زمزمہ جسے کمز گن (Kim’s Gun) اور بھنگیاں والا توپ (Bhangianwala Toap) بھی کہا جاتا ہے، ایک تاریخی توپ ہے، جسے احمد شاہ ابدالی کے حکم سے اس کے وزیر شاہ ولی نے 1757ء میں بنوایا۔ اس کی لمبائی 14 فٹ ساڑھے چار انچ اور نال کا قطر ساڑھے 9 انچ ہے۔ اس کا گولا آہنی ہوتا ہے۔ 1761ء میں احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی جنگ میں اسے مرہٹوں کے خلاف استعمال کیا اور کابل واپس جاتے ہوئے لاہور کے گورنر کے سپرد کر گیا۔

زمزمہ توپ
بنیادی معلومات
متناسقات31°34′8.00″N 74°18′26.00″E / 31.5688889°N 74.3072222°E / 31.5688889; 74.3072222
سنہ تکمیل1761

1762ء میں یہ توپ ایک سکھ جرنیل ہری سنگھ بھنگی کے قبضے میں آگئی اور بھنگیوں کی توپ کے نام سے مشہور ہوئی۔ بعد ازاں چڑت سنگھ والیٔ گوجرانوالہ اسے گوجرانوالہ لے گیا۔ 1806ء میں یہ توپ مختلف بھنگی سرداروں کے زیر تصرف رہی۔ آخر کار رنجیت سنگھ 1802ء میں اسے امرتسر سے لاہور لایا اور جب انگریزوں نے لاہور پر قبضہ کیا تو انھوں نے اسے مال روڈ پر (پنجاب یونیورسٹی کے سامنے اور عجائب گھر کے درمیان) بطور نمائش رکھ دیا۔ رڈیارڈ کپلنگ نے اپنے ناول کم میں اس توپ کا تذکرہ کیا ہے۔

زم زمہ توپ لاہور کی مشہور شاہراہ مال روڈ پر عجائب گھر( لاہور) کے سامنے کھڑی ہے،دوسری طرف ٹاؤن ہال لاہور ہے،جس میں ایک عدد جہاز پرواز کر رہاہے۔ تیسری طرف پنجاب یونیورسٹی اولڈکیمپس ہے۔ اور چوتھی طرف لاہور کا مشہور ناصر باغ (المعروف گول باغ) ہے،ناصر باغ کے پیچھے ہی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ہے،جس میں علامہ محمد اقبال نے تعلیم حاصل کی تھی۔

زم زمہ کی تیاری

ترمیم

یہ توپ 1761ء ؁ میں لاہور میں شاہ ولی خان نے تیار کروائی۔ اس وقت لاہور پر افغانستان کی حکومت تھی۔ شاہ ولی خان اس وقت کے افغان بادشاہ احمد شاہ درانی کی طرف سے وزیر تھا۔ اس نے1757ء ؁ میں اس توپ کو تیار کروانا شروع کیا اور پانچ سال کی مدت میں اس توپ کی تکمیل ہوئی۔ یہ اس وقت برصغیر میں بنائی گئی سب سے بڑی توپ تھی،اس توپ کی لمبائی 4.382 میٹر ہے،اس توپ کو تانبے اور پیتل سے بنایا گیا۔ شاہ ولی خان نے اس توپ کا نام زمزمہ رکھا۔ اور اس کو گورنر لاہور کے حوالے کر دیا۔

وجہ تسمیہ

ترمیم

زم زمہ کے کئی معنی ہیں۔ آتش پرست لوگ اپنی عبادت گاہوں میں آگ کی پرستش کرتے ہوئے یا نہاتے ہوئے آہستہ آہستہ جو الفاظ گنگناتے تھے، اسے بھی زمزمہ کہتے تھے۔ گانے کی اصطلاح میں ایک خاص آواز کے ساتھ گنگنانا بھی زم زمہ کہلاتا ہے۔ فارسی زبان میں شیر کی گرج کو بھی زمزمہ کہا جاتا ہے۔ ہو سکتا کہ فارسی زبان میں اس کے انھی معنوں کی مناسبت سے اس کا نام زمزمہ رکھا گیا ہو کہ جب یہ دوران جنگ دشمن پر گولہ باری کرتی تو شیر کی سی گرج جیسی آواز پیدا ہوتی

تاریخی حیثیت

ترمیم

یہ ایک جیسی دو توپیں بنائی گئیں تھیں۔ جن کو 1761ء ؁ میں احمد شاہ درانی نے پانی پت کی جنگ میں استعمال کیا۔ جنگ کے بعد وہ اس توپ کو لاہور کے گورنر کے پاس چھوڑ گیا،جبکہ دوسری توپ کو وہ اپنے ساتھ کابل کی طرف لے کر چلا،مگر بد قسمتی سے وہ توپ دریائے چناب کے پاس کھو گئی،اور اس کا آج تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔(یعنی ایسے کھوئی جیسے توپ نہیں کوئی چھوٹی سی سوئی ہو۔) 1762ء ؁ میں ہری سنگھ بھنگی نے خواجہ عبید سے جنگ کی اور لاہور سے دو میل دور خواجہ کے گاؤں پر حملہ کر کے اس کے تمام دفاعی ہتھیاروں سمیت’’زمزمہ‘‘ توپ کو بھی اپنے ساتھ لے گیا،اور اس کا نام تبدیل کرکے ’’سکھ اغواء کار بھنگی توپ‘‘(بھنگیاں والی توپ) رکھا۔

دو سال بعد وہ اس توپ کو لاہور کے قلعہ شاہ برج میں لے گیا۔ لاہور سے یہ توپ گوجرانوالہ کا گورنر چرت سنگھ اپنے ساتھ گوجرانوالہ لے گیا۔ ’’چرت سنگھ‘‘ سے ’’زمزمہ‘‘ توپ ’’چٹھا‘‘ نے چھین لی اور لے کر احمد نگر چلا گیا۔ وہاں یہ توپ دو بھائیوں ’’احمد خان چٹھا ‘‘ اور ’’خان پیر محمد چٹھا‘‘ کے درمیان لڑائی کا سبب بن گئی۔ اس لڑائی میں احمد خان کے دو بیٹے جبکہ پیر محمد کا ایک بیٹا مارے گئے۔ سکھوں کو کیوں کہ اس توپ میں شروع سے ہی دلچسپی رہی تھی ،اس لیے گجر سنگھ بھنگی نے تو پ کے لالچ میں ان دونوں بھائیوں کی جنگ میں پیر محمد چٹھا کا ساتھ دیا۔ پیر محمد چٹھا نے فتح حاصل کرنے کے بعد فساد کی جڑ یعنی زمزمہ توپ گجر سنگھ کو دے دی۔ دو سال تک یہ توپ گجر سنگھ بھنگی کے پاس رہی پھر اس سے چرت سنگھ نے چھین لی،اور سکھوں سے دوبارہ چٹھا نے حاصل کر لی۔

1802ء ؁ میں رنجیت سنگھ بھنگی نے مکمل طور پر اس کو اپنے قبضہ میں لے لیا،اور ڈسکہ وزیر آباد قصور،سجن پور اورملتان کی جنگوؤں میں اس کابہترین استعمال کیا۔

ملتان کے محاصرہ میں یہ توپ بری طرح سے متاثر ہوئی یہاں تک کے استعمال کے قابل نہیں رہی،اس پر اس کو لاہورواپس بھیج دیا گیا۔

1860ء ؁ تک یہ توپ دہلی دروازہ لاہور کے سامنے کھڑی رہی۔

1864ء ؁ میں وزیر خان کی بارہ دری کے سامنے پائی گئی۔

1870ء ؁ میں لاہور کی مشہور ’’ٹولنٹن مارکیٹ‘‘ Tollinton Market کے سامنے کھڑی رہی،اس کے بعد اس کو موجودہ لاہورمیوزیم کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اور یہ آج تک لاہور میوزیم کے سامنے کھڑی ہے۔[1]

نگار خانہ

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم