دشتِ آدم اور ویر گاتھا کے بعد سلیم شہزاد کا مرقومہ سانپ اور سیڑھیاں اپنے موضوع و مواد، زبان و بیان ، طرزِ اظہار اور ٹیکنک کے لحاظ سے دونوں ماقبل ناولوں سے آسان تر اور عصری حسیت سے ہم آہنگ اپنے عہد کا ترجمان ایک ایسا شاہ کار تمثیلی اورعلامتی اظہاریہ لیے ہوئے ہے جسے عصرِ رواں کا قاری پڑھتے ہوئے اپنے عہد میں پیش آنے والے حقیقی کرداروں ، واقعات و حادثات، سیاست کے گلیاروں میں ہونے والی سودے بازیوں ، سماج کے بہ ظاہر بااثر افرادکی ہوس ناکیوں، سیاسی بازی گروں کے ہاتھوں فن اور فن کاروں کی نیلامیوں، روز بہ روز ظاہر و باطن میں ہونے والی تخریبی تبدیلیوں اور زندگی میں بپا نا ختم ہونے والے مسلسل عروج و زوال کی کہانیوں کا ایک چلتا پھرتا خاکہ اپنی نظروں کے سامنے گردش کرتا ہوا دیکھتا ہے۔​ ’’ سانپ اور سیڑھیاں‘‘ یہ ایک ایسا تمثیلی سرنامہ ہے جو مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والے مسلسل عروج و زوال کا اشاریہ ہے۔ سانپ اور سیڑھی یہ ایک ایسا کھیل ہے جو ہر کھیلنے والے کو ہر لمحہ غیر یقینی عروج و زوال کی کیفیات میں مبتلا رکھتا ہے اور یہ سماج کے ہر طبقے کے ساتھ مشتر ک ہے۔ سلیم شہزاد نے اس ناول کے سہارے سیاسی نیتاوں کی ادبی دنیا میں گھس پیٹھ اور ادب کے گلیاروں میں اپنے فن بل کہ اپنے ضمیر کی سودے بازی کرنے والے ادیبوں اور فن کاروں پر علامتی نشتر چلائے ہیں۔ فسطائیت کے فروغ اور انسانیت کے مقابل حیوانیت کے ابلاغ کے لیے کس طرح اپنے فکر وفن کو سرِ عام فروخت کرتے ہوئے آج کے بعض ادیب اور فن کار مخربِ اخلاق حرکتوں پر اتر آتے ہیں ، اِن عناصر کو بڑی بے باکی سے بیان کرتے ہوئے ناول نگارسلیم شہزاد’’سانپ اور سیڑھیاں‘‘ کو عصری حسیت سے ہم رشتہ ایک سچا اظہاریہ بنانے میں کام یاب نظر آتے ہیں۔​ سلیم شہزاد کایہ ناول بیانیہ ماحول کی واقعیت سے گریز نہیں کرتا ۔ اس کے کردار اپنے علاقے کی مخصوص زبان بولتے اور تہذیبی ، لسانی اور علاقائی غیر یکسانی کے باوجود ایک ہمہ گیر گلوبل منظر نامے کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی سیاسی اتھل پتھل اوران پر غیر ملکی اثرات کے اظہار میں سلیم شہزاد نے جو لسانیاتی تنوع اختیار کیا ہے وہ قاری کو متاثر کرتا ہے۔ ہندوستان کی علاقائی زبانوں اور بولیوں کی فن کارانہ اور ادیبانہ آمیزش سے ناول کا اسلوبیاتی پہلو دو چند ہو گیا ہے۔ چوں کہ سلیم شہزاد ’’شاعری اور افسانے کی علامتوں میں معنوی تفریق کے قائل ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اس ناول میں کہیں بھی علامتوں اور تمثیلوں کے انسلاک میں شعریت کا ہلکا پھلکا امتزاج بھی نظر نہیں آتا۔ ’’ دشتِ آدم‘‘ اور ’’ویرگاتھا‘‘ کی بہ نسبت اپنے عصر سے ہم رشتہ ’’سانپ اور سیڑھیاں‘‘ قاری کو نہ صرف اپنی طرف کشش کرنے میں کام یاب ہوتا نظر آتا ہے بل کہ اُسے اپنے عہد سے باخبر کرتا بھی دکھائی دیتاہے۔

محمد حسین مشاہد رضوی