انڈین اعتماد ایک اردو روزنامہ اخبار ہے جو حیدرآباد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے حیدرآباد سے شائع ہوتا ہے۔ اس کے مدیر اعلٰی برہان الدین اویسی ہیں۔[1] وہ حیدرآباد، دکن کے سابق ایم پی سلطان صلاح الدین اویسی کے بیٹے اور موجودہ ایم پی اسد الدین اویسی کے بھائی ہیں۔

اگر چیکہ کچھ حلقوں میں اسے انڈین اعتماد کہا گیا ہے، تاہم عام بول چال میں یہ اخبار اعتماد اور روزنامہ اعتماد کے طور پر مشہور ہے۔ اس کے لوگوں میں سابق ریاست حیدرآباد کا لوگو اور نعرہ موجود ہے، جو العظمۃ للہ یا عظمت اللہ کے لیے ہے۔ اس طرح راست یا بالواسطہ طور یہ اخبار حیدرآباد کے گم شدہ ماضی کے دور کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، حالاں کہ یہ اخبار ایک سیاسی پارٹی کا ترجمان ہے۔

مواد

ترمیم

یہ اخبار منصف اخبار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جدید ترین ٹکنالوجی کو بہ روئے کار لاتا ہے۔ اسی طرح اخبار میں نئی جان ڈالنے کے لیے منصف ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اخبار نے منصف اخبار اور سیاست اخبار کے عملے کو بھاری تنخواہوں سے راغب کیا۔ کچھ سینیر صحافیوں کو ترغیب دینے کے لیے حیدرآباد کی صحافت میں پہلی بار اس اخبار نے دفتری کار کی سہولت فراہم کی۔

اس اخبار میں حالات حاضرہ پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے موقف اور ان کے نقطہ نظر کی بھر پور وکالت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مجلسی قائدین کے سیاسی دوروں، عوامی ملاقات، عوامی جلسے اور تقاریر کی مکمل رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ مجلس بچاؤ تحریک، بھارتیہ جنتا پارٹی، مقامی اخبار سیاست اور اس کے مدیر زاہد علی خان اس اخبار کی تنقید کے اہم نکات رہے ہیں۔ سیاست اخبار کے لیے خدمات انجام دینے والے مقامی شیعہ ذاکر علامہ اعجاز فرخ بھی اعتماد کی تنقید کا مرکز رہ چکے ہیں، حالاں کہ یہ تنقید مسلکی فرقہ وارانہ نوعیت کی نہیں تھی، تاہم اعجاز فرخ کو اس اخبار میں بار بار مجوسی کہ کر مخاطب کیا گیا، جو غالبًا ان پارسی منظر سے ابھرنے کی وجہ سے کہا جاتا تھا۔ چوں کہ یہ اخبار کئی موضوعات پر جذباتی رخ اختیار کرتا ہے، اس لیے یہ اخبار حیدرآباد کے پرانے شہر کے عوام میں کافی مقبول ہے۔اس اخبار کی اہم خوبی یہ ہے کہ وہ جذباتی انداز رکھتے ہوئے بھی بہ ظاہر ایک معتدل انداز میں اپنا نقطہ نظر رکھتا ہے۔ چنانچہ اسی اخبار میں یکساں طور پر حیدرآباد کے ایم بی اسد الدین اویسی کے تقاریر کی پورٹنگ بھی موجود رہتی ہے جو لندن میں تعلیم یافتہ بیرسٹر ہیں، تو وہیں ان کے ایم ایل اے بھائی اکبر الدین اویسی کی تقاریر کی بھی رپورٹنگ موجود ہے۔ اکبر پر ایک خطرناک جان لیوا حملہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں اشتعال انگیز تقاریر کے مقدموں کا سامنا بھی ہے۔[2][3] [4]

حوالہ جات

ترمیم

خارجی روابط

ترمیم