ساز دکن
سازِ دکن حیدرآباد، دکن سے چھپنے والا ایک اردو اخبار ہے۔ اس اخبار کے خریدار اور پڑھنے والے سیاست، منصف، اعتماد کے مقابلے بہت کم ہیں۔ تاہم یہ اخبار کئی اہم سماجی موضوعات پر گفتگو شروع کرتا ہے، اس وجہ یہ اخبار شہر حیدرآباد کے اردو جانکاروں اور سماجی مسائل میں غیر معمولی دل چسپی رکھنے والوں مقبول ہے۔
اشاعت
ترمیمیہ اخبار کی اشاعت سالار جنگ کامپلیکس، دیوان دیوڑھی سے ہوتی ہے۔[1]
سماجی موضوعات پر توجہ
ترمیمحیدرآباد، دکن میں ایسے کئی معاملے سامنے آتے رہے ہیں جن میں مسلمان قوم اپنی معاشی بد حالی، مذہبی بے شعوری، تعلیمی کمی یا مروجہ زمانے کے اصول و رواج کی کمی کی وجہ سے ایک تاریک لوگوں کا زمرہ دکھائی پڑتے ہیں۔ ایسے معاملات کے تجزیے اور صحیح تصویر دنیا کے آگے پیش کرنے کی اس اخبار نے پھر پور کوشش کی ہے۔ حیدرآباد میں ایک تکلیف دہ مسئلہ یہ پیش آیا ہے کہ کئی عرب ممالک سے معمر شیوخ کچھ وقت تک حیدرآباد میں رہ کر یہاں کسی غریب مسلمان لڑکی سے شادی کرتے ہیں اور پھر اپنے وطن لوٹ جاتے ہیں۔ وہ بعد میں خط یا ٹیلی فون کے ذریعے طلاق دے دیتے ہیں اور اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ اخبار ساز دکن نے تحقیقی مضمون لکھ کر یہ ثابت کیا کہ حالاں کہ غریب عوام کا کچھ معاملوں میں معصومیت سے دھوکا خوردہ ہونا یا دانستہ طور عرب دورہ کرنے والوں کے ہاتھوں اپنی دختر فروشی ناقابل انکار ہے تو ضرور، لیکن معاملے اتنے گمبھیر یا سنگین اور وسیع نہیں جتنے کے میڈیا میں بتائے گئے ہیں۔ اسی طرح سے بہ یک وقت تین طلاق کے موضوع پر بھی اس اخبار سے یہ تحقیق کی اور اس بات کو آشکارا کیا کہ اس قبیح عادت کے رائج ہونے کے باوجود بھارت اور خاص طور پر حیدرآباد میں طلاق کی شرحیں مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہندو سماج میں ہیں۔ یہ اخبار کی بکری اور عوامی گفتگو اس وقت کافی زیادہ ہو گئی تھی جب اس میں جامعہ عثمانیہ کے شعبہ صحافت کے پروفیسر عبد الرحیم کا نکاح متعہ پر مضمون چھاپا۔ مرحوم پروفیسر عبد الرحیم نے اس نکاح کے تاریخی پس منظر، سماجی پہلوؤں اور اس کے متعلق شیعہ اور سنی نقطہ نظر کا تجزیہ کیا۔ اس وجہ سے ساز دکن کا یہ مضمون کئی جرائد میں یا تو چھپا تھا ، اس کا حوالہ دیا گیا تھا۔