار چھینٹیں ڈال ہی دیتے تھے، امام صاحب اور ان کے تقریباً تمام اصحاب وتلامذہ ایسے غیر ضروری مسائل ومباحث سے گریز کرتے تھے؛ مگرپھربھی لوگوں نے ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیں جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اس وقت قرآن کے مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کا مسلہ عام طور سے موضوع بحث بنا ہوا تھا اور اس کے بارے میں عموماً لوگ ائمہ سے سوالات کرتے تھے، امام زفر گوان لایعنی باتوں سے بہت گریز کرتے تھے؛ مگرپھربھی کبھی کبھی زبان کھولنے پرمجبور ہونا پڑتا تھا، ایک روز کسی نے قرآن کے بارے میں پوچھا انھوں نے جواب دیا: القرآن کلام اللہِ۔ ترجمہ: قرآن کلام الہٰی ہے۔ یہ نہایت عاقلانہ جواب تھا؛ مگرسائل کا مقصد کچھ اور تھا، اس لیے اس نے فوراً ہی پھرپوچھا کہ کیا وہ مخلوق ہے؟ امام زفر نے ذراتند مگرہمدردانہ لہجے میں فرمایا کہ اگرتم ان دینی مسائل کے سوچنے اور غور کرنے میں مشغول ہوتے جن میں میں مشغول ہوں تووہ میرے لیے بھی مفید ہوتا اور تمھارے لیے بھی اور جن مسائل کی فکر میں تم پڑے ہوئے ہو وہ تمھارے لیے مضر ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے وہ چیزیں ثابت کرو جن سے وہ خوش ہو اور جن چیزوں کا تم کوخدا نے مکلف بنایا ہے اس میں اپنی جان ناحق نہ کھپاؤ۔ ایک بار حسن بن زیاد سے کسی نے کہا کہ امام زفر بہت قیاس کرتے تھے، انھوں نے کہا کہ یہ جاہلوں کی بات ہے، وہ عالم تھے؛ پھراس شخص نے کہا کہ امام زفر نے علم کلام میں غور وخوض کیا تھا؟ حسن نے کہا: سبحان اللہ کیا سطحی بات تم نے کی ہمارے اصحاب کے بارے میں سوا لکرتے ہو کہ انھوں نے علم کلام میں غور کیا تھا یانہیں، وہ اس سے بڑی چیز کے حامل تھے، وہ علم و فضل کی کان تھے، جس کوعقل نہیں ہوتی اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے علم کلام میں غور کیا اور اور ہمارے اصحاب تو: کانوا اعلم بحدوداللہ۔ ترجمہ: وہ حدوداللہ سے خوب واقف تھے۔ مقصد یہ تھا کہ ان کامشغلہ یہ نہیں تھا کہ وہ اُن مسائل میں جونہ تودنیا کی زندگی میں مفید ہوں اور نہ آخرت میں اپنا وقت ضائع کریں؛ بلکہ وہ حدود اللہ کی پاسبانی اور نگہبانی میں اپنی زندگی کھپاتے تھے، جوصرف انھی کے لیے نہیں بلکہ پوری زحلوق خدا کے لیے دونوں جہاں میں مفید ہیں۔
جرح و تعدیل
ترمیمعام محدثین نے امام زفر رحمہ اللہ کی روایات کوقابل قبول قرار دیا ہے اور ان کی توثیق و تعدیل کی ہے، امام ذہبی لکھتے ہیں وہ فقیہ، زاہد اور صدوق تھے، ان کی توثیق بہت سے لوگوں نے کی ہے، ابن معین بھی ان کی توثیق کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان میں فضل بن وکین کا قول نسل کیا ہے، ثقۃ ماموناً اسی طرح کے الفاظ حافظ ابن معین سے بھی نقل کیے گئے ہیں، ابن حبان نے بھی ان کوثقات میں شمار کیا ہے۔ اس توثیق و تعدیل کے ساتھ بعض محدثین اور ارباب رجال نے ان پرنقدوجرحی بھی کیا ہے، مثلاً ابن مہدی قاضی سوار وغیرہ؛ لیکن جیسا کہ ہم امام محمد کے حالات میں لکھ آئے ہیں کہ جولوگ ایک ہزار برس سے زیادہ سے مبوع ومطاع چلے آتے ہوں اور جن کے علوم و فضل پرامت کا ایک بہت بڑا طبقہ اعتماد کرتا چلا آتا ہو ان کے بارے میں اگردوچار آدمیوں کی رائیں اچھی نہ بھی ہوں تواس سے ان کی شخصیت پرکوئی اثر نہیں پڑتا؛ اگران منفرد رایوں پرکوئی حکم لگایا جائے توپھر مشکل سے کوئی ممتاز محدث یافقیہ ثقہ رہ جائے گا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (کردری:2/187۔ لمحات النظر:4)
- ↑ (لمحات النظر:6)
- ↑ (مناقب کردری:2/104)
- ↑ (مناقب کردری:1/50)
- ↑ (مناقب کردری:2/125)
- ↑ (مناقب کردری:2/184)
- ↑ (لمحات النظر:16)
- ↑ (کردری:1/184)
- ↑ (الانتقاء:173)
- ↑ (کردری:2/209)
- ↑ (مناقب کردری:2/186)
- ↑ (مناقب کردری:2/186)
- ↑ (مناقب کردری:2/183)
- ↑ (مفتاح السعادۃ)
- ↑ (مفتاح السعادۃ)
- ↑ (مناقب:184)
- ↑ (کردری:2/183)
- ↑ (مناقب کردری:183)
- ↑ (مناقب کردری:183)
- ↑ (معرفۃ علوم الحدیث:164)